لا تکفیر کانفرنس ، قندیل بلوچ کا قتل اور قرارداد مذمت کی پرچی – عامر حسینی
کسی ایک مقرر نے بھی قندیل بلوچ کے قتل پہ بات تک نہیں کی سوائے مفتی گلزار نعیمی کے جن کو میں نے زاتی طور پہ درخواست کی تھی کہ وہ اس قتل بارے انسانی نکتہ نگاہ سے بات کریں-یہی درخواست میں نے مولوی مظہر الحق تھانوی سے کی تھی وہ گول کرگئے جبکہ قرارداد بارے پرچی سٹیج پہ بھیجی گئی تو اس کانفرس کے منتظمین نے کہا کہ قرارداد آخر میں جو پڑھی جائے گی
اس میں قندیل بلوچ کے قتل کی مذمت کی جائے گی لیکن بوٹ پالشئے فیصل رضا عابدی کی تقریر جو سب سے زیادہ لمبی اور اسٹبلشمنٹ نوازی کی انتہائی گھٹیا عکاس تھی کے بعد کسی بھی قرارداد کے بغیر کانفرنس ختم کردی گئی اور یوں مرا اندازہ ٹھیک ثابت ہوا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد سید خرم زکی کی فکر پہ روشنی ڈالنا نہیں تھا بلکہ اس کے نام پہ اپنی دکانداری چمکانا مقصود تھا۔
سب سے کم اگر کوئی زات اس کانفرنس میں زیربحث آئی تو وہ خرم زکی کی زات اور پھر ان کی فکر تھی۔اس کانفرنس میں نہ تو ڈاکٹر حنا زکی کی تقریر ہوئی نہ خالد راو کی نہ مدعی ایف آئی آر اور نہ ہی کسی اور نہ ولید محمود شیخ کی ۔کانفرنس میں سید خرم زکی کے بقول بک جانے والے ایک کرئیرساز بندے کو بڑا پروٹوکول ملا جس کے تانے بانے جاکر بینا سرور اینڈ کمپنی سے ملتے ہیں-
کراچی کی حقیقی ترقی پسند قوتیں اس کانفرنس میں یا تو سرے سے شریک ہی نہیں تھیں یا اکا دکا محض علامتی طور پہ شریک ہوئیں ۔اس پوری کانفرنس میں کسی ایک مقرر نے خرم زکی جس بلاگ کے ایڈیٹر رہے کا زکر تک نہ کیا اور نہ ہی اس بلاگ کے موجودہ ایڈیٹر تک کا کوئی پیغام وغیرہ سنایا گیا
۔خرم خالی لفظ تکفیر پکارنے کو قاتلوں کی شناخت چھپانے کا عمل قرار دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ تکفیری دیوبندی پکارا جائے اور یہی لفظ بار بار بولنے سے وہ شہید ہوئے تھے مگر اس کانفرنس میں سب سے زیادہ سنسر یہی اصطلاح ہوئی۔خرم زکی کے قتل پہ پیش رفت کو آگے بڑھانے کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا اس پہ کوئی بات سامنے نہیں آئی۔