جوگندر ناتھ منڈل نے پاکستان چھوڑتے ہوئے کیا کہا؟ – عابد محمود

abid-mehmood

1945 میں جب لارڈ ویول نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں شامل کیا تو اس کابینہ میں مسلم لیگ نے ایک غیر مسلم شخص جوگندر ناتھ منڈل کو بھی نامزد کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی مجلس قانون ساز کے پہلے اجلاس کی صدارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی پہلی کابینہ مین وزیر قانون کا قلمدان دیا گیا۔  قرار داد مقاصد کی منظوری کے بعد جوگندر ناتھ منڈل خود کو پاکستان میں غیر مطمعئن محوسوس کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس قرار داد کے ذریعے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔ چنانچہ 1950 میں وہ پاکستان کی شہریت ترک کر کے ہندوستان منتقل ہو گئے جہاں سے آٹھ اکتوبر 1950 کو انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جو 15 اکتوبر 1950 کو منظور ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل نے اپنی بقیہ زندگی کلکتہ ہی میں گزاری اور 5 اکتوبر 1968 کو وفات پائی۔

آئیے دیکھتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل نے اپنے استعفیٰ میں کیا لکھا تھا۔

محترم وزیراعظم:

مشرقی پاکستان کے پسماندہ ہندوﺅں کی ترقی کے اپنے زندگی بھر کے مشن کی ناکامی پر میں آزردہ خاطر اور نراس ہو کر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ آپ کی کابینہ کی رکنیت سے استعفیٰ دوں۔ مناسب یہ ہے کہ مجھے برصغیر پاک وہند کے اس اہم موقع پر تفصیلاً ان وجوہات کی وضاحت کر دینی چاہئے جنہوں نے مجھے اس فیصلے کی تحریک دی۔

(1)اس سے پہلے کہ میں اپنے استعفیٰ کی دورازکار اور فوری وجوہات بیان کروں،شاید لیگ کے ساتھ میرے تعاون پر محیط اس مدت کے دوران رونما ہونے والے اہم واقعات کا پس منظر بیان کرنا کارآمد ہو۔ فروری1943ء میں بنگال لیگ کے چند معروف قائدین کی جانب سے رابطہ کئے جانے پر، میں ان کے ساتھ بنگال قانون ساز اسمبلی میں کام کرنے پر رضا مند ہو گیا۔

مارچ 1943ء میں فضل الحق وزارت کی برطرفی کے بعد، اکیس اچھوت ذات ( (Scheduled Casteایم ایل اے کے ساتھ ہی اس وقت کی مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے قائد خواجہ ناظم الدین جنہوں نے اپریل1943ء میں کابینہ تشکیل دی کے ساتھ تعاون پر رضامند ہوگیا۔ ہمارا تعاون چند شرائط کے ساتھ مشروط تھا، جیسے کہ تین اچھوت ذات کے وزراء کی کابینہ میں شمولیت، اچھوت لوگوں کی تعلیم کے لئے سالانہ پانچ لاکھ روپے کی مسلسل گرانٹ کی منظوری اور سرکاری ملازمتوں میں تقرری کے سلسلے میں فرقہ وارانہ تناسب کے ضوابط (Communal ratio rules) کا غیر جانبدارانہ اطلاق۔

 (2)ان شرائط سے قطع نظر حقیقی مقاصد جنہوں نے مجھے مسلم لیگ کے ساتھ اشتراک عمل پر آمادہ کیا میں سے پہلا یہ تھا کہ عموماً بنگال میں مسلمانوں کے معاشی مفادات ویسے تھے جیسے اچھوت ذاتوں کے۔ زیادہ تر مسلمان کاشت کار اور مزدور تھے اور ایسے ہی اچھوت ذاتوں کے افراد بھی تھے۔ مسلمانوں کا ایک گروہ ماہی گیر تھا، ایسا ہی گروہ اچھوت ذاتوں کا بھی تھا، دوسرا یہ کہ اچھوت ذات اور مسلمان دونوں ہی تعلیمی لحاظ سے پسماندہ تھے۔ میں یہ باور کررہا تھا کہ لیگ اور اس کی وزارت کے ساتھ میرا تعاون وسیع پیمانے پر قانون سازی اور انتظامی معاملات کی ضمانت کی طرف لے جائے گا، جو بنگلہ آبادی کی اکثریت کی باہمی بہبود اور پپوستہ مفادات کی بیخ کنی کرتے ہوئے مزید امن اور ہم آہنگی کا باعث ہو گا۔ یہاں اس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین نے اپنی کابینہ میں تین اچھوت ذات وزیر لئے اور میری کمیونٹی کے افراد میں سے تین پارلیمانی سیکرٹری مقرر کئے۔

سہروردی وزارت:

(3) مارچ 1946ء میں منعقدہ جنرل الیکشنز کے بعد مسٹر سہروردی مارچ 1946ء میں لیگ پارلیمانی پارٹی کے قائد بن گئے اور اپریل1946ء میں لیگ کی وزارت بنالی۔ میں واحد اچھوت ذات ممبر تھا جو فیڈریشن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوا۔ مجھے مسٹر سہروردی کی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ اس سال 16 اگست کو مسلم لیگ نے کلکتہ میں عملی احتجاج کا دن (Direct Action Day) منایا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ ایک قتل عام پر منتج ہوا۔ ہندوﺅں نے لیگ وزارت سے میری استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ میری زندگی کو خطرہ لاحق تھا۔ تقریباً ہر دن مجھے دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے لگے۔ لیکن میں اپنی پالیسی پر ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے، مزید برآں، میں نے اپنے رسالہ ”جاگاراں“(Jagaran)کے ذریعے اچھوت ذات لوگوں کے نام اپیل شائع کی کہ وہ خود کو کانگریس اور مسلم لیگ کی مابین اس خونریزخانہ جنگی سے علیحدہ رکھیں۔ کچھ اور نہ سہی کم ازکم میں اس حقیقت کا ممنونیت کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے میری ذات کے ہندو ہمسایوں نے اشتعال زدہ ہندو ہجوم کے غضب سے بچایا۔ کلکتہ کی خونریزی اکتوبر 1946ءمیں”نواکھلی کے بلوہ“ پر منتج ہوئی، جہاں ہندوﺅں کو بشمول اچھوت ذاتوں کے قتل کیا گیا اور سینکڑوں کو مسلمان بنا لیا گیا۔ ہندو عورتیں ریپ اور اغوا کی گئیں۔ میری برادری کے افراد کو بھی زندگی اور املاک سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان حادثات کے فوری بعد میں نے تپیراہ (Tipperah) اور فینی (Feni)کا دورہ کیا اور فسادات سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا۔ ہندوﺅں پر پڑی خوفناک بپتا نے مجھے ماتم زدہ کر دیا، لیکن اس کے باوجود میں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی پالیسی جاری رکھی۔ کلکتہ قتل عام کے فوری بعد سہروردی وزارت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ یہ صرف میری کوششیں تھیں کہ اسمبلی کے چار اینگلوانڈین ممبرز اور چار اچھوت ذات ممبرز جوکہ ہنوز کانگریس کے ساتھ تھی مگر جن کے ذریعے وزارت گرائی جا سکتی تھی، کی حمایت حاصل کی جاسکی۔

(4)اکتوبر1946ءمیں نہایت غیر متوقع طور پر مسٹر سہروردی کی وساطت سے مجھے انڈیا کی عبوری حکومت میں سیٹ کی پیشکش ہوئی۔ خاصے تذبذب اور حتمی فیصلے کے لئے دیے گئے محض ایک گھنٹے کے وقت کے بعد میں یہ پیشکش اس شرط پر قبول کرنے پر رضامند ہو گیا کہ مجھے استعفیٰ دینے کی اجازت صرف تب ملنی چاہئے جب میرے قائد ڈاکٹر بی آر امبیدکر میری کسی کارروائی کو رد کریں تاہم خوش قسمتی سے مجھے لندن سے بھیجے گئے ٹیلی گرام کے ذریعے ان کی منظوری مل گئی۔ اس سے پہلے کے میں بطور رکن قانون ذمہ داری سنبھالنے کے لئے دہلی روانہ ہوتا میں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ بنگال کو اس بات پر رضامند کیا کہ وہ اپنی کابینہ میں میری جگہ پر دو وزیر لیں اور اچھوت ذات وفاقی گروپ میں سے دو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کریں۔

(5)میں یکم اکتوبر1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہوا۔ تقریباً ایک ماہ کے بعد جب میں نے کلکتہ کا دورہ کیا، مسٹر سہروردی نے مجھے مشرقی بنگال کے کچھ حصوں خاص طو رپر گوپال گنج سب ڈویژن جہاں اچھوت ذات کی اکثریت تھی میں بہت زیادہ فرقہ وارانہ تناﺅ کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے مجھ سے ان علاقوں کا دورہ کرنے اور مسلم اور اچھوت ذات مجالس کو خطاب کرنے کی استدعا کی۔ حقیقت یہ تھی کہ ان علاقوں میں اچھوت ذات بدلہ لینے کے لئے تیاریاں کرچکے تھے۔ میں نے تقریباً ایک درجن بڑی مجالس کو خطاب کیا۔ نتیجتاً اچھوت ذات نے انتقام کا ارادہ ترک کردیا۔ چنانچہ یوں فرقہ وارانہ فساد کا ناگزیز خطرہ ٹل گیا۔

