وصئ مصطفیٰؐ امام علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم – حیدر جاوید سید
وصئ مصطفیٰؐ امام علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
سید ابوالحسن امام علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم 13 رجب المرجب 30 عام الفیل (اعلانِ رسالت سے نو یا دس برس قبل) کو بیت اللہ میں ورود مسعود کی سعادت حاصل کر کے دنیا میں تشریف لائے۔ 21 رمضان 40 ہجری کو کوفہ میں جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے اعلان کر گئے ’’ربِ کعبہ قسم علیؑ کامیاب ہو گیا‘‘۔ 63 یا 64 سالوں پر مشتمل حیاتِ جاودانی میں زہد و تقویٰ، شجاعت، علم و عمل، پاسبانئ نبوت ؐ، جہاد اکبر و جہاداصغر کے مرحلوں میں ایسے انمٹ نقوش قائم کر گئے جو آج بھی رشد و ہدایت کا منبہ ہیں۔ کتبِ تواریخ کے مطابق امام علی ؑ نے جنابِ سیدہ بتول فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد پانچ عقد کئے۔
مجموعی طور پر ستائیس صاحبزادے اور صاحبزادیاں آپ کی ذریت ہیں۔ ابوالحسن اور ابو تراب معروف کنیتیں ہیں۔ تصدیقِ رسالت ؐ فرمانے والے پہلے مرد ہیں۔ خواتین میں یہ سعادت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی والدہ گرامی جنابِ سیدہ خدیجتہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کو حاصل ہے۔ معروف معنوں میں اسلام قبول کرنے کی بجائے تصدیقِ رسالتؐ اس لئے لکھا ہے کہ اس تاریخی و فکری مغالطے کی تصیح مقصود ہے کہ امام علیؑ ، ان کے والدین گرامی، بی بی سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؑ اعلانِ رسالتؐ کے قبل دین حنیف (دینِ ابراہیمیؑ جسے بعض کتب میں دین اسلام بھی کہا گیا ) پر کاربند تھے۔ سرکارِ دوعالم ؐ نے اعلانِ رسالت فرما کر دعوتِ اسلام دی تو مکہ کے دو طرح کے لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
اولاََ وہ جو قبل ازیں دینِ حنیفؑ پر کاربند تھے اور انہوں نے حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کے ارشادات ور پیشن گوئیوں کی روشنی میں حضرت محمد ﷺ کے اعلانِ رسالتؐ کی تائید فرمائی۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جن میں کچھ مشرکین تھے اور کچھ لا مذہب۔ ان کا دائرہ اسلام میں داخل ہونا قبولِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے۔ بنو امیہ کے وظیفہ خوار تاریخ نویسوں کا معاملہ رہا ایک طرف حیرانی ان صاحبانِ علم پر ہے جو غیر جانبداری کے دعویدار ہوئے مگر تائید اسلام اور قبولِ اسلام کی تشریح کرنے کی بجائے اس غلط العام بات کو ہی آگے بڑھایا کہ بچوں میں اسلام قبول کرنے والوں میں علیؑ پہلے نمبر تھے۔ تعصبات کا شکار لوگوں کو کون سمجھائے فضیلتیں گھڑی نہیں جاتیں۔
