سعودی فنڈنگ کے باعث ملایشیا میں شیعہ مسلمانوں کی زندگی اجیرن اور ریاعت اللہ فاروقی کی منطق
ریاعت اللہ فاروقی لکھتے ہیں کہ ” میں ایک سے زائد بار یہ بات لکھ چکا ہوں کہ ایران کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔ اس بات کی تصدیق چند روز قبل اس وقت ہوئی جب ملیشیا سے ہمارے دوست عثمان غنی پاکستان تشریف لائے تو میرے غریب خانے کو بھی رونق بخشی۔ عثمان صاحب نے بتایا کہ ملیشیا کی وزارتِ مذہبی امور واحد وزارت ہے جو براہ راست بادشاہ کو جوابدہ ہے اور وہیں سے ہدایات لیتی ہے۔ اس وزارت کے تحت ملیشیا کے چھ مفتی اعظم کام کرتے ہیں جن کی شوریٰ مذہبی فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے۔ ملیشیا کی وازرتِ مذہبی امور سرکاری فرمان کے تحت شیعہ کو کافر قرار دے چکی ہے اور صرف کوئی سرکاری نوٹفیکیشن جاری کرکے فارغ نہیں ہوگئی بلکہ یہ فرمان پوسٹر کی صورت ملیشیا کی تمام مساجد کو جاری کرچکی ہے جہاں اسے فریم کرکے ہر مسجد کی مرکزی دیوار پر آویزاں کرنا لازم ہے۔ پورے ملیشیا میں کوئی ایک بھی ایسی مسجد نہیں جہاں یہ فرمان آویزاں نہ ہو۔ دوسری جانب سعودی عرب گزشتہ برس تک ایرانی عازمین حج کو بڑی تعداد میں قبول کرتا آیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انہیں مسلمان ہی سمجھتا ہے۔ رواں سال ایرانی حجاج کو قبول نہیں کیا جا رہا لیکن اس کی وجہ بھی سیاسی و سیکیورٹی ایشوز ہیں مذہبی نہیں۔ اس صورتحال میں اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایران کی سعودی عرب کے بجائے ملیشیا سے سخت مخاصمت ہوتی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کا پڑوسیوں سے مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے جو مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔
”(تکفیری کمنٹس والے فوری بلاک کردیئے جائیں گے)
جس پر نور درویش نے یہ سوال اٹھایا کہ ” فاروقی صاحب کی پوسٹ پر کمنٹ کرنے کی آپشن نہیں ہے اس لئے سوال یہاں پوچھ رہا ہوں کہ ملیشیئن حکومت کے اس اقدام کے بارے میں انکی کیا رائے ہے اور اہل تشیع کی تکفیر پر وہ کیا رائے رکھتے ہیں۔ چونکہ انکی اکثر تحاریر میں پاکستان میں سرگرم تکفیری گروہوں سمیت اپنے مسلک پر تنقید بھی کی جاتی ہے، اس لیے یہ سوال پوچھ رہا ہوں کیونکہ متوازن جواب کی امید ہے” ۔
جواب میں ریاعت اللہ فاروقی صاحب کا کہنا تھا ” نور درویش صاحب میں نے آج اس موضوع پر “فرقہ واریت کی آلودگی” کے عنوان سے تفصیلی پوسٹ لکھی ہے اور اس میں میرا موقف بہت صراحت کے ساتھ آ چکا لیکن یہاں بھی صاف لفظوں میں بتاتا چلوں کہ میں شیعہ کی تکفیر کا آج قائل ہوں اور نہ ہی کبھی ماضی میں قائل رہا
اس کے بعد اسی معاملے پر اٹھاے جانے والے باقی سوالات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سعودی عرب کا شیعہ مسلمانوں سے مسلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ ابن تیمیہ اور عبدلوہاب کی تکفیری تعلیمات کے عین مطابق مذہبی ہے
ملیشیا میں مقیم وقار خان کے تبصرے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ملیشیا میں شیعوں پر تمام تر پابندیوں، سختیوں اور تعصب کے باوجود سرکاری سطح پر ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کا ذکر فاروقی صاحب نے کیا البتہ عوامی سطح پر اہل تشیع سے نفرت اسی طرح راسخ ہے جیسے سعودی عرب میں پائی جاتی ہے
اسی موضوع پر علی عباس تاج نے نشاندہی کی کہ یہ وہی ملیشیا ہے جو سعودی فنڈنگ ملنے سے پہلے تک ایران میں آنے والے انقلاب کو اسلامی انقلاب کہہ کر اس کی حمایت کیا کرتا تھا – لیکن سعودی فنڈنگ کے بعد وہ کھل کر شیعہ دشمنی پر اتر آیا ہے –