شہید بغداد۔ حضرت حسین بن منصور حلاجؒ – از حیدر جاوید سید
گیارہ سو اٹھاون سال ہوتے ہیں جب فارس (ایران) کے قصبہ طوس (الطّور) میں پیدا ہونے والے ایک بچے کا اس کے والد نے حسین نام رکھا۔ حسین کے دادا آتش پرست تھے۔ فقط آتش پرست نہیں بلکہ طوس اور اس کے گردونواح میں وہ مجوسیوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔ محمی نام تھا ان کا، منصور انہی کے بیٹے تھے اور منصور کے بیٹے حسین۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسین کو شہرت منصور کے نام سے ملی(جبکہ منصور ان کے والد کا نام تھا) محمی اپنی (حسین کے دادا) وفات سے چند برس قبل مسلمان ہو چکے تھے۔
حسین بن منصور حلاج کے بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ محمی نہیں بلکہ ان کے صاحبزادے اور حلاج کے والد منصور اوائل جوانی میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے مجوسیت، یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ اسلام کا تقابلی مطالعہ کیااور ایک دن اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔محمی نے نوجوان بیٹے سے مذہب تبدیل کرنے پر مکالمہ کیا اور پھر خود بھی مسلمان ہو گئے لیکن حسین بن منصور حلاج کی فکر پر کام کرنے والے شار حسین نے لکھا’’ منصور ہی مشرف بہ اسلام ہوئے اور انہوں نے اپنے صاحبزادے حسین کی جو آگے چل کر حسین بن منصور حلاج کے نام سے معروف ہوئے، تربیت کی اور اس تربیت میں تقابلِ ادیان کی تعلیم بھی شامل تھی‘‘۔
حلاج کے ابتدائی تین اساتذہ میں ان کے والد منصور، تستر کے مشہور عالم و صوفی سہیل بن عبداللہ تستریؒ اور بصرہ کے فقیہ حضرت عمر مکیؒ شامل ہیں۔ 260 ہجری (875 عیسوی) میں حلاج بغداد پہنچے اور سیدالطائف حضرت جنید بغدادی ؒ کے حلقہ ارادت میں دو زانو ہوئے۔ سال بھر بعد وہ نئے علوم اور جہانوں کی تلاش میں بغداد سے نکلے اور لگ بھگ 16یا 17 سال تک انہوں نے خراسان، کرمان، ترکستان، افغانستان، کشمیر، ملتان اور گجرات کاٹھیاوار کی سیاحت کی اور اگلے دو سال انہوں نے اپنے وطن فارس (ایران) کے طول و عرض میں مختلف الخیال صوفیا سے ملاقاتوں میں ان سے استفادہ کیا۔ اٹھارہ انیس برس کی سیاحت کے دوران انہوں نے مختلف مذاہب کے عالموں اور صوفیاٗ سے فیض حاصل کیا۔
سولہ سترہ سال کا نوجوان حسین بن منصور حلاج جب حضرت جنید بغدادی ؒ کے حلقہ ارادت میں حاضر ہوا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کی پیشانی غور سے دیکھتے ہوئے کہا’’حسین میں دیکھ رہا ہوں تمہارے خون سے تختے سرخ ہوں گے‘‘۔ حسین بولے گردن مارنے کا فتویٰ دینے والوں میں آپ بھی شامل ہوں گے
26 مارچ922 عیسوی بروز پیر کی شام جب بغداد میں دریائے دجلہ کے مغربی کنارے والے میدان میں حسین بن منصور حلاجؒ کے لئے پھانسی گھاٹ بنایا گیا تو اہلِ بغداد جانتے تھے کہ پھانسی گھاٹ جس کے لئے تیار کیا جا رہا ہے وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ مردِ دانا ہے جس کے علم و فہم اور فکر کا مقابلہ اہلِ مکتب سے نہیں ہوا اور حسد کا شکار مفتیوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دے کر دربارِ خلافت سے منظوری لے لی ہے۔ بغداد کے اہلِ علم اور حلاج کے دوست سبھی جانتے تھے کہ وہ( حسین بن منصور حلاجؒ ) تو کہہ چکے’’زبانیں بولتی ہیں لیکن ان سے نکلے ہوئے الفاظ میں بعض اوقات دلوں ہلاکت کا سامان بھی مخفی ہوتا ہے‘‘۔حسین بن منصور حلاج کی پھانسی کے دوسبب تھے۔
