کبھی نہ پکڑا جا سکنے والا باغی پکڑا گیا – عدنان خان کاکڑ
دونوں ہاتھ نیچے لٹکائے ہوئے وہ طمانیت بھرے انداز میں ایسے کھڑا ہوتا تھا جیسے پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد کھوکھے پر پان لگوا رہا ہو۔ لیکن اس کے ہاتھوں پر بندھے باکسنگ کے دستانے کچھ اور چغلی کھا رہے ہوتے تھے۔ مقابل باکسنگ کی دنیا کے ایسے نام ہوتے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان سے زیادہ قاتل مکا مارنے والا چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باکسنگ کے تجزیہ کار کہتے تھے کہ باکسنگ کے رنگ میں کھڑا ہونے کا یہ انداز صریحاً خودکشی ہے۔ لیکن وہ تو گویا بسمل عظیم آبادی اس شعر کی مجسم تصویر بن کر رنگ میں کھڑا ہوتا تھا
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
مگر درجن بھر ورلڈ چیمپئین کو سکھانے والے اس کے ٹرینر اینجیلو ڈنڈی کو اس کے پیروں اور سریع الحرکت اعصاب پر پورا بھروسہ تھا۔ مقابل اپنی پوری قوت سے مکا اس کی ناک کی سمت اچھالتا تھا، مگر وہ تو حرفوں کا بنا ہوا تھا، اس کے غیر معمولی طور پر متحرک پیر اور اعصاب حرکت میں آتے تھے، اور مقابل کا مکا ہوا میں لہرا کر رہ جاتا تھا۔ فضا میں ایک چھیڑتی ہوئی سی شریر آواز بلند ہوتی تھی ’پکڑ سکتے ہو تو پکڑ کر دکھاؤ‘۔ پھر اس کے نیچے لٹکے ہوئے ہاتھوں سے ایک ایسے غیر معمولی زاویے سے ایک مہلک مکا مقابل کی سمت آتا تھا کہ وہ اسے روکنے سے قاصر ہوتا تھا اور ڈھیر ہو جاتا تھا۔
اینجلو ڈنڈی اور کیسیس کلے کی رفاقت پچاس کی دہائی میں شروع ہوئی جب کلے نے ڈنڈی سے مشورے مانگنے شروع کیے لیکن مکمل طور پر ساتھ اس وقت شروع ہوا جب کیسیس کلے نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں 1960 کا اولمپک گولڈ میڈل جیت لیا۔ ڈنڈی سے پہلے دوسرے ٹرینروں نے کیسیس کلے کے باکسنگ کے اس ’احمقانہ‘ انداز کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ڈنڈی جان چکا تھا کہ کیسیس کلے اپنے اس قدرتی سٹائل میں وہ کچھ کر سکتا ہے جو لگے بندھے اصولوں پر چلنے والے باکسروں کے لیے کرنا آسان نہیں ہے۔ سنہ 1981 میں محمد علی نے کہا کہ ’اگر اینجیلو میرے (باکسنگ رنگ کے) کارنر میں نہ ہوتا، تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا۔ ممکن ہے کہ میں پہلے نمبر پر آ جاتا، مگر اس قدر جلد نہیں۔ کارنر مین کے طور پر ڈنڈی دنیا کا بہترین شخص ہے‘۔
پچیس فروری 1964 کو کیسیس کلے کا ورلڈ چیمپئین سنی لسٹن سے مقابلہ ہوا۔ اس وقت کھیل کے ناقدین کے نزدیک کیسیس کلے کی اوقات محض اتنی تھی کہ شرط کا ریٹ لسٹن کے حق میں سات اور ایک تھا۔ نفسیاتی جنگ کے ماہر کیسیس کلے کا ایک خاص انداز نظمیہ انداز میں ایسے فقرے بولنا تھا جو کہ مقابل کو سلگا کر رکھ دیتے تھے۔ اس مقابلے سے پہلے ایسے نظمیہ فقروں نے اسے بہت مشہور کر دیا تھا لیکن عام تاثر یہی تھا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
مقابلے سے پہلے کیسیس کلے گویا اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا۔ وہ لسٹن پر چیخنے چلانے لگا اور موقع پر ہی اسے ڈھائی ہزار ڈالر کا جرمانہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر نے کیسیس کلے کا معائنہ کیا تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو کر 120 دھڑکن فی منٹ تک پہنچ چکی تھی۔ باکسنگ کمیشن کے ڈاکٹر نے یہ رپورٹ دی کہ ’جذباتی طور پر غیر متوازن، اور مر جانے کی حد تک خوفزدہ۔ وہ رنگ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا‘۔ اس کے بلڈ پریشر کو نارمل ہونے میں ایک گھنٹہ لگا۔ یہ کیسیس کلے کی ٹیم کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، وہ لسٹن کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ اس کا مقابلہ ایک پاگل سے ہے۔
