قلندری سنگتیں!
حضرت عثمان مروندیؒ المعروف شہباز قلندر صوفی ازم کی دنیا میں سندھ دھرتی کا معتبر حوالہ ہیں آپ کے سالانہ عرس و میلہ کی تقریبات ضلع دادو کی تحصیل سہون میں 14 شعبان شب برات سے شروع ہوتی ہیں۔
شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرائیکی وسیب کے علاقوں میں قلندری سنگتیں فعال ہو جاتی ہیں اور پورے جوش و خروش سے حضرت سید عثمان مروندیؒ المعروف شہباز قلندر کے عرس پر جانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔
خیبر سے کراچی تک کے لوگ جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد بیان کی جاتی ہے جذبہ عشق و مستی سے سرشار دھمالیں ڈالتے، قلندری گیت گاتے ہوئے مزار پر سلام کیلئے جاتے ہیں۔
لال رنگ کے جھنڈے، بینر، پینا فلیکس، لال رنگ کے کرتے، پرنے، ٹوپیاں، ہاتھ پر باندھنے والے ربن ہر طرف نظر آتے ہیں۔
بزم قلندر کبیروالا کے روح رواں شفقت علی ساجد نے بتایا کہ ایک سے زیادہ لوگوں کی بیٹھک سنگت کہلاتی ہے ایک سنگت میں زیادہ سے زیادہ 60 سے70 افراد ہوتے ہیں۔
قافلہ سالار سنگت کو لیڈ کرتا ہے اور قلندری ملنگوں کے کھانے پینے، سفری سہولتوں اور رہائش کے بندوبست کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قلندری کے مانی لوگوں سے لنگر اکٹھا کرنا جس میں نقدی، چاول، آٹا، گھی، چینی، چھوٹے بڑے جانور اور کھانے پینے کی دیگر ضروری چیزیں شامل ہوتی ہیں جمع کی جاتی ہیں۔
لنگر دینے والے منت مانگتے ہیں اور مرادیں پوری ہونے پر آئندہ برس پہلے سے بڑھ چڑھ کر لنگر دیتے ہیں، اپنی سنگت کے علاوہ وافر مقدار میں عام لوگوں میں بھی لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔
قلندری زیارتوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے قافلہ سالار پیر حسنین شاہ نے بتایا کہ جس شہر سے بھی قلندری سگنت روانہ ہوتی ہے، روانگی کے وقت سب سے پہلے اس علاقے کی روحانی شخصیت کے مزار پر حاضری ہوتی ہے اس کے بعد ملتان میں دربار شاہ شمس ؒ کے مزار پر دعا مانگتے ہیں۔
اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب سے جانیوالی قلندری سنگتوں کا پہلا باضابطہ پڑاؤ بابا صدرالدین سرکار آف روہڑی سکھر دریائے سندھ کے کنارے پر واقع دربار پر ہوتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق قلندر سرکار کا حکم ہے کہ مجھ تک آنے سے پہلے بابا صدرالدین سرکار کی حاضری بھریں کیونکہ شہباز قلندر ؒ نے یہاں 12 برس تک چلہ کشی کی تھی۔
ڈھول کی تھاپ پر دھمالیں ڈالی جاتی ہیں قلندری گیت گاتے ہوئے عقیدت مند لوگ قلندر سائیں کے مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں، رات کو محفل سماع ہوتی ہے۔ فنکار نذرانہ عقیدت کے طور پر دھمال ڈالتے ہیں۔
شام کے پروگراموں میں گیت گائے جاتے ہیں سرکار کی مہندی کی رسم ہوتی ہے۔ پہلی مہندی ہندو برادری جو سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہے وہ لیکر آتے ہیں پنجاب کے لوگ بھی ان تمام رسموں میں شریک ہوتے ہیں۔
قلندری لوگ اندرون سندھ میں سچل سرمست، شاہ لطیف بھٹائی سمیت مختلف مزاروں کی زیارت بھی کرتے ہیں جنوبی پنجاب کے علاقے اوچ شریف میں دربار سید جلال الدین سرخ پوش بخاری جو قلندر پاک کے ہم عصر روحانی بزرگ تھے کے مزار پر بھی حاضری ہوتی ہے۔