(6)چند ماہ بعد3 جون1947ء کو برطانوی حکومت نے تقسیم ہند بارے چند سفارشات پر مشتمل بیان جاری کیا۔ تمام ملک بالخصوص سارا غیر مسلم انڈیا بھڑک اُٹھا۔ سچائی کی خاطر میں یقینا یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو جوابی مول تول (Bargaining Counter) تصورکیا ہے۔ حالانکہ میں مخلصانہ طو رپر ہندوستان کے تناظر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان بحیثیت مجموعی، اپرکلاس ہندو شاونیت کے خلاف جائز وجہ ناراضگی رکھتے ہیں، اس کے باوجود میں اس نقطہ نظر پر مضبوطی سے قائم تھا کہ پاکستان کا قیام فرقہ وارانہ مسئلہ کو حل نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس یہ فرقہ وارانہ نفرت اور عداوت کو مہمیز کردے گا۔ مزید برآں میں اس بات پر قائم تھا کہ اس سے پاکستان میں مسلمانوں کی حالت میں سدھار نہ آسکے گا۔ ملک کی تقسیم کا ناگزیر نتیجہ دونوں ملکوں کے محنت کش عوام کی غربت، جہالت اور مفلوک الحالی کو اگر دوام نہ بھی بخشے تو طول ضرور دے گا۔ مجھے مزید یہ خدشہ تھا کہ پاکستان شاید جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک میں نہ ڈھل جائے۔

قرار داد لاہور:

میں یہ واضح کردوں کہ میری یہ رائے ہے کہ، جیسا حال ہی میں ہوا، پاکستان کو شریعت اور اسلام کے احکامات اور عقائد کی بنیاد پر ایک خالص اسلامی ریاست بنانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ میرا قیاس ہے کہ یہ لاہور میں23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کی منظور کردہ قرار داد کے خاکے پر سوچ بچار کرنے کے بعد تمام اساسات میں تشکیل پائے گی۔ با دیگر یہ قرار داد بیان کرتی ہے۔

(i)”جغرافیائی طو رپر متصلہ علاقہ جات کی ایسی علاقہ جاتی حد بندی کی جائے جو ایسے زمینی تصفیہ کی تشکیل کرے جس سے ناگزیر طور پر ایسے علاقے جس میں مسلمان عدوی اعتبار سے اکثریت میں ہوں، جیسا کہ انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں کا گروپ بننا چاہئے، جو ایسی خودمختار ریاستوں کی تشکیل کرے، جن کی تشکیل اکائیاں خود مختار اور مقتدر ہوں“ اور((iiان اکائےوں اور علاقوں کے دستور میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، تنظیمی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ان کی مشاورت سے مناسب، موثراور لازمی تحفظات کا اہتمام خاص طو رپر ہونا چاہئے“

اس فارمولے کے مضمرات تھے(ا) کہ شمال مغربی اور مشرقی مسلمان خطوں کو دو خودمختار ریاستوں میں متشکل کردینا چاہئے۔(ب) کہ ان ریاستوں کی تشکیلی اکائیاں خود مختار اور مقتدر ہونی چاہئیں(ج) کہ اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے مفادات کی ضمانت بھی ہونی چاہئے اور اسے ان کی زندگی کے تمام معاملات تک پھیلانا چاہئے۔ اور(د) کہ اس سلسلے میں دستوری دفعات اقلیتوں ہی کی مشاورت سے بننی چاہئیں۔ اس قرار داد اور لیگ قائدین کے اقوال پر میرا یقین قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان سے مستحکم ہوا جس میں انہوں نے بطور صدر قانون ساز اسمبلی11اگست 1947ء کو ارشاد فرماتے ہوئے بلااختلاف ہندو ومسلم مساوی برتاﺅ کی سنجیدہ ضمانت دی اور ان سے تقاضا کیا کہ یاد رکھیں۔ وہ سب پاکستانی ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر مکمل مسلمان یا ذمی میں تقسیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔(اسلامی ریاست اور مسلمان شہریوں کی دائمی نگہبانی میں رہنا) بظاہر آپ کے علم اور آپ کی منظوری سے قائداعظم کی خواہشات وجذبات اور اقلیتوں کی تذلیل اور گزند سے مکمل اغماز برتتے ہوئے ان میں سے ہر عہد کو برملا توڑا گیا۔

تقسیم بنگال:

(8)اس سلسلے میں شاید یہ بھی ذکر کیا جاسکتا ہے کہ میں بنگال کی اس تقسیم کا مخالف تھا۔ اس سلسلے میں ایک مہم شروع کرتے ہوئے مجھے نہ صرف چاروں اطراف سے تند مزاحمت بلکہ ناقابل بیان دشنام طرازی، اہانت اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت ہی تاسف کے ساتھ میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب برصغیر پاک وہند کے 32 کروڑ ہندوﺅں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور مجھے ہندوﺅں اور ہندوستان کے دشمن کا لقب دیا لیکن میں پاکستان سے وفاداری پر دلیری اور استقامت کے ساتھ ڈٹا رہا۔ یہ مقام ممنونیت ہے کہ پاکستان کے70لاکھ اچھوت ذات لوگوں میں میری اپیل نے مستعد اور سرگرم ردعمل پیدا کیا۔ انہوں نے مجھے اپنے بے پناہ تائید، ہمدردی اور ڈھارس سے نوازا۔

(9) 14اگست1947ء کو پاکستان کے قیام کے بعد آپ نے پاکستان کی کابینہ بنائی جس میں میں شامل تھا اور خواجہ ناظم الدین نے مشرقی بنگال کے لئے صوبائی کابینہ بنائی۔ 10اگست کو میں نے کراچی میں خواجہ ناظم الدین سے بات چیت کی اور گذارش کی کہ مشرقی بنگال کی کابینہ میں دو اچھوت ذات وزراء لیں۔ انہوں نے کچھ مدت بعد ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ آگے چل کر اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ آپ، خواجہ ناظم الدین اور مشرقی بنگال کے موجودہ وزیراعظم نورالامین کے ساتھ ناخوشگوار اور مایوس کن عہدوپیمان کا ایک ریکارڈ ہے۔ جب میں نے محسوس کیا کہ خواجہ ناظم الدین اِدھر اُدھر کے حیلہ بہانہ سے معاملہ ٹال رہے ہیں تو میں مضطرب اور برانگیختہ ہو گیا۔ میں نے صدر پاکستان مسلم لیگ اور اس کی مشرقی بنگال برانچ کے ساتھ معاملہ پر مزید بحث وتمحیص کی۔ بالآخر میں معاملہ آپ کے نوٹس میں لایا۔ آپ اپنی رہائش گاہ پر میری موجودگی میں خواجہ ناظم الدین کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کرنے پر رضا مند تھے۔ خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ واپسی پر ایک اچھوت ذات وزیر لینے پر راضی ہوگئے۔ چونکہ مجھے خواجہ ناظم الدین کی یقین دہانی پر پہلے ہی شبہ تھا۔ میں متعینہ وقت کے بارے پر یقین ہونا چاہتا تھا۔ میں نے اصرار کیا کہ اس سلسلے میں وہ ایک ماہ میں عمل کریں جس میں ناکامی کی صورت میں میں استعفیٰ دینے میں آزاد ہوں گا۔ آپ اور خواجہ ناظم الدین دونوں نے شرط قبول کرلی۔ لیکن افسوس! آپ کا شاید وہ مطلب نہیں تھا جو آپ نے کہا۔ خواجہ ناظم الدین نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔ مسٹرنورالامین کے مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد، میں نے معاملہ دوبارہ ان کے روبرو اُٹھایا۔ انہوں نے بھی لیت ولعل کی وہی پرانے آز مودہ حربے اختیار کئے۔ جب میں نے1949ء میں آپ کے دورہ ڈھاکہ سے پہلے آپ کی توجہ دوبارہ اس معاملہ کی طرف مبذول کروائی تو آپ نے مجھے مشرقی بنگال اقلیتی وزارء کا تقرر کئے جانے کی یقین دہانی کروائی۔ اور آپ نے سوچ بچار(considration) کے لئے مجھ سے دو تین نام مانگے۔ آپ کی خواہش کی فوری تعظیم کے لئے، میں نے مشرقی بنگال کی اسمبلی فیڈریشن گروپ اور مجوزہ تین ناموں کی تفصیل کے ساتھ ایک مراسلہ آپ کو بھجوایا۔ جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ڈھاکہ واپسی کے بعد کیا ہوا، آپ نے بہت بے اعتنائی برتی اور فقط اتنا کہا ”نورالامین کو دہلی سے آ لینے دو“ چند دن بعد میں نے اس معاملہ پر دوبارہ مجبور کیا۔ لیکن آپ نے مسئلہ سے اجتناب کیا۔ میں پھر یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوگیا کہ نہ ہی آپ کا اور نہ ہی مسٹر نورالامین کا کسی اچھوت ذات وزیر کو مشرقی بنگال کی کابینہ میں لینے کا ارادہ ہے۔ اس سے قطع نظر میں دیکھ رہا تھا کہ مسٹر نورالامین اور مشرقی بنگال کے کچھ دوسرے لیگی لیڈران اچھوت ذات انجمن (Scheduled Caste Fedration)کے ممبران کے درمیان اتنشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ میری قیادت اور وسیع پیمانہ پر مقبولیت کو اشبھ سمجھا گیا تھا۔ میری صاف گوئی، بیدار نظری اور پاکستان میں عموماً اقلیتوں کے اور خصوصاً اچھوت ذات کے مفادات کے تحفظ کی میری مخلصانہ کوششوں کو مشرقی بنگال کی حکومت اور چند لیگی لیڈران کو برہم کرنے کے معاملے کے طو رپر دیکھا گیا تھا۔ بلا خوف وخطرہ، میں نے پاکستان میں اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کا اصولی موقف اپنایا۔