چوتھے راؤنڈ تک مقابلے کی رفتار کو کیسیس کلے کنٹرول کر رہا تھا لیکن پھر اس کی آنکھوں میں کچھ جلن آمیز شے گر گئی جس سے اسے دکھائی دینا تقریباً بند ہو گیا۔ آج تک اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ کیا وہ لسٹن کے چہرے پر موجود کوئی ایسی شے تھی جو کہ خون روکنے کے لیے باکسر لگاتے ہیں، یا پھر یہ لسٹن کا کوئی سوچا سمجھا حربہ تھا۔ کیسیس کلے نے مقابلہ چھوڑنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر ڈنڈی نے اس کی آنکھوں پر پانی کے چھپاکے مار کر اسے واپس رنگ میں دھکیل دیا۔ کیسیس کلے ادھر ادھر پھدکتا رہا اور اس کی نظر دوبارہ ٹھیک ہو گئی۔ چھٹے راؤنڈ میں اس نے دوبارہ حملے شروع کر دیے اور لسٹن کی بائیں آنکھ کے نیچے ایک بڑا زخم بنا دیا۔ ساتویں راؤنڈ کی گھنٹی بجی تو لسٹن نے رنگ میں آنے سے انکار کر دیا۔
کیسیس کلے چلایا ’میں عظیم ترین ہوں، میں عظیم ترین ہوں، میں نے دنیا تلپٹ کر ڈالی ہے‘۔ اس کے ساتھ ہی کیسیس کلے نے نیشن آف اسلام نامی امریکی گروہ میں شامل ہو کر اپنا نام محمد علی رکھ لیا۔ نیشن آف اسلام کا عقیدہ ہے کہ (نعوذ باللہ) اللہ اس کے بانی ’والس فرد محمد‘ کی شکل میں زمین پر مجسم ہوا تھا اور وہ یہودیت کا مسیحا اور اسلام کا مہدی ہے۔ اس کے باقی عقائد بھی عجیب و غریب ہیں۔ وہ سیاہ فام انسانوں کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ یعقوب نامی ایک سیاہ فام سائنسدان نے جینیاتی تجربات کی مدد سے سفید فام نسل بنائی جو کہ سیاہ فاموں پر حکومت کرے۔ یہ بنیادی طور پر ایک غنڈہ گرد تنظیم سمجھی جاتی تھی۔ والس فرد محمد کے بعد اس کے نائب علیجاہ محمد نے 1975 تک نیشن آف اسلام کی سربراہی کی۔ اس کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے بیٹے وارث دین محمد نے سنی اسلام اختیار کیا اور اس کی پیروی میں محمد علی بھی سنی مسلمان ہو گیا۔ نیشن آف اسلام کا بڑا گروہ لوئس فرخان کی سربراہی میں اس سے الگ ہو گیا۔ سنہ 2005 میں محمد علی نے صوفی عنایت کے صوفی آرڈر میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگلے سال لسٹن سے دوبارہ مقابلہ ہوا جو کہ پہلے راؤنڈ میں ہی محمد علی کے ایک کارگر مکے نے لسٹن کو ناک آؤٹ کر کے ختم کر دیا۔
محمد علی ایک ایسے دور میں چیمپئین بنا تھا جب امریکہ میں نسل پرستی عروج پر تھی اور سیاہ فام افراد برابری کے حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے تھے۔ ایسے میں ہی اس نے نسل پرستانہ امریکی حکومت کے حکم پر لازمی طور پر فوج میں شامل ہونے کے حکم پر عمل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بہت طاقت ور امریکہ کی خاطر میں جا کر اپنے بھائی کو گولی مار دوں، یا کسی رنگ دار شخص کو، یا کسی کیچڑ میں رہنے والے بھوکے شخص کو۔ میں انہیں گولی کیوں ماروں؟ انہوں نے کبھی مجھے نگر (کالا) نہیں کہا، انہوں نے مجھے کبھی زندہ نہیں جلایا، انہوں نے مجھ پر کتے نہیں چھوڑے، انہوں نے کبھی مجھ پر کتے نہیں چھوڑے، انہوں نے مجھے شہریت سے محروم نہیں کیا، میری ماں کی آبرو ریزی نہیں کی، میرے ماں باپ کو قتل نہیں کیا۔ میں کس طرح ان غریبوں کو مار سکتا ہوں۔ مجھے جیل بھیج دو‘۔
