فقہِ جعفری – چند وضاحتیں – امجد عباس

1001676_494948357266394_1251617437_n

فقہِ جعفری/ فقہِ اہلِ بیت کے اولین مؤسس امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھما السلام ہیں، اِس فقہ کے بنیادی ماخذ قرآن اور سنتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جبکہ ثانوی مآخذ میں اجماع اور عقل شامل ہیں۔ سنت میں زیادہ انحصار ان روایات پر کیا جاتا ہے جنہیں آئمہِ اہلِ بیت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہو، صحابہ کرام کی احادیث بھی قبول کی جاتی ہیں اگر باقی سلسلہِ سند درست ہو۔

فرموداتِ آئمہِ اہلِ بیت احادیثِ نبوی ہی ہیں کیونکہ آئمہ نے صراحت کی ہے کہ ہماری احادیث حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث ہیں، فقہِ اہل بیت میں قیاس، استحسان ، قولِ صحابی وغیرہ کو معتبر شمار نہیں کیا جاتا۔

فقہِ اہلِ بیت کے 95 فیصد سے زیادہ فقہی احکام اہلِ سنت کے چاروں مسالک بشمول اہلِ حدیث کے مفتی بہ و مشہور اقوال کے موافق ہیں، جبکہ باقی مسائل اِن چاروں فقہوں کے غیر مشہور اقوال یا ختم ہوجانے والے اہلِ سنت مسالک کے موافق ہیں جیسے امام اوزاعی کا مکتب یا امام طبری کا مکتب۔

آج فقہِ جعفری کے امتیازی مسائل میں سے نکاح المتعہ کو پیش کیا جاتا ہے جبکہ یہ بھی 100 فیصد امتیازی نہیں، صحیحین کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی صحابہ کرام اس کے جواز کے قائل تھے، جن کا رجوع ثابت نہیں، حتی ابنِ جریج تابعی و دیگر فقہاءِ مکہ سعید بن جبیر، عطا و طاووس وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن منذر نے اپنی کتاب “الاجماع” میں لکھا ہے کہ اِس کی حرمت پر اجماع نہیں ہے۔

جہاں تک اہلِ بیت کے ذخیرہِ احادیث کا تعلق ہے تو جیسے بعض سُنی علماء کو تحفظ ہے کہ راوی غالی نہ ہوں، ایسے تحفظات اہلِ تشیع کو بھی اہلِ سنت کے ذخیرہِ حدیث پر ہیں، اہلِ سنت کی احادیث کے کئی راوی دشمنِ اہلِ بیت، سرکاری اموی ملازم، درباری علماء نما لوگ تھے، بخاری میں عمران بن حطان جیسے ناصبی سے روایات ہیں جو امام علی کو سرعام گالیاں اور اُن کے قاتل کی شان میں قصیدے لکھتا تھا
باقی راوی بھی اس جیسے بکثرت موجود ہیں، ایسے میں کیا کیا جائے؟؟؟

ایسے شبھات کے ازالے کے لیے سند سے زیادہ متن کو دیکھنا ہوگا۔

جہاں تک اعتقادات کا تعلق ہے تو مکتبِ اہلِ بیت اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان درمیان ہے، مسئلہِ جبر و قدر میں بین الامرین کا قائل، ارادہ کی آزادی کے ساتھ اللہ تعالی کی حاکمیت کا معتقد۔۔۔ اشاعرہ، ماتریدیہ و اہلِ ظاہر نے یکسر عقل کی نفی تو تو معتزلہ نے سارا زور عقلی توجیحات پر دیا، مکتبِ اہلِ بیت عقل و نقل ہر دو کا حسیں امتزاج ہے۔

جہاں تک عقیدہِ عصمت کی بات ہے تو اس کا فقہ پر کوئی عملی اثر نہیں ہے، اہلِ سنت صحابہ کرام کو (دینی امور میں) محفوظ عن الخطا اور صادق فی النقل سمجھتے ہیں۔ یہی اعتقاد آئمہِ اہلِ بیت کے متعلق اہلِ تشیع کا ہے کہ آئمہ اہلِ بیت عادل اور جو احادیث بیان کرتے ہیں اُن میں صادق ہیں۔۔۔

اچھا مزید کسی صاحبِ علم کو عقیدہِ عصمت عجیب لگے تو ذرا “کرامات علماءِ دیوبند” شاہ ولی اللہ صاحب کی سوانح عمری، ان کے عرفانی مکاشفے، “تذکرۃ الاولیاء” وغیرہ پڑھ کر دیکھیے، کہ کون سا بزرگ عصمت کے کس درجہ پر ہے، ہاں “فصوص الحکم” ابنِ عربی کی، لازمی پڑھ لی جائے، امید ہے عصمتِ آئمہِ اہلِ بیت کے حوالے سے شبھات دور ہو جائیں گے۔

فقہِ اہلِ بیت کا منفرد امتیاز:

اہلِ سنت کے فقہی مسلک اور عقائدی مسلک الگ الگ ہیں، فقہ میں حنفی تو عقائد میں ماتریدیہ۔ فقہ میں شافعی تو عقائد میں اشعری، فقہ میں حنبلی تو عقائد میں اہلِ ظاہر۔۔۔ مکتبِ اہلِ بیت میں ایسی تقسیم نہیں ہے، عقائد و فقہ میں اصول ایک جیسے ہیں، عقائد و فقہ دونوں اہلِ بیت سے مروی اور قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، جبکہ ان کی تشریحات آئمہ اہلِ بیت سے مروی ہیں۔۔۔ مکتبِ اہلِ بیت فقہ و عقائد دونوں میں اہلِ بیت کی تعلیمات سے مرصع ہے۔

(نوٹ: فقہِ جعفری کے حوالے سے ایک عالم کی پوسٹ کے نیچے چند وضاحتی کمنٹس دیے، بعد میں اُنھیں پوسٹ کی شکل میں شیئر کیا، آج نشرِ مکرر۔۔۔)

Comments

comments