عرب کلچر اور ہم کافران و کافرات ہندی – حافظ صفوان
شرفا اور مقتی لوگ یہ سٹیٹس مت پڑھیں
جب ہم عرب کلچر کو اسلام سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں تو کچھ دوست جزبز ہوتے ہیں اور اس عرب بدوی زندگی کا تصوراتی خاکہ کھینچنے لگتے ہیں جو اب عربوں نے بھی تج دی ہے. حضرت محمد علیہ السلام کے دور کا عرب اب ساڑھے چودہ سو سال بڑا ہو چکا ہے. ہم ہندی کافران اور کافرات سے اس عرب کلچر کو اپنانے کا مطالبہ کرنا حماقت ہے جس کا اب عربوں کو بھی علم نہیں.
آج کا عرب بوڑھا زیادہ سے زیادہ شاہ سلمان جتنی کوچی ڈاڑھی رکھتا ہے جسے فرنچ کٹ کہتے ہیں اور آج کا عرب نوجوان 97 فیصد تو شیو کرتا ہے اور بقیہ 3 فیصد گالوں پر اتنے بال رکھتا ہے جتنے چار دن شیو نہ کرنے سے بڑھ جاتے ہیں.
آج کی عرب خاتون ٹائٹس پہنتی ہے گو گھر سے باہر کچھا نہیں پہنتی. دنیا بھر میں سب سے سیکسی اور سی تھرو برقع بھی عرب میں پہنا جاتا ہے. خواتین کے زیر جاموں کی جیسی بھڑکدار نمائش عرب کے بڑے چھوٹے شہروں میں لگتی ہے اس کے ذکر کے لیے دنیا کی کسی زبان کی شائستگی کی لغت میں کوئی لفظ نہیں ہے.
آج کی عرب فیملی ایک سے زیادہ بیویوں (بشمول باقاعدە بیوی کے علاوہ عورتوں) والی ہوتی ہے اور جسے کم سے کم ایک غیر ملکی گوری مل جائے وہ بالیقین خدا کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے کیونکہ وہ گرمیاں ٹھنڈے ملکوں میں اور سردیاں گرم ملکوں میں گزار سکتا ہے.
عرب کلچر میں گھر میں بوڑھا ملازم تو رکھا جا سکتا ہے لیکن بوڑھے ماں باپ اور دادا دادی نانا نانی وغیرہ کی کوئی جگہ نہیں ہے. گزشتہ 1450 سال سے کسی عرب گھرانے میں چچا تایا پھوپی یا خالہ ماموں ساتھ ہونے کا کوئی کانسپٹ ہی نہیں ہے.
آج کے عرب بچے اور نوجوان عورت مرد صرف نماز جوگی عربی بولتے ہیں یا کسی کے ساتھ شدید مارویت یا حمد اللہ پن دکھانا ہو تو عربی شریف کو تکلیف دیتے ہیں ورنہ روزمرہ کی ماں بھین بھی انگریزی میں فرماتے ہیں. کئی عرب نوجوان عورتیں تو ماشاءاللہ گاف اور چ والی ٹکسالی ہندی گالیاں بھی فصیح تجوید کے ساتھ دیتی پائی گئی ہیں. عرب نسوانی ہونٹوں سے گندی ہندی گالی، یہ نصیب اللہ اکبر، لوٹنے کی جائے ہے.
آج مکہ مدینہ اور ریاض و جدہ وغیرہ کے بازاروں میں پچانوے فیصد سے زیادہ دکانوں کے بورڈ انگریزی میں ہیں جن پر کہیں کہیں عربی بھی ہوتی ہے. پرانی تنگ گلیوں میں چھوٹے موٹے کھوکھوں اور تنوروں کے بورڈز البتہ عربی زبان میں مل جاتے ہیں. ہر بڑا دکاندار انگریزی خواندہ عملہ رکھتا ہے. قبا اور احد وغیرہ کی طرف پسماندہ آبادی میں عربی سننے میں آتی ہے ورنہ ہر طرف انگریزی کا چلن عام ہو چکا ہے. خانہ کعبہ کے اندر انتظامی دفاتر تک میں بڑی عمر کے لوگ آپس میں عربی بولتے ہیں یا پھر نچلے درجے کے ملازم، ورنہ کم عمر افسران اور نیا عملہ باہم بیشتر انگریزی ہی بولتا ہے. لیکن جہاں ہم پاکستانیوں کو نیچا دکھانا ہو وہاں ضرور عربی بولتے ہیں. جس بندے کے پاس کسی کافر ملک کی ڈگری ہے اور وہ ٹیڑھا منہ کرکے بے تکان انگریزی جھاڑتا ہے اس کی عرب معاشرے کی اتنی زیادہ عزت ہے اور اتنی زیادہ تنخواہ پاتا ہے.
اسلام کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے. تیل نکلنے تک تو مکہ شہر کا سب سے معروف مدرسہ مدرسہ صولتیہ تھا جو ہندوستانیوں کا ہے. اب یہ عظیم قدیمی مدرسہ صرف علامتی طور پر باقی ہے. اس وقت عربوں کو قرآن بھی ہندی پڑھاتے تھے. مجھے خانہ کعبہ کے اندر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کا ایک سینئر انچارج نہیں بھولتا جسے قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا نہیں آتا تھا. میں بہت حیران ہوا. وہ آدھی سطر بمشکل پڑھنے کے بعد عفوا واللہ لا نعرف کہتا معذرت کرتا رہا. یہاں سیکورٹی اہلکار صرف native عرب ہوتے ہیں.
آج کے عرب کلچر سے موازنہ کرکے دیکھیں تو لمبی ڈاڑھی اور شریفانہ لباس اور رشتوں کی حیا شرم وغیرہ وغیرہ وہ کافرانہ ہندوانہ چیزیں ہیں جو صرف ہم کافروں اور کافرات کے پاس موجود ہیں. لمبی ڈاڑھی والا عرب تو مسجد کا امام تک نہیں ملتا.
بس بھائیو بزرگو دوستو، جب ہم عرب کلچر کے خلاف بولتے ہیں تو آپ سمجھ لیا کریں کہ ہم اس موجودہ کلچر کے خلاف ہیں. یہ الگ بات کہ آپ خود اس موجودہ عرب کلچر کے کچھ لٹکتے اور کچھ تھرکتے حصوں کو داد لمس دینے کی آس میں مرے جا رہے ہوں.