اس کے نتیجے میں محمد علی کو پانچ سال کی قید کی سزا سنا دی گئی اور اس کا ٹائٹل چھین لیا گیا اور اس پر باکسنگ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کی اور اس دوران جیل نہ گیا۔ دور عروج کے کئی سال میدان سے دور گزار کر وہ سپریم کورٹ کے حکم پر پابندی ختم کروانے میں کامیاب ہو گیا اور رنگ میں پلٹا۔ اس دوران امریکہ میں ویت نام کی جنگ کے خلاف طلبا کی مہم شدت پکڑ چکی تھی اور محمد علی طلبا سے خطاب کرتا رہا تھا اور مزاحمت کے ایک ہیرو کے طور پر ابھرا۔
سنہ 1967 میں محمد علی کی فائٹ ارنی ٹیریل سے ہوئی جو کہ محمد علی کو ’کلے‘ کے نام سے پکارتا رہا۔ محمد علی اسے اپنا غلامانہ نام کہتا تھا۔ مقابلے سے پہلے محمد علی نے کہا کہ میں اس کا ملیدہ بنا دوں گا، اسے ننھے منے بچوں کی طرح سزا دوں گا اور اس کی تذلیل کروں گا۔ میں اسے مارتا رہوں گا اور بولتا رہوں گا۔ میں اسے یہ کہوں گا ’گرو مت ارنی، ڈھشوں! میرا نام کیا ہے؟ ڈھشوں! میں یہ کرتا رہوں گا حتی کہ وہ مجھے محمد علی کہہ کر پکارے۔ میں اس پر تشدد کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سیدھا سادا ناک آؤٹ اس کے لیے مناسب نہیں ہے‘۔
اور محمد علی نے یہی کیا۔ اس نے ٹیریل کا بھرتا بنا دیا۔ وہ اسے بے رحمانہ انداز میں مارتا رہا اور پوچھتا رہا کہ میرا نام کیا ہے؟ پندرہویں راؤنڈ کے بعد محمد علی کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ ٹیرل کی نظر اس حد تک متاثر ہوئی کہ اس کو اس فائٹ کے کئی ماہ بعد دوبارہ ٹھیک سے نظر آنے لگا۔
پابندی ہٹنے کے بعد 1971 میں محمد علی نے ہیوی ویٹ چیمپئین جو فریزر کو چیلنج کیا۔ فائٹ لمبی چلی۔ پندرہویں راؤنڈ میں جو فریزر نے محمد علی کو پوائنٹس کی بنیاد پر ہرا دیا۔ فائٹ ایسی خونریز تھی کہ اس کے بعد دونوں باکسروں کو ہسپتال بھیجنا پڑا۔ 1974 میں محمد علی نے جو فریزر کو ہرا دیا مگر اس وقت ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئین کا ٹائٹل جارج فورمین کے پاس تھا۔
جب 1974 میں محمد علی اور جارج فورمین کا مقابلہ ہوا تو جارج فورمین کی عمر محمد علی سے سات سال کم تھی۔ وہ مسلسل چالیس فائٹس جیت چکا تھا۔ اس کی پچھلی آٹھ فتوحات دو راؤنڈ سے زیادہ نہ چل پائی تھیں جن میں سے ایک ایسی بھی تھی جس میں اس نے جو فریزر جیسے خطرناک باکسر کو چھے مرتبہ زمین چٹا دی تھی۔ جارج فورمین کو باکسنگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور مکا مارنے والوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اب محمد علی کے اعصاب اور عضلات وہ نہیں رہے تھے جن میں وہ ہاتھ نیچے لٹکائے ہوئے محض اپنے قدموں اور تیز حرکات کی بنا پر مد مقابل سے بچ کر اسے مارتا تھا۔ اب بتیس سالہ محمد علی نے ایک نیا انداز اختیار کیا۔ دیکھنے والوں نے اس کے گزشتہ انداز کی مانند اسے بھی صریحاً خودکشی قرار دیا۔ مد مقابل وہ تھا جس کے گھونسے کی شدت کو جوان ورلڈ چیمپئین بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے، اور محمد علی نے جو حربہ اختیار کیا، وہ یہ تھا کہ رسیوں پر ٹک جاتا تھا، اور کہتا تھا کہ مارو مجھے جتنا مار سکتے ہو اور ساتھ ساتھ مزید غصہ بھی دلاتا رہتا تھا کہ جار فورمین کے مکے کی طاقت میں نفرت کی طاقت بھی شامل ہو جائے۔ جارج فورمین نے پوری قوت سے مکے مارے۔ محمد علی انہیں کھاتا بھی رہا اور کچھ کو نشانے سے ہٹاتا بھی رہا۔ اور چڑاتا بھی رہا کہ ’مجھے کچھ خاص (مکا) دکھاؤ جارج، اس سے مجھے کچھ نہیں ہوتا‘۔
