ایدھیؒ اور اعضاء کی پیوند کاری – امجد عباس
عبد الستار ایدھیؒ بلا شبہ ایک عظیم ترین انسان تھے، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ علماء کرام یہ واقعہ بیان کرتے نہیں تھکتے کہ ایک بدکار عورت نے پیاسی بلی کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے جنت میں جگہ دے دی، ایدھیؒ صاحب نے تو لاکھوں دُکھی انسانوں کی مدد کی جبکہ اُنھیں کسی لحاظ سے “بُرا” بھی نہیں کہا جا سکتا، اُنھوں نے بے سہاروں کو سہارا دیا، اللہ تعالیٰ اِنھیں کارِ خیر کی ضرور جزا دے گا، ارشادِ ربانی ہے کہ اچھائی اور بھلائی کا بدلہ اچھائی اور بھلائی کے سوا کیا ہو سکتا ہے!
ایدھیؒ نے جاتے ہوئے اپنی آنکھیں بھی دے دیں جن سے دو نابیناؤں کو بینائی ملی ہے، بظاہر کسی غیر عالم کے سراہے جانے پر اہلِ مذہب سیخ پاہوتے ہیں، یہی معاملہ ایدھیؒ کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملا۔۔۔
وہ ایک سادے مسلمان اور عظیم ترین انسان تھے، اُنھوں نے اپنی ذمہ داری بہت اعلیٰ طریقے سے ادا کی۔
وہ اپنے عظیم کاموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
جہاں تک اعضاء کی پیوندکاری کی بات ہے تو ماضی میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری یا انتقالِ خون ممکن نہ تھے، ایسے میں فقہاء نے ایسے کاموں سے منع کیا۔ ماضی میں انسانی لاش کی بے حرمتی کے لیے اُس کا مثلہ کیا جاتا تھا، جسے اسلام نے جرم گردانا۔
اب جبکہ خون کا انتقال ایک مفید عمل قرار پایا ہے، اِس سے انسانی جان بچتی ہے، یہ عمل فقہاء نے درست قرار دیا ہے۔ بندہ کی نظر میں اعضاء کی پیوند کاری بھی اِسی طرح درست ہے۔ زندگی میں کسی کو کوئی عضو دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ خود کو ناقابلِ تلافی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، جبکہ بعد از موت بھی اعضاء دینے کی وصیت کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مفید عمل ہے،اِس عمل پر میت کی توہین کا عنوان نہیں لاگو ہوتا۔
انسانی لاش کی چیر پھاڑ حرام ہے اگر توہین کی خاطر کی جائے، ورنہ پوسٹ مارٹم کی صورت میں یہ عمل جائز ہے، کیونکہ مقصد توہین نہیں ہوتا، یہی حال اعضاء کی وصیت کا بھی ہے کہ یہ عمل جائز ہے بلکہ مستحسن ہے، یہ میت کے لیے باعثِ توہین نہیں ہے، میری دانست میں شرعی اُصولوں کو مدِنظر رکھا جائے تو بظاہرایسے اُمور کا جواز ہی راجح ہے۔۔
اللہ العالم بالصواب