اولاََ اس کے حاسد و ناقد اہلِ مکتب کا فتویٰ اور ثانیاََ عباسی حکومت کے بعض کارندوں کا یہ الزام کہ اس (حسین بن منصور حلاجؒ ) نے عباسی حکومت کے باغیوں سے تعاون کیا ۔ بنیادی طور پر دونوں الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اہلِ مکتب حلاج کی دانش کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر حلاج زندہ رہا تو اہلِ مکتب کی مذہبی ’’تجارت‘‘ کا جنازہ نکل جائے گا کیونکہ حسین بن منصور حلاجؒ قدم قدم پر کہہ رہے تھے کہ’’ رحم وکرم پر چھوڑتا ہے۔ واعظین و مفتیوں کو اپنی ذاتوں کے سوا سب حقیر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ یہ حلاج ہی تھے جو کہا کرتے تھے ’’ زندہ انسانوں پر دو طرح کی حکومتیں صریحاََ ناانصافی ہیں۔ خلافت کا فرض ہے وہ لوگوں کی عزت نفس اور آزادی کی حفاظت کرے اور واعظین و مفتیوں کو مخلوق اور خالق کے درمیان نہیں آنا چاہیے۔
دانشور، شاعر، مصنف اور صوفی حسین بن منصور حلاج اپنے عہد کے اکثر اہلِ مکتب کی طرح کنوئیں کے مینڈک نہیں تھے۔ فارس (ایران) اور بلاد عرب سے باہر کی دنیاؤں کی بھرپور سیاحت اور مختلف ادیان کے صاحبانِ علم سے حاصل ہوئے فیض کی وجہ سے وہ صاف انداز میں کہہ رہے تھے ’’میں نے ادیان کے بارے میں گہرے تفکر میں تحقیق کی اور انہیں کئی شاخوں والی جڑوں کی طرح پایا۔ کسی سے اس کے دین کے بارے میں سوال مت کرو۔ کہ ایسا کرنا اسے جڑ سے جدا کر دیتا ہے۔ جو جہاں ہے اصل اسے ڈھونڈے گا۔ جیسے جیسے معنی آشکار ہوں گے پردے ہٹتے جائیں گے اور وہ جان لے گا
اہلِ مکتب و دربار کا خیال یہ تھا کہ حسین بن منصور حلاجؒ کی پھانسی سے ان کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا ہٹ جائے گا، چند دن بعد لوگ اس فارس زادے کو بھلا دیں گے لیکن ان کی ساری خواہشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ فکر حلاج نے پھانسی گھاٹ سے جس پرواز کا آغاز کیا تو وہ ان کی شہادت کی گیارہ صدیاں بعد بھی جاری ہے۔ پچھلے پورے ہزار سال اور رواں صدی میں اس سے محبت کرنے اور اسے اپنا محبوب قرار دینے والے تو بے حساب ہوئے مگر کسی نے اس کے قتل کی سازش تیار کرنے ، واجب القتل ہونے کا فتویٰ دینے والوں سے اپنی نسبت کا کھلے بندوں اعلان نہیں کیا۔ حلاج کی پھانسی کی حتمی منظوری دینے والے عباسی خلیفہ المقتدر کے نام سے آج کتنے لوگ واقف ہیں؟ مگر حسین بن منصور حلاجؒ کے نام سے علم و ادب کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ ’’اناالحق والحق للحق حق‘‘ ’’ میں حق ہوں اور حق حق کے ساتھ حق ہے‘‘ کی بازگشت آج بھی اہلِ علم اور طالبِ علموں کو متوجہ کرتی ہے۔ حلاج محض تصوف کے طلبأ کا محبوب نہیں بلکہ وہ ہر اس ذی شعور کا ممدوح و محبوب ہے جو انسان کے حق آگاہ ہونے اور حق سے کلام کرنے کو اہلِ مکتب کا مرہون منت نہیں سمجھتا۔