پھر ایسا ہوا کہ آٹھویں راؤنڈ تک جارج فورمین مار مار کر تھک گیا مگر محمد علی مار کھا کھا کر نہ تھکا۔ محمد علی نے اس راؤنڈ میں تاک کر ایک ایسا مکا مارا جس نے جارج فورمین کو ناک آؤٹ کر دیا۔ محمد علی دس سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد دوبارہ ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئین بن چکا تھا۔ اس کی نئی حکمت عملی کو ’روپ آ ڈوپ‘ کا نام دیا گیا تھا، یعنی ’احمق کو رسی ڈالو‘۔ اس تکنیک میں خاص باتیں دو تھیں، ایک تو خود بے تحاشا مار کھانے کا حوصلہ اور دوسرے یہ کہ لگنے والے مکے کی شدت سے محمد علی جب پیچھے جاتا تھا تو مکے کی قوت کو رسی کی لچک ویسے ہی جذب کر کے کم کر دیتی تھی جیسے گاڑی کے پہیوں میں لگے ہوئے سپرنگ جھٹکے کی شدت کو جذب کرتے ہیں۔
اس فائٹ کے بعد صدر جیرالڈ فورڈ نے محمد علی کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا۔ اب محمد علی امریکہ کا غدار نہیں رہا تھا۔ بعد میں صدر جارج بش نے اسے امریکہ کے اعلی ترین شہری اعزاز صدارتی میڈل برائے آزادی سے بھی نوازا اور 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس کی مشعل بھی محمد علی نے روشن کی۔
اگلے سال منیلا میں جارج فورمین کی محمد علی سے دوبارہ فائٹ ہوئی۔ چودہویں راؤنڈ میں جارج فورمین کو دکھائی دینا بند ہو چکا تھا اور ریفری کو اسے ہاتھ پکڑ کر اس کے کارنر میں لے جانا پڑا۔ اس کے ٹرینر نے فائٹ بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ محمد علی اپنی کرسی پر ڈھے گیا۔ اس نے کہا کہ ’میں موت سے اس قدر قریب کبھی نہ ہوا تھا‘۔ فائٹ کے بعد جارج فورمین نے حیرت سے کہا ’میں نے اسے ایسے مکے مارے جو کہ فصیل شہر کو زمین بوس کر ڈالتے۔ وہ کیسے اپنے قدموں پر کھڑا رہا؟‘
سنہ 1980 میں کسمپرسی کی وجہ سے محمد علی نے ریٹائرمنٹ واپس لیتے ہوئے لیری ہولمز سے میچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت وہ عمر رسیدہ بھی تھا، اور تھائی رائیڈ غدود کی ادویات کے استعمال کی وجہ سے کمزور بھی تھا۔ رنگ کے قریب بیٹھے اداکار سلویسٹر سٹالون نے میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک زندہ انسان کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو‘۔ لیری ہومز یہ میچ نہیں کھیلنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ محمد علی میں کچھ باقی نہیں بچا ہے اور یہ دہشتناک تجربہ ہو گا۔ گیارہویں راؤنڈ میں محمد علی کے ٹرینر اینجیلو ڈنڈی نے میچ روک دیا۔ یہ وہ واحد میچ تھا جس میں محمد علی ناک آؤٹ ہوا۔
باکسنگ رنگ میں ایک تتلی کی مانند اڑنے والا اور ایک شہد کی مکھی کی مانند ڈنک مارنے والا محمد علی جو باکسنگ رنگ میں ایک بھنبھیری کی طرح گھومتے ہوئے ’کیچ می اف یو کین‘ (پکڑ سکتے ہو تو پکڑ کر دکھاؤ) کہتے ہوئے مد مقابل کو عاجز کر ڈالتا تھا، تین جون 2016 کو ملک الموت کے ہاتھوں آخری مرتبہ ناک آؤٹ ہو کر اس رنگ سے ہمیشہ کے لیے باہر چلا گیا۔
سپورٹس مین آف دی سینچری محمد علی ایک عظیم ترین باکسر، اور ایک عظیم ترین مجاہد حریت کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/17676/adnan-khan-kakar-125/