پانچ ساڑھے پانچ سال کے دورِ خلافت میں امام علیؑ کے مقابل میدان جنگ میں اترنے والوں کی خطائے اجتہادی پر قربان جائیے۔ ہزاروں مسلمانوں کوکھیت کروا کے تقدس کے لبادے پہن لینے والے کیا اس ارشادِ رسول ؐ سے واقف نہ تھے کہ ’’علیؑ سے محبت مجھ محمدؐ سے محبت اور علیؑ سے عداوت مجھ محمدؐ سے عداوت ہے‘‘۔ جنگ کا میدان سجانا، انکارِ خلافت کرنا، سازشوں کے جال بچھانا یا پھر علیؑ کو مطعون کرنا یہ سب عداوت نہیں تو کیا ہے۔
کس نے حق دیا کہ باغیوں ، قاتلوں اور منکرینِ ولائیت و خلافت علیؑ کو خطائے اجتہادی کی سند عطاکی جائے؟ دوہرا میعار ہے ہمیشہ سے مسلمانوں کا۔ خانوادۂ رسالت مآبؐ کی توہین، اس سے جنگ، ان کا قتل عام تو خطائے اجتہادی ٹھہرے اور اگر قاتلوں، باغیوں اور منکرین کی نشاندہی کی جائے تو قابلِ گردن زدنی، سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عثمانؓ کے قتل کے بعد علیؑ ابنِ ابی طالبؑ نے کسی سے خلافت کی بھیک مانگی تھی یا مسلمان خلافت لے کر ان کے دروازے پر آئے تھے؟ تین دن تک علی ابنِ ابی طالبؑ خلیفہ بننے سے انکار کرتے رہے اور تیسرے دن جب یہ محسوس کیا کہ ان کا انکار ایسی بدامنی اور خانہ جنگی کا دروازہ کھول دے گا جس سے انقلابِ مصطفویؐ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا تو بھی دو ٹوک انداز میں کہہ دیا’’لوگو! کل صبح مسجدِ نبویؐ میں چلے آنا اگر بیعت مقصود ہو۔ علیؑ اپنے گھر کی چار دیواری میں بیعت واعلانِ خلافت کو درست عمل نہیں سمجھتا‘‘۔
ہمیں آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ کیا جو اجماعِ امت، خلافت علیؑ کے اعلان کے وقت تھا وہ قبل ازیں بھی تھا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ پہلی خلافت کا اعلان سقیفہ میں ہوا۔ سقیفہ کا اجتماع اجماعِ امت نہیں تھا۔ مدینہ کے دو انصار قبیلوں کے نمائندے، چار مہاجرین، ان میں سے بھی ایک غلام۔ دوسری خلافت وصیت و نامزدگی پر ہوئی۔ تیسری خلافت کا فیصلہ جس کمیٹی نے کیا اس کے معزز ارکان کی نامزدگی بھی ایک شخصیت نے کی۔ رسولؐ تو وصیت نہیں کر سکتے، کسی کو نامزد نہیں کر سکتے، کمیٹی مقرر نہیں کرسکتے، مگر مسلمانوں کو یہ حق ہے ؟ بدقسمتی یہ ہے کہ اصل میں ہمیں تاریخ کو مذہب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ 14 سو سال سے مسلمانوں کو ایک آسان سی بات سمجھ نہیں آرہی کہ مذہب کی تاریخ ہوتی ہے تاریخ کا مذہب نہیں۔
ثانیاََ یہ کہ جب اعلان خلافت علیؑ ہوا اور مسجد نبویؐ میں بیعت ہوئی اس وقت مدینہ میں پورے عالم اسلام کے نمائندے موجود تھے۔ ان نمائندوں کو بلوائی کہہ کرتوہین کرنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اچھا اگر یہ بلوائی ہی تھے تو حضور ان میں سینکڑوں صحابہ کرامؓ بھی تھے۔ دیجئے انہیں بھی خطائے اجتہادی کی مقدس چادر۔ کیا یہ حق فقط علیؑ کے دشمنوں کا ہے کہ وہ دشمنی نبھائیں اور خطائے اجتہادی کی چادر اوڑھ لیں؟