واپسی پر ملنگی کڑے، کنٹھے، انگوٹھیاں، سندھی اجرک، ٹوپیاں اور سہون کی اہم سوغات خشک شہتوت اپنے پیاروں کیلئے لیکر آتے ہیں۔
جھولے لعل سنگت کبیروالا کے وکی قلندری نے بتایا کہ شہر کبیر کی سب سے قدیمی سنگت بوٹا قلندری کی سنگت ہے اس کے بعد پیر حسنین شاہ، سید ضامن شاہ، شفقت علی ساجد، سائیں شکیل قلندری اور دوسرے بہت سارے لوگ ہیں جو دیہی علاقوں سے بھی قافلے لیکر جاتے ہیں۔
‘ کچھ مانی ایسے ہیں جو ایک مہینہ پہلے پیدل چل پڑتے ہیں کچھ سائیکلوں پر قبل از عرس سفر شروع کر دیتے ہیں زیادہ تر روانگی 15 شعبان کو ہوتی ہے۔’
استاد شوقی، جنہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں روحانی بزرگوں کے مزاروں پر قرانی آیات لکھنے کا شوق رہا، آجکل کبیروالا کے ایک پرائیویٹ سکول میں بچوں کو خطاطی سکھاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں قلندری کلچر کو پروان چڑھانے میں فلموں کا بڑا کردار ہے۔ 80 کی دہائی میں پنجابی کی ایک فلم آئی تھی ’’دلاں دے سودے‘‘ جس میں میڈم نور جہاں کی آواز میں گیت تھا اور انکی دھمال دکھائی گئی تھی گیت کے بول تھے۔
لعل میری پت رکھیوں بھلا جھولے لعلن ۔۔۔
سندھڑی دا۔۔۔ سہون دا شہباز قلندر۔۔۔
بعد میں بھی بہت گیت آئے حسینی لعل قلندر شہباز کرے پرواز تے جانے راز دلاں دے، جیندے رہے تے لعل قلندر آن ملاں گے۔ دمادم مست قلندر والی قوالی سمیت اور کئی قوالیاں ہیں، طلوع سحر ہے شام قلندر۔۔ اٹھوں رندوں پیو جام قلندر۔۔
میڈیا کے رول کو قلندری سلسلہ پھیلانے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کبیروالا کے معروف شاعر فیصل ہاشمی نے بتایا کہ شہباز قلندر کے عرس پر جانا اور پھر سارا سال اس کی تیاری، مقامی قلندری سنگتیں اب یہ ایک کلچرل ایکٹیوٹی بن چکی ہیں اور اس میں شامل لوگوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ روحانی سلوک کی منزلیں مولوی کے درس سے مختلف ہوتی ہیں۔ ملنگ مولوی سے بہتر ہے اس میں عاجزی ہوتی ہے۔
ٹی بی کی خلاف کام کرنے والی ایک این جی او کے فیلڈ آفیسر شجاعت حسنین نے بتایا کہ دنیا اڑھائی قلندروں پر مشتمل ہے انڈیا میں بوعلی قلندر ہیں جنہوں نے قلندری اپنی روحانی ریاضت سے حاصل کی۔ شہباز قلندر پیدائشی قلندر ہیں جبکہ عراق میں حضرت رابعہ بصریؒ عورت ہونے کی وجہ سے آدھا قلندر کا درجہ رکھتی ہیں۔
‘قلندری ملنگ رضاکارانہ طور پر اپنی روحانی تسکین کیلئے سنگتیں تشکیل دیتے ہیں امن اور محبت کی بات کرتے ہیں۔ شہباز قلندر کے عرس پر جانے والے بھائی چارے کا پیغام لیکر آتے ہیں۔’
بابا ظہور جو کبیروالا میں شٹرنگ کا کام کرتے ہیں اور ایک سنگت کے صدر بھی ہیں۔ ہر سال قلندری سنگت کے ساتھ سہون جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سہون میں سندھ حکومت کی طرف سے زائرین کے لیےکوئی سہولیات مہیا نہیں کی جاتی۔ وی آئی پز کے لیےتو سیکیورٹی کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیےنہ ہونے کے برابر ہے۔
ان کے مطابق قلندری درس برابری کا درس ہے۔ لیکن حکومتی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ زائرین کے لئے سہولیات مہیا کی جائیں۔
Source:
http://khanewal.sujag.org/feature/46704/qalandari-sungtin-seraiki-belt-qalandari-pilgrimages-shawn