ہندودشمن پالیسی:

جب بنگال کے بٹوارے کا سوال پیدا ہوا، اچھوت ذات لوگوں کو تقسیم کے متوقع خطرناک نتائج کی چتاﺅنی مل گئی۔ ان کی طرف سے اس وقت کے بنگال کے وزیراعلیٰ مسٹر سہروردی کو عرض داشت پیش کی گئی جنہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے پریس کو یہ بیان جاری کیا کہ اچھوت ذات لوگوں کو آج تک عطا کردہ استحقاق اور مراعات میں تقسیم کے بعد کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی اور یہ کہ وہ نہ صرف موجودہ حقوق ومراعات سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ اضافی ثمرات بھی حاصل کریں گے۔ یہ یقین دہانی مسٹر سہروردی نے نہ صرف اپنی ذاتی حیثیت بلکہ لیگی وزارت کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی کروائی۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑا ہے کہ بٹوارے کے بعد، خاص طور پر قائداعظم کی وفات کے بعد اچھوت ذاتوں کو کسی بھی معاملہ میں مناسب حصہ نہیں ملا۔ آپ یاد کریں کہ وقتاً فوقتاً میں اچھوت ذاتوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفیاں آپ کے علم میں لاتا رہا۔ میں نے بارہا مشرقی بنگال کی نااہل انتظامیہ کی ساخت بارے آپ کو مطلع کیا۔ میں نے پولیس انتظامیہ کے خلاف فاش الزامات لگائے میں پولیس کے وحشیانہ مظالم کے واقعات آپ کے علم میں لایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مشرقی بنگال کی حکومت خاص طور پر پولیس انتظامیہ اور مسلم لیگی قائدین کا ایک گروہ ہندو دشمن پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔

چند سانحات:

 (11)پہلا سانحہ جس نے مجھے دیلادیا، گوپال گنج کے قریب ڈیگارکل(Digharkul)گاﺅں میں رونما ہوا۔ جہاں ایک مسلمان کی جھوٹی شکایت پر مقامی اچھوت ذات پر وحشیانہ مظالم کئے گئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ایک مسلمان جو کہ کشتی میں جا رہا تھا نے مچھلی پکڑنے کے لئے اپنا جال پھینکنے کی کوشش کی۔ ایک اچھوت ذات جو وہاں پہلے سے ہی اس مقصد کے لئے تھا نے اپنے مقابل جال پھینکنے کی مخالفت کی۔ اس پر توتکار شروع ہوگئی۔ مسلمان برہم ہوگیا اور قریبی مسلمان گاﺅں جاکر جھوٹی شکایت کی کہ اس کی کشتی میں اس پر اور ایک مسلمان خاتون پر اچھوت ذات نے حملہ کیا ہے۔ اس وقت گوپال گنج کا ایس ڈی اور جوکہ ندی میں ایک کشتی پر گزر رہا تھا نے بغیر تفتیش کے شکایت کو سچ تسلیم کرتے ہوئے مسلح پولیس اچھوت ذات کو سزا دینے کے لئے موقع پر بھیج دی۔ مسلح پولیس آئی اور مقامی مسلمان بھی اس کے ساتھ ہولیے انہوں نے نہ صرف اچھوت ذات کے گھروں پر دھاوا بولا بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کو بے رحمی سے زد و کوب کیا، املاک کو تباہ کیا اور قیمتی اشیاء اٹھا کر لے گئے۔ ایک حاملہ خاتون کی سنگدلانہ پٹائی کے نتیجہ میں موقع پر ہی اس کا حمل گر گیا۔ مقامی حکام کی طرف سے کی گئی اس بے رحمانہ حرکت نے ایک وسیع علاقے میں کھلبلی مچا دی۔

(12)پولیس کے جبر کا دوسرا واقعہ 1949ء کے پہلے حصے میں پولیس سٹیشن گورندی کے تحت ڈسٹرکٹ باریسال (Barisal) میں رونما ہوا۔ یہاں یونین بورڈ کے ممبران کے دو گروہوں کے درمیان ایک جھگڑا ہوا۔ ایک گروہ جو پولیس کی نظر میں اچھا تھانے مخالفین کے کیمونسٹ ہونے کو عذر (Plea) بنا کر سازش کی ۔ تھانہ پر حملہ کے خدشہ کی اطلاع پر او سی گورندی نے ہیڈکوارٹر سے مسلح دستے طلب کرلئے۔ پولیس نے افواج کی مدد سے علاقے میں بے شمار گھروں پر چھاپہ مارا۔ قیمتی املاک لے اُڑے، حتی کہ ان گھروں سے بھی جن کے مالکان وہاں نہ تو موجود تھے اور نہ سیاست میں شامل تھے۔ ایک وسیع علاقے سے بہت سے افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ بہت سے ہائی انگلش سکولوں کے اساتذہ اور طلباء مشتبہ کیمونسٹ تھے اور انہیں بے جا ہراساں کیا گیا۔ یہ علاقہ میرے آبائی گاﺅں کے کافی قریب ہے لہٰذا میں اس سانحے سے آگاہ تھا۔ میں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس پی کو انکوائری کے لئے لکھا مقامی لوگوں کے ایک گروہ نے بھی ایس ڈی او کی انکوائری کے لیے استدعا کی۔ لیکن کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے نام میرے خطوط کی رسیدوصول تک نہیں دی گئی۔ پھر میں یہ معاملہ پاکستان کی اعلیٰ انتظامیہ بشمول آپ کے علم میں لے کر آیا لیکن بے سود۔

افواج کے لئے عورتیں:

(13)پولیس اور افواج کے معصوم ہندوﺅں خاص طور پر ڈسٹرکٹ سلہٹ، حبیب گڑھ کے اچھوت ذاتوں پر روارکھے جانے والے مظالم تفصیل کے متقاضی ہیں۔ معصوم مردوں اور عورتوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ چند خواتین کی عصمت دری کی گئی، پولیس اور مقامی مسلمانوں نے گھروں پر دھاوا بولا اور املاک لوٹ لیں۔ علاقے میں فوجی ناکے لگائے گئے۔ فوج نے نہ صرف ان لوگوں پر جبر کیا اور ان ہندو گھروں کا سامان بزور اٹھالے گئے بلکہ ہندوﺅں کو مجبور کیا کہ وہ رات کو فوجیوں کی نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لئے اپنی خواتین کیمپ میں بھیجیں۔ یہ حقائق بھی میں آپ کے علم میں لایا۔ آپ نے مجھے اس معاملے پر رپورٹ کی یقین دہانی کروائی لیکن بدقسمتی سے کوئی رپورٹ دستیاب نہ ہوئی۔

(14)پھر ایک سانحہ ناکولی(Nachole)ڈسٹرکٹ راج شاہی میں ہوا جہاں کیمونسٹوں کے انسداد کے نام پر نہ صرف پولیس بلکہ مقامی مسلمانوں نے بھی پولیس کی ملی بھگت سے ہندوﺅں پر ظلم کیا اور ان کی املاک لوٹ لیں۔ سانتھل(Santhals)پھر سرحد پار کر گئے اور مغربی بنگال جا پہنچے۔ انہوں نے مسلمانوں اور پولیس کے کئے گئے ناحق مظالم کی داستانیں سنائیں۔