عجیب ستم ظریفی ہے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والوں کے تقدس کے چرچے عام ہیں مگر لوگ بھول جاتے ہیں کہ مفتوحہ شہر میں قبولِ اسلام کے سلسلہ کے آغاز سے قبل حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ایک خطبہ بھی دیا تھا۔ جس میں ارشاد فرمایا تھا’’ جاؤ تمہیں آزاد کیا‘‘۔ قدیم جنگوں میں فتح کے بنیادی اصول یاد رکھیئے۔ مفتوحہ شہرو ملک کے لوگ فاتحین کے غلام ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تاریخ ایک نیا موڑ لے رہی تھی۔
اور نیا موڑ دیا تاریخ کو فاتح مکہ حضرت محمدﷺ نے۔ جنہوں نے مفتوحہ شہر کے سارے باشندوں کو بلا امتیاز آزادی کی نعمت سے مالا مال کردیا۔ لیکن کیا یہ اعلانِ آزادی مکہ کے آزاد کردہ مکہ کے نومسلموں کو تائید اسلام کرنے والوں یا اولین مراحل میں اسلام قبول کرنے والوں کی ہمسری عطاکردیتا ہے؟ ہمسری کا حق مان بھی لیاجائے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں کے لئے بیت المال سے جو وظائف مقرر کیئے گئے وہ حفظِ مراتب کے تحت تھے۔ یعنی جنگِ بدر میں حصہ لینے والے افضل ترین شمار ہوئے۔ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں کی سیادت و تقدس کے گیت گانے والوں نے کبھی اس اصول پر اعتراض کرنے کی جرأت کیوں نہ کی؟
قرآن عظیم الشان باآوازِ بلند کہہ رہا ہے’’میرے حبیب ؐ! ان سے کہہ دیجئیے کہ میں تم سے کوئی اجرِ رسالتؐ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو‘‘۔ قرآن اور رسولؐ قرابت داروں سے محبت کا تقاضا کر رہے ہیں اور ادائیگی محبت میں کبھی بتولؑ کا دروازہ جلایا جاتا ہے۔ کبھی قدم قدم پر توہینِ علی ؑ ہوتی ہے۔ انکارِ ولائیت بھی ہے اور انکارِ خلافت بھی۔ قتل کی سازش میں بھی لوگ شریک ہیں۔ حسن مجتبیٰؑ کے جنازے پر تیروں کی بارش، تین دن کے پیاسے حسین ؑ کربلا میں پیاروں اور احباب وانصار کے ہمراہ ذبح کر دئیے گئے۔ حکومت الٰہیہ کی شکل مسخ کر کے خاندانی بادشاہت۔ اجرِ رسالتؐ کی ادائیگی کے ان سارے اندازوں کو خطائے اجتہادی کی سند مل جاتی ہے۔
ایک ستم یہ بھی ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے وارثانِ خطائے اجتہادی کی جو نئی نسل مارکیٹ میں آئی ہے وہ فرماتی ہے طبری تو شیعہ تھا۔ فلاں بھی شیعہ اور فلاں بھی شیعہ۔ حضور آپ کی بات درست مان لیتے ہم اگر قدیم کتبِ تواریخ و تفاسیر میں آپ کی جانب سے ہوئی جعل سازی صاف سامنے نہ ہوتی۔ باقی کتب کو رکھئیے ایک طرف تفسیر ابنِ کثیر کو لے لیجئیے۔ 1980ء سے قبل کے ایڈیشنوں کا اس کے جدید ایڈیشنوں سے تقابل کر لیجئیے۔
آلِ مروان کی سازش سمجھ میں آجائے گی۔ مگر کیا ان ساری جعل سازیوں اور تحریفوں سے مقام علی ؑ چھپ جائے گا؟ غدیر سے شروع ہوئے انکار کا سلسلہ جاری ہے۔ شوق سے جاری رکھیئے۔ مکرر عرض ہے فضیلتیں گھڑی نہیں جاتیں۔ سو تاریخ کو مذہب نہ بنایئے۔ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیجیئے۔ مکالمے اور تحقیق کے دروازوں کے سامنتے جتھوں کی صورت پہرے نہ دیجیئے۔ انکار کو منافقت کے پردوں یا خطائے اجتہادی کے لبادے میں چھپائیے مت۔ طالب علموں کا حق ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انکارِ مقامِ علیؑ انکارِ مقامِ مصطفیٰ ؐ ہے۔ علی ؑ سے حسد درحقیقت مصطفیٰ ؐ سے حسد ہے۔
