شہید خرم زکی کی علمیت پروفیسر ادریس ازادی کی زبانی
میں ان سے ایک ہی بار ملا اور بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے میرا آرٹیکل پڑھا جوکہ ’’گریوٹیشنل ویو کی دریافت‘‘ کے موقع پر ایک تعارفی سا مضمون تھا۔ پھر ’’جی ویو‘‘ پر کانفرنس کا اعلان ہوا تو ان کی کال آگئی۔ کہنے لگے، ’’میرا نام خرم زکی ہے، اور میں آپ سے ملنا چاہتاہوں‘‘۔
حرف ’’ز‘‘ کی ادائیگی کے وقت زبان کو اوپر کےدانتوں کے ساتھ لگا کر بات کرتے تھے۔ میں نے مزید تعارف پوچھا تو انہوں نے اپنا کام بتایا جو صحافت اور سول سوسائٹی کے حوالے سے وہ کررہے تھے۔ میں نے کہا، ’’ارے واہ! زکی صاحب! آپ نے تو مجھے بھی مشتاق بنا دیا۔ آج ہی ملتے ہیں۔ یونیورسٹی میں میری کلاس گیارہ بجے ختم ہوجائے گی تو اس کے بعد مل لیتے ہیں‘‘۔ فرمانے لگے کہ وہ یونیورسٹی آجاتے ہیں۔
وہ اور ریحان نقوی میرے پاس انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی تشریف لے آئے۔ میں سگریٹ نوشی کی وجہ سے عموما کینٹین پر مہمانوں سے ملتاہوں۔ سو نقوی صاحب اور زکی صاحب کو بھی لے کر کینٹین پر آگیا۔
ہم وہاں گھنٹہ بھر بیٹھے۔ خوب باتیں کیں۔ اور میں یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ زکی صاحب کا فزکس اور فلسفہ کا نالج حیران کُن تھا۔ مجھ سے انہوں نے کچھ سوالات کیے تو مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت تو اچھی خاصی فزکس پڑھے ہوئے ہیں۔ نقوی صاحب مسلسل زیر ِ لب مسکراتے رہے ۔ خیر! میں نے بھی ان کی فرمائش پر سٹرنگ تھیوری سمجھانے کی کوشش کی۔ اور یوں ہماری محفل کا موضوع فزکس اور فلسفہ رہا۔ ذاتی باتیں بہت کم ہوئیں۔ بس اتنا انہوں نے بتایا کہ وہ ھُود بھائی کے بہت قریبی ہیں اور ان سے بھی ملاقات ضرور کرتے ہیں، یعنی جب بھی اسلام آباد آتے ہیں تو اور یہ کہ گزشتہ شب بھی ھُود بھائی سے ملے۔
انہوں نے ایران کے بارے میں بتایا کہ وہاں کس طرح فلسفہ کے طلبہ دلیری کے ساتھ ہر موضوع پر بات کرسکتے ہیں اور کس طرح وہاں علوم ِ جدیدہ کو تیزی کے ساتھ متعارف کروایا جارہاہے۔ انہوں نے اپنے سول سوسائٹی والے کام کی بابت بھی بتایا لیکن کچھ زیادہ تفصیل نہ بتائی۔ بس یہی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں عورت کی عزت، بچوں کی تعلیم، صحت اور اِس طرح کے دیگر معاملات کا مسئلہ حل ہوجائے اور یہ انہیں بہت دُکھ ہوتاہے جب وہ یہ سب زیادتیاں ہوتی دیکھتے ہیں۔
خیر! جب ہم اُٹھنے لگے تو انہوں نے ایک دو سیلفیاں بھی لیں میرے ساتھ ۔ لیکن وہ تصاویر میں نہ دیکھ سکا۔ شاید ریحان نقوی صاحب کے پاس ہوں۔
ان کی شہادت کا سنا تو بے پناہ صدمہ ہوا ۔ ایک شاک لگا اور کئی دن تک رہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ نہایت پیارے انسان تھے۔
ادریس آزاد صاحب