صاحبانِ علم کے ذاتی رجحانات کا تحقیق پر اثر – امجد عباس
عام طور پر صاحبانِ علم کی تحقیق کے نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتے ہیں، جہاں اِس اختلاف کے کئی دیگر عوامل ہیں وہیں ایک بڑا عامل “ذاتی رجحان” ہے۔ صاحبانِ علم مختلف فکری و علمی مکاتب سے وابستہ ہوتے ہیں، اپنے مکتبہِ فکر کو مقدم رکھنا ہی اکثر و بیشتر اُن کا مفاد ہوتا ہے، جب اپنا “ذاتی رجحان” ثابت کرنا اور منوانا ہی مقصد ہوتو انسان علمی دیانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
مناظر علماء کا یہی مسئلہ ہے، اُن میں کئی چوٹی کے محقق بھی تھے، لیکن جب اپنی ہربات منوانا ہی اُن کا مطمعِ نظر قرار پایا تو غلطی ہائے مضامیں نہ پوچھیے۔
امام ابن تیمیہ بہت سخت نظریات کے حامل تھے، یہ صحیح و حسن احادیث کو قبول کرتے تھے، ضعیف و موضوع احادیث سے اجتناب برتتے، لیکن اپنے مخالف علامہ حلی کی کتاب کے رد میں اِنھوں نے اُن کی پیش کردہ صحیح و حسن احادیث کو بھی ٹھکرا دیا، جبکہ اپنی طرف سے ضعیف و موضوع روایات بھی پیش کی ہیں، مجھے حال ہی میں تخریج و تحقیق کے ساتھ شائع ہونے والی اِن کی کتاب “منھاج السنۃ” دیکھنے کا موقع ملا، محققِ کتاب نے کئی جگہ تعجب کیا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے جسے امام ابن تیمیہ نے پیش کیا ہے، شاید وہ اِس کے وضعی ہونے سے آگاہ نہ تھے۔ اُن کی اِسی کتاب کو دیکھ کر حافظ ابنِ حجر عسقلانی کو کہنا پڑا کہ مخالف عالم کی بات کو رد کرنے کے لیے امام ابن تیمیہ نے کئی حسن و صحیح احادیث کو بھی ٹھکرایا ہے اور حضرت علیؑ کی تنقیص سے بھی نہیں چونکے۔
حال ہی میں پاکستان میں ایک شیعی مناظر گزرے ہیں جو اہلِ سنت کی ہرکتاب کے نام کے ساتھ یوں لکھتے تھے: اہلِ سنت کی معتبر کتاب۔۔۔ خواہ اُس کتاب کیا، صاحبِ کتاب کی بھی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔
کچھ صاحبانِ علم اپنی تحقیق میں احادیث کو ترجیح دیتے ہیں، کچھ کا محور قرآن مجید ہوتا ہے، کچھ حضرات فقہی کتب کے درپے ہوتے ہیں، سو اُن کا تحقیقی اُسلوب دوسروں سے مختلف ہوتا ہے، یوں اختلاف ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
صاحبانِ علم نے ایک اور روش بھی نکال رکھی ہے، جب اِنھیں کوئی اپنی مخالفت میں کسی صحابی یا بزرگ محقق کا قول ملتا ہے تو پہلے اِن کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے کسی طرح ٹھکرا دیں، اگر اُسے ٹھکرا نہ سکیں تو لکھ دیں گے کہ اُنھوں نے اِس قول سے رجوع کر لیا ہوگا۔
امام فخر الدین رازی اپنی کتاب تفسیر الکبیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اختلافی قول لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں:
یجب علینا أِحسان الظن بہ و اَن نقول اِنہ رجع عن ھذہ المذاھب۔
کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اِس صحابی پر حسنِ ظن رکھیں اور یہ گمان کریں کہ اُنھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا ہوگا۔
اگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے تو ہمیں پریشانی کی کیا ضرورت ہے، آپ تسلیم نہ کریں، لیکن رجوع کی بات مناسب نہیں لگتی، ہو سکتا ہے اُن کے پاس کوئی مضبوط علمی دلیل ہو جو ہم تک نہیں پہنچی۔۔۔
مسئلہِ رضاعتِ کبیر ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا نظریہ تھا کہ جوان مرد بھی کسی عورت کا محرم بن سکتا ہے رضاعت سے، لیکن کسی اور نے اُن کی ہرگز تائید نہیں کی، نا ہی اُن کے اِس نظریے کو شنیع کہا، ایسے ہی آیتِ رجم کے متعلق حضرت عمر کا خیال تھا کہ یہ قرآن مجید میں موجود تھی، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا جوازِ نکاحِ متعہ کا نظریہ تھا، لیکن صحیح سند سے اُن کا رجوع ثابت نہیں ہے، امام بخاری کے اُستاد امام ابن جُریج کا بھی رجوع ثابت نہیں ہے۔
اختلافی امور میں آپ کو حق ہے کہ کسی قول کو رد کریں، کسی کو اپنائیں لیکن یہ رد کرنا اور اپنا خالص دلائل کی بنا پر ہوتو یہ عمل مستحسن ہے۔
صاحبانِ علم کی روش کو سمجھنے کی کوشش کیا کریں، اُن سے دلیل طلب کیجیے، آپ کو اُن کے ذوق، اُسلوب اور منھج کا ایک حد تک اندازا ہو جائے گا۔
فتویٰ دینے میں بھی ساٹھ سے ستر فیصد تک مفتی کے ذاتی رجحان اور وژن کا دخل ہوا کرتا ہے، عام طور پر مخصوص مکتب کے ترجمان محقق حضرات نے خاص قسم کا چشمہ پہن رکھا ہوتا ہے، جس کی بدولت اُنھیں مدمقابل ہی سراسر غلط نظر آتا ہے۔
اہلِ حدیث حضرات کی کتاب “حقیقت الفقہ” کا مطالعہ کیجیے، یہ کتاب احناف کے رد میں لکھی گئی ہے، مصنف نے ایسے مسائل میں بھی احناف پر بے جا اعتراضاتا کیے ہیں، جو اُن کے اپنے مسلک میں بھی موجود ہیں، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدیبن کے اسلام لانے کا مسئلہ ہے، بظاہر صاحبِ کتاب یہ تاثر دیتے ہیں کہ احناف اُنھیں مسلمان نہیں جانتے، تو کیا صحیح بخاری و صحیح مسلم سے اُن کا ایمان ثابت ہوتا ہے!
اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے، جیسی دلیل یہ لاتے ہیں، مد مقابل لائے تو اِنھیں قبول نہیں ہوتی، ایسی بے شمار مثالیں ذہن میں محفوظ ہیں لیکن۔