رمضان مُبارک، ارے نہیں نہیں؛ رمدان مُبارک
ہمارے پڑوسی ضیا صاحب، ہاتھوں میں بڑی بڑی سامان سے بھری تھیلیاں لیئے جارہے تھے۔
اُس دن چاند رات تھی،
جیسے ہی ہمارے سامنے سے گزرے، ہم نے کہا:
ضیا صاحب، رمضان مبارک۔
جھٹ سے رُکے، پاس بلایا اور سخت لہجے میں بولے:
آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں۔؟
ہم نے سر جھکا کر جواب دیا:
جی حضور، کچھ تو پڑھائی کی ہے۔
کہنے لگے:
رمدان ہوتا ہے صحیح تلفظ، رمضان نہیں،
عربی کا لفظ ہے، عربی کی طرح بولا جانا چاہیئے۔
ہماری غلطی تھی، اِس لیئے سر جھکا کر مان لی، اور کہا:
آپ صحیح کہہ رہے ہیں دیا صاحب۔
فوراً چونکے اور کہنے لگے:
یہ دیا کون ہے۔؟
میں نے مؤدبانہ عرض کیا:
آپ۔
فرمایا:
کیسے بھئی، میں تو زیا ہوں۔
میں عرض کی:
جب رمضان رمدان ہو گیا، تو پھر ضیا بھی دیا ہوجائے گا، یہ بھی تو عربی کا لفظ ہے۔۔
ضوآد کا تلفّظ خالی رمضان تک کیوں محدود ہو۔؟
خیر بات ختم ہوئی، ضیا صاحب جانے لگے،
تو ہم نے پیچھے سے درخواست ڈال دی:
دیا صاحب، کل افطاری میں بکوڑے بنوایئے گا،
تو ہمیں بھی بھیج دیجیئے گا۔
فوراً پھڑپھڑا کے بولے:
یہ بکوڑے کیا چیز ہے بھئی۔؟
ہم نے کہا:
عربی میں “پ” تو ہوتا نہیں،
تو بکوڑے ہی ہوئے، بلکہ بکورے؛
کیونکہ عربی میں “ڑ” بھی نہیں ہوتا،
پیپسی بھی بیبسی ہوگئی ہے۔
ایکدم غصّے میں آگئے اور چیخ کر بولے:
تُم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو؟
ہم نے کہا:
پاگل نہیں، باگل کہیئے؛
عربی میں باگل ہی ہوتا ہے
اب تو اور بھی غصّے میں آگئے اور کہنے لگے:
ابھی چپّل اتار کر ماروں گا۔
ہم نے کہا:
چپّل نہیں شبّل کہیئے، عربی میں “چ” بھی نہیں ہوتا۔
اب تو وہ واقعی طیش میں آگئے اور بولے:
ابے گدھے، باز آجا۔
میں نے کہا:
باز تو میں آجاؤں گا، مگر گدھا نہیں جدھا کہیئے،
عرب میں “گاف” نہیں ہوتا۔