انکار کی ضرورت ہی نہیں ۔ خود حضرت عمرؓ کا یہ فرمان کتب تواریخ میں حضرت ابنِ عباسؓ کے حوالے سے موجود ہے کہ ’’قریش نہیں چاہتے تھے کہ نبوت و خلافت ایک ہی گھر میں جمع ہوں‘‘۔ بہت احترام سے یہ دریافت کیا جا سکتا ہے کہ چاہنا نا چاہنا رسولؐ کا مقدم تھا یا قریش کا؟ کچھ بونوں کی رائے ہے کہ علیؑ ناکام سیاستدان اور ناکام حکمران تھے۔ حضور سیاست آپ کے نزدیک کہتے کسے ہیں؟
فریب و دجل، انکار، بغاوت اور لشکر کشی کو؟ تو کیا آپ اولین شاگردِ رسولؐ علیؑ ابنِ ابی طالبؑ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی آپ کے پرکھوں کے سے امراض کا شکار ہوتا؟حق یہ ہے کہ علی ابنِ ابی طالب ؑ نے قدم قدم پر حقِ تربیتِ مصطفیٰؐ ادا کیا۔ تاریخ کے گُھٹالوں کے اسیر ہوں یا خطائے اجتہادی کی محبت میں گرفتار ہر دو کا بنیادی مقصد تحقیق و مکالمے کا راستہ روکنا ہے۔ تاکہ حق آشکار نہ ہونے پائے۔ حق کیا ہے ؟ خود جناب سرکارِ دو عالم ﷺ فرماتے ہیں’’جو امرِ رسالت میں میری مدد کرے گا وہی میرا بھائی، وصی ، وزیر، وارث اور میرے بعد خلیفہ ہو گا‘‘۔ قرآنِ عظیم الشان کہہ رہا ہے’’پس تمہارا ولی اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔
سچ یہ ہے کہ انکارِ ولائیت کو تقدس کے لبادوں میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ تاریخ کی سر چڑھ کر بولتی سچائی یہ ہے کہ علی ابنِ ابی طالبؑ کی زندگی قیام سے عبارت ہے۔ کراری ہے علی،ؑ فراری ہرگز نہیں۔ بدر واحد اور خندق و خیبر، جمل و صفین کے فاتح حقیقی امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں’’میں نے کبھی شک کا ایک لمحہ نہیں گزارا‘‘۔’’دین کے پردوں میں چھپنے والوں کا باطن مجھ پر عیاں ہے‘‘۔’’اپنے نفس پر ہر حال میں قابو رکھو‘‘۔’’حق کی حمایت سے اچھی جزا کوئی نہیں‘‘۔’’خدا کی قسم مجھے ان لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں جو حق سے عناد رکھیں وہ باپ ہو یا بیٹا‘‘۔’’جس نے سچ کو پا لیا اس نے رب کو پا لیا‘‘۔’’فتنہ سے بچو کے وہ نسلیں برباد کر دیتا ہے‘‘۔ ’’بہادری معاف کر دینے میں ہے‘‘۔’’ڈرو اس وقت سے جب نفس تم پر غالب ہو اور تم گمراہی میں پھینک دیئے جاؤ‘‘۔’’ عجیب بات ہے معاویہ بن سفیان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر حقدار ہے‘‘۔’’نفس سے جہاد کرنے والے صادقین میں شمار ہوں گے‘‘۔’’خدا علیؑ کی زندگی میں وہ دن نہ لائے جب وہ حق سے منہ موڑ کر کھڑا ہو‘‘۔’’عدل نعمتِ الٰہی ہے‘‘۔’’عادت ایک مالک بن جانے والا دشمن ہے‘‘۔’’یقین سے زہد کا پھل برآمد ہوتا ہے‘‘۔’’علم سب سے افضل ہدایت ہے‘‘۔’’غضب طیش کی سواری ہے‘‘۔’’علوم اہلِ ادب کی سیرگاہیں ہیں‘‘۔’’غم بدن کو گھلا دیتا