حسین بن منصور حلاجؒ پر اس سے حسد کرنے والوں نے قرامطی ہونے کا الزام بھی لگایا۔ اس کی پہلی گرفتاری 301 ہجری میں اس الزام کی بنیاد پر ہوئی، اسے سوس سے گرفتار کے کے بغداد تک ایک پنجرے میں بند کر کے لایا گیا۔ سوس سے بغداد کے درمیان سینکڑوں کوس کے فاصلے کو پنجرے میں بند حلاج نے اس حال میں طے کیا کہ اس دوران اسے کھانا نہیں دیا گیا۔ فاقہ زدہ حلاج جب قیدی کے طور پر بغداد پہنچے تو ان کی کھال ایک جھلی کی طرح پسلیوں پر تھی۔
بغداد کی جامع مسجد کے باہر شہر کے مرکزی چوک پر اسے پنجرے سے نکال کر ایک شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور اس کے گلے میں ایک تختی ڈال دی گئی جس پر لکھا تھا ’’قرامطی ایجنٹ‘‘۔عجیب بات یہ ہے کہ اہلِ مکتب اور درباریوں نے خلیفہ المقتدر کے سامنے حسین بن منصور حلاجؒ کا جو جرم نامہ پیش کیا اس میں لکھا تھا کہ حلاج حنبلی باغیوں کا سرپرست ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کعبہ کیا ہے گارے پتھروں اور لکڑی سے بنی ایک عمارت، انسان کو کعبہ کا طواف کرنے کی بجائے اپنی ذات کا طواف کرنا چاہیئے۔ یہی حق کو محبوب ہے۔ یہ ابھی الزام تھا کہ قرامطیوں کے بیت اللہ پر حملے کی سازش کا سرغنہ حلاج تھا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا اس کی ذات میں حلول کر گیا ہے اس کے سفرِ سندھ اور ملتان کو بھی سازش سے تعبیر کیا گیا۔
حلاج کے تقریباََ تمام سوانح نگار ان الزامات کو حسد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے دوست شبلی کا کہنا تھا’’حلاج مردِ آزاد تھے‘‘۔ حسین بن منصور حلاجؒ اسلامی تصوف کے بانیوں میں سے ہیں۔ ان کی کتاب ’الطوّاسین‘ اسلامی تصوف کی بلند پایہ کتب میں شمار ہوتی ہے۔ وہ سچے عاشقِ رسولﷺ اور آزادی اظہار کے علمبردار تھے۔ ان کا موقف تھا ’’ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ انہیں دو بار پھانسی کی سزا دی گئی۔ پہلی بار جب انہیں پھانسی پر لٹکایا گیا تو چار دن تک لٹکے رہنے کے باوجود ان کی موت واقع نہ ہو پائی۔ چوتھے دن انہیں پھانسی کے تختہ دار سے اتار کر پھر زندان میں ڈال دیا گیا۔
سات برس بعد جب انہیں 26مارچ 922ء کو پھانسی دینے کا حکم ہوا تو اس بار سزائے موت کے خلافتی حکم نامہ میں لکھا تھا’’تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد ان کا ایک ایک عضو کاٹا جائے اور پھر لاش کے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے آگ لگا دی جائے اور خاک دریائے دجلہ میں بہا دی جائے‘‘ دربارِ خلافت کے حکم پر عمل ہوا۔ شاہدین کہتے ہیں دریائے دجلہ کا پانی تین دن تک سرخ رہا۔ پھانسی اور پھر ایک ایک کر کے اعضأ کاٹے جانے اور پھر سارے اعضأ جلا کر خاک دریا میں بہا دیئے جانے کے عمل نے حسین بن منصور حلاجؒ اور ان کی فکر کو جو زندگی عطا کی وہ دائمی ہے۔ شہید بغداد حسین بن منصور حلاج نے ہی کہا تھا’’میری حیات میری موت میں ہے۔ اپنے وجود کو مٹا دینا گراں قدر کارناموں میں سب سے اونچا ہے اور اپنی صفت کے ساتھ زندہ رہنا قبیح ترین گناہ۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/baghdad-killed-mansur-al-hallaj/