(15)کٹھور اور وحشیانہ سفاکی کی ایک اور مثال وہ واقعہ پیش کرتا ہے جو20دسمبر1949ء کو کلشیرہ (Kalshira)، پولیس سٹیشن ملاریٹ (Mallarhat) ڈسٹرکٹ کھلنا (Khulna) میں پیش آیا۔ رات گئے چار کانسٹیبلوں نے چند مبینہ کیمونسٹوں کی تلاش میں گاﺅں کلشیرہ میں جئے دیوبوھما کے گھر چھاپا مارا۔ پولیس کے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی درجن نوجوان جن میں سے چند ہوسکتا ہے کہ کیمونسٹ ہوں، گھر سے فرار ہو گئے۔ پولیس کانسٹیبل گھر میں داخل ہوگئے اور جئے دیوبوھما کی بیوی کو پیٹ ڈالا، جس کی چیخ نے اس کے پتی اور چند ساتھیوں جو کہ گھر سے فرار ہوئے تھے کو متوجہ کیا۔ وہ بے چین ہوکر دوبارہ گھر میں داخل ہوگئے اور چاروں کانسٹیبلوں کو صرف ایک گن کے ساتھ موجود پایا۔ اسی بات نے شاید نوجوانوں کو جرات دلائی، جنہوں نے مسلح کانسٹیبل کو ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ موقع پر ہی دم توڑگیا۔ پھر نوجوانوں نے ایک اور کانسٹیبل پر حملہ کیا جب کہ دوسرے دونوں بھاگ گئے اور آلارم بجا دیا جس سے چند قریبی لوگ متوجہ ہوئے اور ان کو نجات دلائی چونکہ یہ واقعہ سورج طلوع ہونے سے پہلے جب اندھیرا تھا اس وقت وقوع پذیر ہوا لہٰذا حملہ آور گاﺅں والوں کے آنے سے پہلے لاش کے ساتھ بھاگ نکلے۔ اگلے دن سہ پہر کو ایس پی کھلنا فوجی دستے اور مسلح پولیس کے ساتھ موقع پر پہنچے۔ اس وقت تک حملہ آور فرار ہوچکے تھے اور دور اندیش ہمسائے بھی بھاگ گئے تھے۔ لیکن زیادہ تر گاﺅں والے اپنے گھروں میں موجود تھے کیونکہ وہ مکمل طور پر بے گناہ اور وقوعہ کے نتائج سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس کے بعد ایس پی، ملٹری اور مسلح پولیس والوں نے تمام گاﺅں کے بے گناہوں کو بے رحمی سے مارنا شروع کردیا، ہمسایہ مسلمان اس سے ترغیب پا کر ان کی املاک لوٹ لے گئے۔ کئی افراد مارے گئے اور مردوں اور عورتوں کا مذہب جبراً تبدیل کیا گیا۔ گھریلو دیوی دیوتاﺅں کو توڑا اور پوجا پاٹ کے استھانوں کو بھرشٹ اور برباد کیا گیا۔ کئی عورتوں کی پولیس، ملٹری اور مقامی مسلمانوں نے آبروریزی کی۔ یوں نہ صرف کلشیر گاﺅں میں جو کہ وسیع آبادی کے ساتھ ڈیڑھ میل لمبائی پر پھیلا ہے بلکہ اس کے ساتھ کئی ایک قریبی اچھوت ذات دیہاتوں میں بھی ایک حقیقی قیامت برپا کر دی گئی۔ کلشیرہ گاﺅں انتظامیہ کی طرف سے کیمونسٹ سرگرمیوں کی جگہ کے طور پر کبھی مشتبہ نہیں رہا۔ جھالرونگا(Jhalardanga) نام کا ایک اور گاﺅں جو کہ کلشیرہ سے تین میل کی دوری پر تھا، کیمونسٹ سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس گاﺅں پر اس دن پولیس کے ایک بڑے دستے نے مبینہ کیمونسٹوں کے تعاقب میں چھاپا مارا، جن میں سے چند نے فرار ہوکر مذکورہ بالا گاﺅں کلشیرہ میں پناہ لی، جسے وہ اپنے لئے محفوظ جگہ سمجھتے تھے۔

(16) میں نے28 فروری 1950ء کو کلشیرہ اور ایک دو قریبی دیہات کا دورہ کیا، ایس پی کھلنا اور ضلع کے چند ممتاز لیگی قائدین میرے ہمراہ تھے۔ جب میں کلشیرہ گاﺅں پہنچا تو مجھے اس جگہ ویرانہ اور کھنڈرات ملے۔ مجھے ایس پی کی موجودگی میں بتایا گیا کہ اس گاﺅں میں350 مسکن تھے جن میں سے صرف تین کو بخشا گیا اور باقیوں کو مسمار کردیا گیا۔ اچھوت ذات کی علاقائی بیڑیاں اور ڈھور ڈنگر تمام لوٹ لئے گئے۔ میں نے یہ تمام حقائق مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور آپ کے گوش گزار کئے۔

 (17) اس سلسلے میں شاید یہ بھی ذکر کرنا چاہئے کہ اس واقعہ کی خبر مغربی بنگال کے پریس میں چھپی اور اس نے وہاں ہندوﺅں میں کچھ بے چینی پیدا کی۔ کلشیرہ کے متعدد مصیبت زدگان، مرد و زن ، بے گھر اور بے دست و پا کلکتہ پہنچے اور اپنی بپتا کی کتھائیں سنائیں جو مغربی بنگال میں جنوری کے اواخر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنیں۔

آشوب فروری کی وجوہات:

(18)یہ ذہن میں رہے کہ مغربی بنگال میں ہونے والے چند فرقہ وارانہ واقعات جو کلشیرہ سانحے کے درعمل کے طور پر ہوئے کی داستانیں مشرقی بنگال کے پریس میں بڑھا چڑھا کر شائع کی گئیں۔ فروری1950ء کے دوسرے ہفتے میں جب مشرقی بنگال اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع تھا، کانگریس اراکین نے کلشیرہ اور نیکولی(Nachole)میں پیدا شدہ حالات پر بحث کرنے کے لئے دو تحاریک التواءپیش کرنے کی اجازت چاہی۔ لیکن تحاریک رد کردی گئیں۔ کانگریس اراکین احتجاجاً اسمبلی سے واک آﺅٹ کرگئے ۔ اسمبلی کے ہندو ممبران کی اس کارروائی نے نہ صرف وزرا بلکہ صوبے کے مسلمان قائدین اور عہدیداران کو بھی برہم اور مشتعل کر دیا۔ یہ شاید فروری 1950ء میں مشرقی بنگال اور ڈھاکہ میں ہونے والے فسادات کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی۔

(19)یہ معنی خیز ہے کہ10فروری1950ء کو تقریباً  10 بجے صبح ایک عورت کی یہ دکھانے کے لئے کہ اس کی چھاتیاں کلکتہ فسادات میں کاٹ ڈالی گئیں کی سرخ رنگ سے شبیہ بنائی گئی اور اسے مشرقی بنگال کے ڈھاکہ سیکرٹیریٹ میں گھمایا گیا۔ فی الفور سیکرٹریٹ کے حکومتی ملازمین نے کام بند کردیا اور ہندوﺅں کے خلاف انتقام کے نعرے بلند کرتے باہر جلوس میں آ گئے۔ جلوس نے جیسے ہی ایک میل سے زیادہ فاصلہ طے کیا تو پھیلنا شروع ہوگیا۔ اس کا اختتام وکٹوریا پارک میں ایک میٹنگ پر تقریباً دو پہر12بجے ہوا، جہاں متعدد مقررین بشمول سرکاری عہدیداران نے ہندوﺅں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ اس تمام تماشے کا مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ جس وقت سیکرٹیریٹ کے ملازمین جلوس کے لئے باہر نکلے، حکومت مشرقی بنگال کے چیف سیکرٹری مغربی بنگال کے اپنے ہم منصب کے ساتھ اسی بلڈنگ میں دونوں بنگال میں فرقہ وارانہ فساد کے انسداد کا طریقہ کار ڈھونڈنے کے لئے اسی بلڈنگ میں کانفرنس کررہے تھے۔

عہدیداران کی لٹیروں کو اعانت:

(20)بلوہ پورے شہر میں ایک ہی وقت تقریباً ایک بجے دوپہر شروع ہوا۔ ہندو دوکانوں اور مکانوں کی لوٹ مار و آتشزدگی اور ہندوﺅں کا قتل عام شہر کے تمام حصوں میں بھر پور طریقے سے شروع کردیا گیا۔ یہاں تک کہ مجھے مسلمانوں سے بھی شہادت ملی کہ لوٹ مار اور آتشزدگی کا ارتکاب، حتی کہ اعلیٰ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں بھی کیا گیا۔ ہندوﺅں کی ملکیتی زیورات کی دکانوں کو پولیس افسران کی موجودگی میں لوٹا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے لوٹ مار روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ لٹیروں کی تجاویز و ہدایات کے ذریعے مدد بھی کی۔ میری بدقسمتی میں اس دن 10 فروری 1950ء کو سہ پہر پانچ بجے ڈھاکہ پہنچا۔ اپنے انتہائی خوف میں، ہجوم میں گھرے ہوئے، مجھے چیزوں کو جاننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ حقیقی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے میں نے جو دیکھا اور سمجھا وہ فقط ہیبت ناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔

