تاریخ سےگھٹالوں کی شوقین جماعتِ اسلامی – حیدر جاوید سید
جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے 73 سالہ امیر مطیع الرحمٰن نظامی کو دی گئی پھانسی پر ہمارے پاکستانی صالحین کے محبوب رہنما اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ داد کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں ان کی معاملہ فہمی، بہادری، مسلم نوازی اور اصول پرستی پر۔ یہ وہی طیب اردگان ہیں جنہوں نے امریکیوں کی ایما پر اسرائیل ، سعودی عرب، قطر اور بحرین کے ساتھ مل کر داعش کے قیام میں “تاریخ ساز” کردار ادا کیا۔ ان کے داماد اور صاحبزادے کی آئل کمپنی داعش کے چوری کے تیل کی سب سے بڑی خریدار تھی۔اور ترکی ہی وہ ملک ہے جس نے پاک وہند، افغانستان اور یورپ سے داعش کے جہاد میں شرکت کے لئے جانے والوں کو اپنی سرزمین لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ مقصد فقط یہ تھا کہ وہ داعش کے ہاتھوں جہاں ایک طرف بشارالاسد کو پٹوائیں گے وہیں دوسری طرف کردوں کو جو ان کے لئے دردِ سر بنتے جا رہے ہیں ۔اپنے مقصد میں طیب اردگان بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔
لیکن وقت نے پلٹا کھایا۔ روس شام کی مدد کے لئے میدان میں اترااور کردوں کے مردو زن نے داعش کو چنے چبوا دیئے۔ اب “خلیفہ” اردگان کی حالت اندرون ملک یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ایک طرح سنسر عائد ہے۔مخالفین کے میڈیا ہاوسز کو طیب اردگان کی حکومت فتح کر چکی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے یہاں خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958ء کے مارشل لاء کے بعد اردو اور انگریزی کے بعض اخبارات اور جرائد پر قبضہ کر کے نیشنل پریس ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی تھی۔ سنجیدہ فہم حلقے اس پر متفق ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے بحران کی نصف ذمہ داری ترکی اور طیب اردگان پر عائد ہوتی ہے۔ جس قسم کی اسلامی جمہوریت سے وہ ترکی کو روشناس کروانے کی خواہش مند ہیں اس کا آغاز قبضہ گیری ، علاقے کا چودھری بننے کے لئے ہر اقدام کرنا اور سیاسی مخالفین کے ساتھ نامناسب سلوک ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے دامن پر ہزاروں شامیوں کے خون کے داغ ہوں جس کی انگلیوں کی پوروں سے کردوں کا خون ٹپک رہا ہو۔ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے امیر کو دی گئی پھانسی پر انسانی حقوق، مساوات و آزادی کا محافظ بن کر للکارے مارے تو حیرانی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ ترکی اور خطے میں ہونے والے بعض جرائم میں اپنے کردار کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے 73 سالہ امیر کی پھانسی کے بعد یہاں ان کی پھانسی کو پاکستان سے محبت کے رنگ میں پیش کیا گیا۔قومی اسمبلی اور پھر پنجاب اسمبلی نے اس پھانسی کے خلاف قراردادیں منظور کر ڈالیں۔ حکیم اللہ محسود کی موت پر دھاڑیں مار مار کر رونے والے ہمارے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان بھی پھٹ پڑے۔ اہلِ قلم کا ایک طبقہ لنگوٹ کس کے میدان میں اترااور کشتوں کے پشتے لگا نے میں مصروف ہے۔ اصولی طور پر سہ فریقی معاہدے کی موجودگی میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان تینوں ملک 1971ء کے معاملات کے حوالے سے جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلا سکتے ۔