ہے‘‘۔’’کتابیں صاحبان علوم کے گلستان ہیں‘‘۔’’حرص ذلیل بھی کرتی ہے بدبخت بھی‘‘۔’’ایمان عمل کے اخلاق کو کہتے ہیں‘‘۔’’ ظلم کمین ترین خباثت ہے‘‘۔’’انسان اپنے حسنِ عمل کے فرزند ہیں‘‘۔’’وعدہ ایک مرض ہے جس کی صحت اسے پورا کرنے میں ہے‘‘۔’’بھوک اور مرض چھپانا مردانگی ہے‘‘۔ ’’انصاف سے محبت دائم و پائندہ رہتی ہے‘‘۔’’غیبت جہنم کے کتوں کی غذا ہے‘‘۔’’علم وہ عظیم خزانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتا‘‘۔’’زبان ایک درندہ ہے اگر تو نے اسے آزاد کیا تو زخمی کر دے گا‘‘۔’’سوچ کر کلام کرنا خطاسے بچاتا ہے‘‘۔’’آدمی پر مال کو ترجیح دینا کمینہ پن ہے‘‘۔’’غضب دشمن ہے اسے اپنے نفس کا مالک نہ بننے دو‘‘۔’’جاہل اپنے نفس اور غرور سے دھوکہ کھاتے ہیں‘‘۔’’ مسخرہ پن کبھی زندگی یا روح پر وبال بن جاتا ہے‘‘۔’’عقل وہ لباسِ جدید ہے جو کبھی میلا نہیں ہوتا‘‘۔’’عاجزی چھچھور پنے سے بہتر ہے‘‘۔
’’اہلِ حکومت سے بے نیازی افضل بادشاہی ہے‘‘۔’’عقل مند عمل پر بھروسہ کرتے ہیں اور جاہل امیدوں پر‘‘۔’’ پست مرتبہ طاقت پاتا ہے تو دشنام طرازی کرنے لگتا ہے ‘‘۔’’ بھرے پیٹ سونے والے کے خواب جھوٹے ہوتے ہیں‘‘۔’’آدمیت ہر قابلِ ملامت کام سے بیزار رہتی ہے‘‘۔’’ سردار دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘‘۔’’شکم سیری بیماریوں کا دروازہ کھولتی ہے‘‘۔’’غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے‘‘۔’’میں نے اپنے رب کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے، نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے‘‘۔’’قناعت خوشگوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔’’تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں‘‘۔
غیرت مند کبھی زنا نہیں کرتا‘‘۔’’جدھر سے پتھر آئے اُدھر ہی پلٹا دو‘‘۔’’کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ‘‘۔’’لوگ جس چیز کو نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں‘۔’’دل آنکھوں کا صحیفہ ہے‘‘۔’’علم و تحمل ایک پورا قبیلہ ہے‘‘۔’’حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب بنتی ہے‘‘۔’’ادب عقل کی صورت گری ہے‘‘۔’’ذخیرہ اندوزی فاجروں کی فطرت ہے‘‘۔’’ہر صاحبِ دل عاقل نہیں ہوتا‘‘۔’’ہرآنکھ والا بینا نہیں ہوتا‘‘۔’’چہرے کی تازگی دوستوں کا انس ہے‘‘۔’’آنکھیں جھکا کر رکھو کہ اس سے حوصلہ مضبوط رہتا ہے‘‘۔’’فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوتے ہیں‘‘۔’’غربت انسان کو فراموش کروا دیتی ہے‘‘۔’’خواہش اندھا کردیتی ہے‘‘۔’’سخاوت ایک زیور ہے‘‘۔’’حکمت درحقیقت عصمت ہے اور عصمت نعمت‘‘۔’’علم رتبے کو بلند کرتا ہے‘‘۔’’دولت کی ہوس سرکشی ہے‘‘۔ ’’گناہ کے سرکش گھوڑوں پر سوار ہونے سے بچے رہو‘‘۔’’شجاعت زینت ہے بزدلی عیب‘‘۔’’خیانت درحقیقت غداری ہے‘‘۔’’معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر نہیں‘‘۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/successor-of-prophet-imam-ali-ibn-e-abi-talib/