 (21)ڈھاکہ فسادات کی بنیاد طور پر پانچ وجوہات تھیں۔

(i) جب کلشیرہ اور تاکولی واقعات پر دو تحاریک التوا رد ہوگئیں تو ہندوؤں کے نمائندگان کو اسمبلی سے واک آﺅٹ کرنے کے کے جرات مندانہ طرز عمل کا مزہ چکھانا۔

(ii)پارلیمانی پارٹی میں سہروردی اور ناظم الدین گروپ میں نزاع اور اختلافات شدت اختیار کررہے تھے۔

(iii)ہندو اور مسلمان لیڈران دونوں کی طرف سے مشرقی اور مغربی بنگال کے الحاق کی تحریک شروع کرنے کے خدشے نے مشرقی بنگال کی وزارت اور مسلم لیگ کو حواس بافتہ کردیا۔ وہ ایسی کسی تحریک کو روکنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی بنگال میں کوئی بھی بڑے پیمانے کا فرقہ وارانہ فساد لازماً مغربی بنگال میں ردعمل پیدا کرے گا۔ جہاں ممکنہ طور پر مسلمان مارے جائیں گے خیال یہ تھا کہ مشرقی ومغربی بنگال کے ان فسادات کے نتیجے میں دونوں بنگال کے الحاق کی کوئی بھی تحریک رک جائے گی۔

(iv)مشرقی بنگال میں بنگالی اور غیر بنگالی مسلمانوں کے درمیان عداوت کے احساسات پروان چڑھ رہے تھے۔ انہیں صرف مشرقی بنگال کے ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے روکا جا سکتا تھا۔ زبان کا سوال بھی اسی کے ساتھ وابستہ تھا اور

(v)اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا اور انڈوپاک تجارت میں تملل کے مشرقی بنگال کی معیشت پر مرتب ہونے والے نتائج سب سے پوری شدت کے ساتھ پہلے شہری اور دیہاتی علاقوں میں محسوس کئے گئے اور مسلم لیگی ممبران وعہدیداران ہندوﺅں کے خلاف کسی قسم کے جہاد کے ذریعے مسلم عوام کی توجہ سر پر منڈلاتی معاشی بدحالی سے ہٹانا چاہتے تھے۔

دھلا دینے والی تفصیلات ، تقریباً دس ہزار ہلاکتیں:

(22)ڈھاکہ میں اپنے نودن کے قیام کے دوران میں نے شہر اور مضافات کے زیادہ تر فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ میں نے تیج گاﺅں پولیس سٹیشن کے تحت میرپوری کا دورہ بھی کیا۔ ڈھاکہ نارائن گنج اور ڈھاکہ چٹاگانگ ریلوے لائنوں کے درمیان ٹرین میں سینکڑوں معصوم ہندوﺅں کی ہلاکت کی خبر نے مجھے سخت صدمہ پہنچایا۔ ڈھاکہ فسادات کے دوسرے دن، میں وزیراعلیٰ مشرقی بنگال سے ملا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ضلعی شہروں اور دیہاتی علاقوں میں فسادات کے پھیلاﺅ کو روکنے کی تدابیر اختیار کرنے کے لئے فوری ہدایات جاری رکیں،20 فروری 1950ء کو میں باریسال شہر پہنچا اور باریسال کے سانحات جان کر ششدر رہ گیا۔ ضلعی شہر میں متعدد ہندو مکانات جلائے گئے اور خاصی تعداد میں ہندوﺅں کو قتل کیا گیا۔ میں نے ضلع میں تقریباً تمام فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ حتی کہ کسی پور (Kasipur)، مدہب(Madhabpasha)اور لکوتیا (Lakutra)جیسے علاقوں جوکہ ضلعی شہر کے چھ میل کے دائرے مین واقع تھے اور قابل سفر سڑکوں کے ذریعے منسلک تھے میں مسلمان بلوائیوں کی پیدا کردہ بربادی دیکھ کر بالکل چکرا گیا۔ مدہب پاشا زمیندارکے گھر پر تقریباً دو سو لوگ مارے گئے اور چالیس زخمی ہوئے۔ مولادی کہلانے والا ایک علاقہ ایک ہول ناک جہنم کا شاہد ہے۔ مجھے مقامی مسلمانوں بشمول چند افسران نے بتایا کہ صرف مولادی بندر میں مرنے والوں کی کل تعداد تین سو سے زیادہ ہوسکتی تھی۔ میں نے مولادی گاﺅں کا دورہ بھی کیا، جہاں مجھے کچی جگہوں پر لاشوں کے پنجرملے میں نے کتوں اور گدھوں کو دریا کنارے لاشیں نوچتے دیکھا۔ مجھے وہاں اطلاعات ملیں کہ تمام بالغ مردوں وسیع پیمانے پر قتل کرنے کے بعد، تمام نوجوان لڑکیاں غنڈﺅں کے سرغنوں کے درمیان بانٹ لی گئیں۔ پولیس سٹیشن راجا پو رکے تحت کیبر تخلی (Kaibartakhali) کہلانے والے ایک علاقے میں 63 آدمی قتل ہوئے۔ اس تھانے سے چند قدموں کے فاصلے پر ہندوگھروں کو لوٹا، جلایا اور مکینوں کو قتل کیا گیا۔ بابو گنج بازار کی تمام ہندو دکانیں لوٹی اور پھر جلا دی گئیں اور خاصی تعداد میں ہندو قتل کئے گئے۔ ہلاکتوں کی موصولہ تفصیل معلومات کے محتاط اندازے کے مطابق صرف باریسال ڈسٹرکٹ میں پچیس سو ہلاکتیں ہوئیں۔ ڈھاکہ اور مشرقی بنگال کے فسادات پچیس سوہلاکتیں ہوئیں۔ ڈھاکہ اور مشرقی بنگال کے فسادات میں کل ہلاکتوں کا اندازہ تقریباً دس ہزار اموات تھا۔ عورتوں اور بچوں جن کا سب کچھ بشمول ان کے پیاروں کے چھن چکا تھا کی آہ زاری سے میرا دل پسیج گیا۔ میں نے خود سے فقط اتنا کہا”اسلام کے نام پر پاکستان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/15194/abid-mehmood-2/

1945 میں جب لارڈ ویول نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں شامل کیا تو اس کابینہ میں مسلم لیگ نے ایک غیر مسلم شخص جوگندر ناتھ منڈل کو بھی نامزد کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی مجلس قانون ساز کے پہلے اجلاس کی صدارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی پہلی کابینہ مین وزیر قانون کا قلمدان دیا گیا۔  قرار داد مقاصد کی منظوری کے بعد جوگندر ناتھ منڈل خود کو پاکستان میں غیر مطمعئن محسوس کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس قرار داد کے ذریعے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔ چنانچہ 1950 میں وہ پاکستان کی شہریت ترک کر کے ہندوستان منتقل ہو گئے جہاں سے آٹھ اکتوبر 1950 کو انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جو 15 اکتوبر 1950 کو منظور ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل نے اپنی بقیہ زندگی کلکتہ ہی میں گزاری اور 5 اکتوبر 1968 کو وفات پائی۔

آئیے دیکھتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل نے اپنے استعفیٰ میں کیا لکھا تھا۔ دوسرا حصہ ملاحظہ فرمائیں

معاہدہ دہلی کے نفاذ کی سنجیدہ خواہش کا نہ ہونا:

(23)بنگال سے ہندوﺅں کا وسیع پیمانے پر انخلاء مارچ کے اخیر میں شروع ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں تمام ہندو انڈیا ہجرت کرجائیں گے۔ بھارت میں جنگی نعرہ بندہ ہورہا تھا۔ صورتحال خاصی نازک ہو چلی تھی۔ ایک قومی آفت ناگزیر نظر آتی تھی۔ تاہم متوقع تباہی 8 اپریل کے دہلی سمجھوتہ سے ٹل گئی۔ دہشت زدہ ہندوﺅں کے پہلے سے ہارے حوصلوں کی بحالی کے مطمع نظر سے میں نے مشرقی بنگال کا ایک بھرپور دورہ کیا۔ میں نے ڈھاکہ، باریسال، فرید پور، کھلنا اور جیسور اضلاع میں متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔ میں نے درجنوں بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور ہندوﺅں سے کہا کہ حوصلہ قائم رکھیں اور اپنے پرکھوں کے گھر بار چھوڑ کر نہ جائیں مجھے یہ توقع تھی کہ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگی لیڈران معاہدہ دہلی کی شرائط پر عمل درآمد کریں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے احساس ہونے لگا کہ نہ تو حکومت مشرقی بنگال اور نہ ہی مسلم لیگی قائدین معاہدہ دہلی پر عمل درآمد کرنے کے معاملہ میں حقیقی طور پر سنجیدہ ہیں۔ مشرقی بنگال کی حکومت نہ صرف یہ کہ دہلی سمجھوتہ میں قیاس کردہ مشینری کی تشکیل پر تیار نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لئے موثر اقدامات کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ بہت سے ہندوؤں کو، جو دہلی سمجھوتہ کے فوراً بعد اپنے آبائی قصبوں کو لوٹ آئے، ان کے گھروں اور زمینوں جن پر اس دوران مسلمان قابض ہوچکے تھے کا قبضہ نہیں دیا گیا۔