بنگلہ دیش نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعہ جنگی جرائم کی سماعت کا ٹربیونل قائم کر لیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے یا بنگالیوں کے قتل عام میں شرکت کے الزامات اب محض دکھاوا ہیں تاکہ دنیا اصل معاملات نہ جان پائے۔ حالانکہ بنگلہ دیش حکومت کو اپنی داخلی صورتحال کے اس پہلو کو دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش ان شدت پسند عناصر کی پشت بانی میں مصروف ہے جو بنگلہ دیش کے سیکولر نظام کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ حسینہ واجد کا خیال ہے کہ اگر شدت پسند اسلامی تنظیموں کی سرگرمیوں اور بعض کاروائیوں کا حکومتی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے تو فوری طور پر دو نقصان ہوں گے۔ اولاََ بنگلہ دیش میں سیاحوں کی آمد میں کمی ہو گی۔ اور ثانیاََ غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
جہاں تک حسینہ واجد حکومت کی جانب سے جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو دی جانے والی پھانسیوں کا تعلق ہے تو انسانی بنیادوں پر سہ فریقی معاہدے کی اس کی پاکستان میں ان لوگوں نے بھی مذمت کی جن میں سے اکثر کا جھکاؤ بائیں بازو یا قوم پرستی کی جانب ہے۔لیکن ان پھانسیوں کو بنیاد بنا کر تاریخ میں جوتوں سمیت گھس جانے والے بعض حضرات پوری تاریخ کو مسخ کرنے کی راہ پر لگ گئے۔ پھانسی کی سزاؤں پر بنگلہ دیش میں عمل ہو رہا ہے اور تاریخ کے گھس بیٹھیئے تقسیم ہند کی تاریخ پر طبع آزمائی میں جت گئے ۔
بنیادی سوال یہ ہے کیا تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں میں قومی سوال مذہب سے عبارت تھا ؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ مذہب کو قومی شناخت بنانے کا ذریعہ مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے بنایا۔ متحدہ ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں تھے مذہبی قومیت ان کا من پسند کھابا تھا۔ انڈس ویلی (موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود) کے صوبوں این ڈبلیو ایف پی (خیبر پختونخواہ) ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے نام سے معروف علاقوں میں وطنی قومیت کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا اسی طرح بنگالیوں نے کبھی بھی بنگالی قومیت سے دستبردار ہونے کے خواہش نہیں کی۔ مقامی زبانوں کی جگہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سے آئی اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے پر ہی بنگالیوں میں پہلا ردعمل سامنے آیا۔
سندھ میں بھی 1948ء میں اس حوالے سے شدید منفی جذبات سامنے آئے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ تقسیم سے لے کر بنگلہ دیش کے اعلانِ آزادی تک وفاقِ پاکستان میں بنگالیوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی نہیں ملی، 1970ء کے انتخابات کو مشرقی پاکستان کی حد تک کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا جو ڈھونگ رچایا گیا اس میں جماعتِ اسلامی یحییٰ خان کے ساتھ کھڑی تھی۔ تاریخ کی بدہضمی کا شکار ایک صاحب ابوالکلام آزاد پر چڑھ دوڑے۔ کیا وہ اس امر سے لاعلم ہیں کہ جماعتِ اسلامی ، مجلس احرار اسلام، جمیعت علمائے ہند تینوں مذہبی جماعتیں قیامِ پاکستان کی مخالف تھیں۔
کیا عجیب اتفاق ہے کہ آج کے پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش دونوں ملکوں میں انتہا پسندانہ افکار اور غیر ریاستی بندوق برداری ہر دو طرح کے لوگوں اور جماعتِ اسلامی کے درمیان گہرے روابط موجود ہیں۔ جماعتِ اسلامی کو اپنی اداؤں پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ لیکن یہ پاکستان ہے جہاں ہر دو چار برس بعد قرآن کی تفسیر میں ردوبدل ہو جاتی ہے ایسے میں تاریخ کیا بچتی ہے۔ سو بہت احترام کے ساتھ عرض ہے تاریخ کے ساتھ گھٹالے کرنے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی جماعتِ اسلامی اپنے گریبان میں جھانکے
Source:
http://www.qalamkar.pk/ji-eager-to-play-with-history/