مولانا اکرم خان کی اشتعال انگیزی:

(24)لیگی لیڈران کے ارادوں کے بارے میں میرے شکوک اس وقت یقین میں بدل گئے جب میں نے مولانا اکرم خان، صوبائی مسلم لیگ کے صدر کا ایڈیٹوریل تبصرہ ”محمدی“ نامی ایک جریدے کے بیساکھ ایشو میں پڑھا، ڈاکٹر اے ایم مالک، پاکستان کے اقلیتی معاملات کے وزیر کے پہلے ریڈیو خطاب، جس میں انہوں نے کہا تھا ”حضرت محمدﷺ نے بھی حتیٰ کہ عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی دی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اکرم خان نے کہا”ڈاکٹر مالک نے بھی کیا ہی اچھا کیا ہوتا، اگر انہوں نے اپنی تقریر میں عرب کے یہودیوں کے بارے میں کوئی حوالہ نہ دیا ہوتا۔“ یہ سچ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی مرحمت فرمائی، لیکن یہ تاریخ کا پہلا باب تھا، آخری باب میں حضرت محمدﷺ نے قطعی ہدایات دیں جو کچھ یوں ہیں:”تمام یہودیوں کو عرب سے نکال باہر کرو۔“ ایک ایسا شخص جو مسلم کمیونٹی کی سیاسی، سماجی اور روحانی زندگی میں بہت اعلیٰ رتبہ رکھتا ہو کے اس ایڈیٹوریل تبصرے کے باوجود بھی میں نے کچھ توقعات وابستہ رکھیں کہ نورالامین وزارت اتنی غیر مخلص نہیں ہوگی۔ لیکن میری یہ توقعات اس وقت مکمل طور پر بکھر گئیں جب مسٹر نورالامین نے دہلی سمجھوتہ کے حوالے سے جو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اقلیتوں کے دل میں اعتماد بحال کرنے کے لئے ان کے نمائندوں میں سے ایک کو حکومت مشرقی ومغربی بنگال کی وزارت میں لیا جائے گا، ڈی این براری کو اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے بطور وزیر چنا۔

نورالامین حکومت کی ریاکاری:

(25)میں نے اپنے ایک سرکاری بیان میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا کہ ڈی این براری کا بطور اقلیتوں کے نمائندہ وزیر کے تقرر نہ صرف یہ کہ اعتماد کی بحالی میں کوئی مدد نہیں کرے گا بلکہ اس کے برعکس التباسی توقعات اگر کوئی اقلیتوں کے ذہن میں نورالامین حکومت کے خلوص کے بارے میں ہیں تو انہوں خاک میں ملا دے گا۔ میرا ذاتی ردعمل یہ تھا کہ مسٹر نورالامین کی حکومت نہ صرف غیر مخلص تھی بلکہ دہلی سمجھوتہ کے حقیقی مقاصد کو ناکام کرنا چاہتی تھی۔ میں دوبارہ کہتا چلوں کہ ڈی این براری ماسوائے اپنی ذات کے کسی اور کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ کانگریس کے ٹکٹ اور کانگریس کے مال وانتظام کے ساتھ کامیاب ہوکر بنگال قانون ساز اسمبلی میں پہنچے۔ انہوں نے اچھوت ذات فیڈریشن کے امیدواروں کی مخالفت کی۔ چناﺅ کے کچھ عرصہ بعد وہ کانگریس سے دغا کر کے فیڈریشن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ جب ان کا تقرر بطور وزیر کے ہوا تو وہ فیڈریشن کے ممبر بھی نہ رہے۔ میں جانتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے ہندو مجھ سے متفق ہوں گے کہ وہ ازروئے جد، کردار اور کسب فہم براری عہدہ وزارت رکھنے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے، جیسا کہ دہلی سمجھوتہ میں مقصود کیا گیا ہے۔

(26)میں نے اس منصب کے لئے مسٹر نورالامین کو تین نام تجویز کئے۔ ایک شخص جس کا نام میں نے تجویز کیا، ڈھاکہ ہائی کورٹ کا ایم اے، ایل ایل بی وکیل تھا۔ وہ بنگال میں فضل الحق کی پہلی وزارت میں چار سال سے زائدعرصہ وزیر رہ چکا تھا۔ وہ تقریباً چھ سال تک کوئلہ کان ذخیرہ بورڈ کلکتہ (coal Mines stowing Board) کا چیئرمین رہا۔ وہ اچھوت ذات فیڈریشن کا سنیئرنائب صدر تھا۔ میرا دوسرا نامزد ایک بی اے، ایل ایل بی تھا۔ وہ قبل از اصلاحات دور حکومت میں قانون ساز کونسل کا سات سال تک ممبر رہا۔ میں جاننا چاہوں گا کہ مسٹر نورالامین کے لئے ایسی وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی منتخب نہ کیا اور ان کی بجائے ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جس کی بطور وزیر تقرری کی میں نے بہت مناسب سوچ بچار کی بنا پر بڑی شدت سے مخالفت کی تھی۔ بغیر کسی مخالفت کے خوف کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مسٹر نورالامین کا براری کو دہلی سمجھوتہ کی بنیاد پر بطور وزیر منتخب کرنے کا فعل، قطعی ثبوت تھا کہ حکومت مشرقی بنگال دہلی سمجھوتہ کی شرائط کے بارے میں اپنے عہد پر سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص، جس کا بنیادی مقصد ایسے حالات بہم پہنچانا تھا جو ہندوﺅں کو ان کی زندگی، جائیداد، عزت اور مذہب کے تحفظ کے احساس کے ساتھ مشرقی بنگال میں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل بنائیں۔

ہندوﺅں کو کچلنے کا حکومتی منصوبہ:

(27)اس سلسلے میں میں اپنے یقین محکم کی یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ حکومت مشرقی بنگال کے ہندوﺅں کو صوبے سے نکال باہر کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی پر ابھی بھی عمل پیرا تھی۔ آپ کے ساتھ میری گفتگو میں ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے اپنے اس نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہندوﺅں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کی یہ پالیسی مغربی پاکستان میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکی ہے اور مشرقی پاکستان میں بھی تکمیل کے قریب ہے ڈی این براری کا بطور وزیر تقرر اور حکومت مشرقی بنگال کا اس سلسلے میں میری سفارشات پر غیر رسمی اعتراض صحیح معنوں میں اس نام سے مطابقت رکھتا ہے جسے یہ اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ پاکستان ہندوﺅں کو کامل طمانیت وتحفظ کا مکمل احساس بہم نہیں پہنچا سکا۔ یہ اب ہندو دانشوروں سے نجات چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کسی بھی طرح ان سے متاثر نہ ہو سکے۔

مخلوط طرز انتخاب کو سردخانے میں ڈالنے کی حیلہ جو چالیں:

(28) میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوچکا ہوں کہ طرز انتخاب کے سلسلہ کا ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں کی ذیلی کمیٹی کا تقرر کئے اب تین سال ہوگئے ہیں۔ مخلوط یا جداگانہ طرز انتخاب کا سوال گذشتہ دسمبر میں منعقدہ ایک کمیٹی کی میٹنگ میں غوروخوص کے لئے پیش ہوا، جب پاکستان کی مسلمہ اقلیتوں کے تمام نمائندگان نے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ پسماندہ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کی حمایت کا اظہار کیا۔ ہم نے اچھوت ذاتوں کی جانب سے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ اچھوت ذاتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ دوبارہ گذشتہ اگست میں منعقدہ ایک میٹنگ میں غور و خوض کے لئے پیش ہوا۔ اس معاملہ پر بغیر مباحثہ کئے میٹنگ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں  کی طرف سے ایسے اہم معاملے پر ایسی مائل بہ گریز قسم کی چالیں چلنے کے پیچھے کیا محرک ہے۔

ہندوﺅں کے لئے تاریک مستقبل:

(29)اب آئیے موجودہ صورتحال اور مشرقی بنگال میں دہلی سمجھوتہ کے نتیجہ میں بننے والے ہندوﺅں کے مستقبل کی جانب، مجھے کہنا چاہئے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف غیر اطمینان بخش ہے بلکہ قطعاً مایوسانہ ہے اور یہ کہ مستقبل مکمل طور پر تاریک اور ہولناک ہے۔ مشرقی بنگال میں ہندوﺅں کا اعتماد ذرا سا بھی بحال نہیں ہوا۔ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگ نے یکساں طور پر معاہدہ کے ساتھ محض ردی کے کاغذ کا برتاﺅ کیا ہے۔ خاص بڑی تعداد میں ہندو تارکین وطن، زیادہ تر اچھوت ذات کاشت کارروں کی مشرقی بنگال میں واپسی اس بات کی علامت نہیں کہ اعتماد بحال ہوچکا۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا قیام اور بحالی مغربی بنگال یا انڈین یونین میں کہیں اور ممکن نہیں۔ پناہ گزین زندگی کی صعوبتیں انہیں اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر منقولہ اشیا اٹھانے اور غیر منقولہ جائیداد کو نبیڑنے یا بیچنے کے لئے لوٹ رہے ہیں۔ مشرقی بنگال میں اگر حالیہ کوئی سنگین فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا تو اسے دہلی سمجھوتہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی سمجھوتہ یا معاہدہ نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی یہ بالکل جاری نہیں رہتا۔

(30)یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ دہلی معاہدہ فی نفسہ ماحصل نہیں تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متعدد تنازعات اور کشمکش کے حل میں موثر طور پر معاون ہوسکیں۔ لیکن سمجھوتے کے بعد چھ ماہ کے اس عرصہ کے دوران کوئی تنازع یا کشمکش حقیقتاً حل نہیں ہوسکی۔ اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے اندرون اور بیرون ملک فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ اور ہندوستان دشمن پروپیگنڈہ زور وشور سے جاری ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان بھر میں یوم کشمیر منانا پاکستانی فرقہ وارانہ ہند دشمن (Anti India)پروپیگنڈہ کا واضح ثبوت ہے۔ گورنر پنجاب (پاک) کا حالیہ تقریر میں یہ کہنا کہ پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے، نے پاکستان کے انڈیا کی طرف حقیقی رویے کا بھانڈا پھوڑ ڈالا ہے۔ یہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تناﺅ بڑھائے گا۔

مشرقی بنگال میں آج کیا ہورہا ہے:

(31) مشرقی بنگال میں آج کیا حالات ہیں؟ دیش کے بٹوارے سے اب تک تقریباً پچاس لاکھ ہندو چھوڑ چھاڑ کر جا چکے ہیں۔ گذشتہ فروری کے فسادات کے علاوہ ہندوﺅں کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی کی کئی اور وجوہات ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ہندو وکلا، طبیبوں، دکانداروں، تاجروں اور بیوپاریوں کے بائیکاٹ نے ہندوﺅں کو اپنے ذریعہ معاش کی تلاش کے لئے مغربی بنگال کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ہندو مکانات پر بڑی تعداد میں قبضہ وہ بھی بغیر کسی قانونی طریقے پر عمل کئے اور مالکان کو کرایہ کی عدم ادائیگی، جو بھی کہہ لیں، نے انہیں ہندوستانی پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ ہندو مالکان کو کرایہ کی ادائیگی بہت پہلے ہی بند ہوچکی تھی مزید برآں انصار جن کے خلاف مجھے ہر طرف سے شکایات موصول ہوئیں، ہندوﺅں کے تحفظ اور سکیورٹی کے لئے دائمی خطرہ تھے۔ تعلیمی معاملات اور تعلیمی اتھارٹی کے اختیار کردہ طریقہ ہائے کار سے استنباط نے سیکنڈری سکولوں اور کالجوں کے تدریسی عملہ کو اپنے پرانے شناسا گردوپیش سے باہر نکلنے کے تصور نے خوفزدہ کر دیا۔ وہ مشرقی بنگال چھوڑ گئے۔ اس کے نتیجہ میں زیادہ تر تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔ مجھے یہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ کچھ عرصہ پہلے تعلیمی مقتدرہ نے سیکنڈری سکولوں میں تمام اساتذہ اور طلباء کے لئے سکول کا کام شروع ہونے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت میں لازمی شرکت کے حکم نامہ کا مراسلہ جاری کیا تھا۔ ایک اور مراسلہ سکول ہیڈ ماسٹروں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بلڈنگ کے مختلف حصوں(Blacks)کو بارہ ممتاز مسلمانوں کی توقیر میں، جیسے کہ جناح، اقبال، لیاقت علی اور ناظم الدین وغیرہ کے نام سے پکاریں۔ ڈھاکہ میں ابھی پچھلے دنوں منعقدہ تعلیمی کانفرنس میں، صدر نے یہ منکشف کیا کہ مشرقی بنگال میں پندرہ سو(1500)انگلش ہائی سکولوں میں سے صرف پانچ سو (500) کام کر رہے ہیں۔ طبی معالجین کی نقل مکانی کے سبب، بمشکل ہی مریضوں کے مناسب علاج کا کوئی طریقہ رہ گیا ہے۔ تقریباً تمام پنڈت جو ہندو گھروں میں گھریلو دیوتاﺅں (Household Deities) کی پوجا کیا کرتے تھے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ پوجا کے اہم استھان تج دئیے گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مشرقی بنگال کے ہندوﺅں کے پاس بمشکل ہی وہ اسباب ہیں جن سے وہ اپنے مذہبی فرائض اور شعائر کی پیروی اور سماجی تقریبات کی بجا آوری کرسکیں، جیسا کہ شادی جہاں پنڈت کی خدمات ضروری ہیں۔ صناع جو دیوی دیوتاﺅں کے بت بناتے تھے بھی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یونین بورڈز کے ہندو صدور کا مقام جبری اقدامات کے ساتھ ساتھ پولیس اور سرکل آفیسرز کی عملی مدد اور چشم پوشی کے ذریعے مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے۔ سکولوں کے ہندو ہیڈماسٹروں اور سیکرٹریوں کی جگہ مسلمانوں کو دی جا چکی ہے۔ چند ہندوسرکاری ملازمین کی زندگی اس درجہ بدحال بنا دی گئی ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو یا تو ان کے مسلمان جونیئرز نے کچلا ہوا ہے یا پھر بغیر کسی مناسب یا کسی بھی وجہ کے ملازمت سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں چٹاگانگ کے ایک ہندو پبلک پراسیکیوٹر کو آمرانہ طو رپر ملازمت سے ہٹادیا گیا ہے جیسا کہ سری جکتا نیلائی سین گپتا (Srijukta Nellie Sengupta) کے دیے گئے بیان سے واضح ہوچکا ہے جن کے خلاف مسلم دشمنی ، تنگ نظری، تعصب یا بغض کا کوئی الزام نہیں۔

ہندو درحقیقت راندہ درگاہ:

 (32) چوریوں اور ڈکیتیوں کا حتیٰ کہ قتل کا ارتکاب پہلے کی طرح جاری تھا۔ ہندوﺅں کی طرف سے کی گئی آدھی شکایات کا اندراج بھی تھانوں میں شاید ہی کیا گیا۔ الغرض ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ریپ کو اس درجہ گھٹا دیا جاتا، جس کی واحد وجہ یہ لگتی کہ مشرقی بنگال میں آج کل بارہ سے تیس سال کی ہندو جاتی کی کوئی لڑکی نہیں رہتی۔ دیہاتی علاقوں میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے والی نچلے طبقے کی لڑکیوں کو بھی مسلمان غنڈوں نے نہیں بخشا۔ مجھے مسلمانوں کے اچھوت ذات لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے متعدد واقعات کی اطلاعات مل چکی ہیں۔ منڈی میں ہندوﺅں کی فروخت کردہ پٹ سن اور دیگر زرعی اجناس کی قیمت کی مکمل ادائیگی مسلمان خریدار شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ درحقیقت جہاں تک ہندوﺅں کا تعلق ہے، پاکستان میں قانون، انصاف اور عدل کی عمل داری نہیں۔

مغربی پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب:

(33)مشرقی پاکستان کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اب مجھے مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کا حوالہ دینے دیجئے۔ بٹوارے کے بعد مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ اچھوت ذات لوگ تھے۔ شاید یہ نوٹ کیا گیا ہو کہ ان کی خاصی بڑی تعداد کو اسلام قبول کرا لیا گیا۔ صاحبان اقتدار کو بار بار کی عذرداشت (Petitions)  کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی اغواء کردہ ایک درجن اچھوت ذات لڑکیوں میں سے صرف چار کو بازیاب کرایا جا سکا ہے۔ ان لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اغوا کنندگان کے نام بھی حکومت کو دیے جاچکے ہیں۔ مغویان لڑکیوں کی بازیابی کے انچارج افیسر کی طرف سے دیے گئے حالیہ آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اس کا کام ہندو لڑکیوں کی بازیابی تھا اور”اچھوت“ (Scheduled Castes)ہندو نہیں۔“ ہندوﺅں کی محدود تعداد کی حالت زار جو ابھی تک سندھ اور کراچی، پاکستان کے درالخلافہ میں رہ رہی ہے، انتہائی تاسف انگیز ہے۔ مجھے کراچی اور سندھ کے 363 ایسے ہندو مندروں اور گردواروں کی ایک فہرست (جوہرگز مکمل نہیں ہے) موصول ہو چکی ہے جو ابھی تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں۔ کچھ سندر چمارکی دوکانوں، مذبح خانوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ کسی ہندو کو واپس نہیں ملے۔ ان کی ارضی املاک کا قبضہ بغیر کسی نوٹس کے ان سے چھین کر مہاجر اور مقامی مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دو سو سے تین سو ہندوﺅں کو تحویل داروں نے کچھ عرصہ پہلے ہی غیر تارک وطن قرار دے دیا تھا۔ لیکن تاحال ان میں سے کسی کو بھی جائیدادیں واپس نہیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ کراچی پنجرپول (Pinjivpale) کا قبضہ اس کے متولیوں (Trustees) کو واپس نہیں کیا گیا۔ ہر چند کہ اسے کچھ عرصہ پہلے غیر تارکِ وطن پراپرٹی قرار دیا گیا تھا۔ کراچی میں مجھے بہت سے بدقسمت ہندو باپوں اور خاوندوں کی طرف سے ہندو لڑکیوں زیادہ تر اچھوت ذاتوں کے اغوا کی عرضیاں موصول ہوئیں۔ میں نے صوبائی حکومت سندھ کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں یا بہت کم تھا۔ میں نے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اطلاعات موصول کیں کہ اچھوت ذاتوں کی ایک خاصی بڑی تعداد جو ابھی تک سندھ میں رہائش پذیر ہے کو جبراً مسلمان بنا لیا گیا ہے۔

پاکستان ہندوﺅں کے لئے نحوست زدہ:

(34)جہاں تک ہندوﺅں کا معاملہ ہے، پاکستان کی عمومی تصویر کی اب تلخیص کرتے ہوئے، میں یہ کہنے میں غلط نہیں ہوں گا کہ پاکستان کے ہندوﺅں کو ان کے اپنے گھروں میں تمام مضمرات کے ساتھ بے وطن(Stateless)کردیا گیا ہے۔ ان کا اس کے علاوہ اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگی قائدین کی طرف سے بار بار ایسے اعلانات کرنا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور ہوگی۔ اسلام کو تمام دنیوی برائیوں کے لئے بطور اکسیر علاج  کے تجویز کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم کی بے موازنہ جدلیات میں، آپ نشاط آور اسلامی مساوات اور بھائی چارے کا جمہوری امتزاج پیش کرتے ہیں۔ شریعت کے اس پرشکوہ بندوبست میں، مسلمان اکیلے ہی حکمران ہوں گے جبکہ ہندو اور دوسری اقلیتیں ذمی، جو کہ قیمتاً تحفظ کی حقدار ہوں گی، اور جناب وزیراعظم آپ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں کہ وہ قیمت کیا ہے۔ ایک متوحش اور طویل جدوجہد کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ہندوﺅں کے رہنے کی جگہ نہیں اور یہ کہ ان کا مستقبل تبدیلی مذہب اور کاروبار کی بیخ کنی کی پرچھائیوں سے تاریک ہوچکا ہے۔ اعلیٰ طبقہ کے ہندوﺅں اور سیاسی طو رپر باشعور اچھوت ذاتوں کی بڑی تعداد مشرقی بنگال چھوڑ کر جا چکی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ہندو جو پاکستان میں مطعون ٹھہرائے جاتے رہیں گے تو تدریجی مراحل اور منصوبہ بند طریقوں سے یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا مکمل طور پر نابود، یہ واقعی حیران کن ہے کہ آپ جیسا تعلیم یافتہ اور تجربہ کار انسان ایک ایسے نظریہ کا شارح بن چکا ہے جو انسانیت کے لئے بہت بڑے خطرے سے معمور اور مساوات اور فہم عامہ کو پائمال کرنے والا ہے۔ میں شاید آپ اور آپ کے رفقائے کار کو بتا سکوں کہ چاہے جو بھی برتاﺅ یا بہکاوا ہو، ہندو خود کو پیش نہیں کریں گے کہ ان کی جنم بھومی میں ان کے ساتھ ذمیوں کا سا سلوک روارکھا جائے۔ آج وہ شاید، جیسا کہ یقینا ان میں سے بہت سے پہلے ہی کر چکے، غم لیکن درحقیقت خوف میں اپنا گھر بار ترک کردیں۔ کل وہ زندگی کی اقتصادیات میں اپنی صحیح جگہ کے لئے جدوجہد کریں گے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والے پل کی پیش گوئی کیا ہے؟ جب میں قائل ہوگیا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں میرے اقتدار کا تسلسل ہندوﺅں کے لئے کسی طور معاون نہیں، پاکستان کے ہندوﺅں اور غیر ممالک کے عوام کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر پیدا کرکے کہ ہندو یہاں اپنی زندگی، جائیداد اور مذہب کے حوالے سے عزت اور احساس تحفظ کے ساتھ رہ سکتے ہیں، میں اپنا ضمیر مطمئن نہیں رکھ سکتا۔ یہ رہا ہندوﺅں کے بارے میں۔

مسلمانوں کے لئے بھی کوئی شہری آزادی نہیں:

(35) اور ان مسلمانوں بارے میں کیا کہوں جو مسلم لیگ حکمرانوں اور ان کی کرپٹ اور نااہل بیوروکریسی کے دلکش حلقے سے باہر ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی شے مشکل سے ہی ہے جسے شہری آزادی کہا جا سکے۔ مثال کے طور پر، خان عبدالغفار خان، جس سے زیادہ پارسا کسی مسلمان نے کئی برسوں سے اس زمین پر قدم نہیں رکھا اور ان کے جواں مرد محب وطن بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا مقدر، قبل ازیں پاکستان کی شمال مغربی اور مشرقی پٹی کے لیگی لیڈران کی ایک بڑی تعداد کو بھی بغیر کسی مقدمہ کے حراست میں رکھا گیا۔ حسین شہید سہروردی جو بنگال میں لیگ کی بڑے پیمانے پر فتح کے حقدار ہیں، عملی طور پر پاکستانی قیدی ہیں، جنہیں اجازت سے نقل وحرکت کرنی پڑتی ہے اور احکامات کے تابع لب کشائی۔ مسٹر فضل الحق جن کی بنگال کے بڑے بوڑھے کے طور پر دل وجان سے تکریم کی جاتی ہے، جو اس وقت مشہور قرار داد لاہور کے مصنف ہیں، نظام عدل کے ڈھاکہ ہائی کورٹ کی حدود میں اپنی تنہا لائن Furrow میں ہل چلا رہے ہیں اور نام نہاد اسلامی منصوبہ بندی اتنی ہی بے رحم ہے جتنی کہ کامل مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے بارے عمومی طور پر جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے ان کے ساتھ آزاد ریاست کی خود مختار ومقتدر اکائیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس انہیں ملا کیا؟ مشرقی بنگال پاکستان کے مغربی حصے کی کالونی میں بدل گیا، حالانکہ اس کی مشمولہ آبادی پاکستان کے تمام یونٹوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ یہ کراچی کا ایک کمزور وغیر موثر ماتحت تھا جو آخر الذکر کے ارشادات کی تعمیل اور احکامات کی بجا آوری کررہا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان اپنی ولولہ انگیزی میں، رزق چاہتے تھے اس کے برعکس انہیں اسلامی ریاست اور شریعت کے پراسرار عمل سے سندھ اور پنجاب کے بنجر ریگستانوں سے پتھر ملے۔

میرا اپنا المناک اور تلخ تجربہ:

(36) پاکستان کی عمومی حالت زار اور دوسروں کے ساتھ روا رکھی گئی بہیمانہ وظالمانہ ناانصافی کو ایک طرف رکھتے ہوئے، میرا اپنا تجربہ کم افسوسناک، تلخ اور قابل دید نہیں۔ آپ نے وزیراعظم اور پارلیمانی پارٹی کے قائد کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے مجھے ایک بیان جاری کرنے کو کہا، جو میں نے گذشتہ 8 ستمبر کو کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں غلط بیانیوں اور آدھی سچائیوں پر مشتمل کوئی بیان جاری کرنے پر رضامند نہ تھا، جو کہ غلط بیانیوں سے زیادہ بدتر تھے۔ میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ میں آپ کی درخواست رد کرتا جب تک کہ میں آپ کے ساتھ، آپ کی قیادت میں بطور وزیر کام کررہا تھا۔ لیکن میں مزید اپنے ضمیر پر جھوٹے ڈھونگ اور غلط بیانی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ اور میں نے آپ کی وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو میں یہیں آپ کے حوالے کررہا ہوں، مجھے اُمید ہے آپ بغیر کسی تاخیر کے منظور کرلیں گے۔ یقینا آپ اس منصب کو اُس طرح جیسے آپ اپنی اسلامی ریاست کے مقاصد کے لئے مناسب اور مؤثر طور پر موزوں ہو، تقسیم یا ختم کرنے کے مجاز ہیں۔

آپ کا مخلص

جے این منڈل

8 اکتوبر 1950

Source:

http://www.humsub.com.pk/15319/abid-mehmood-3/

Comments

comments