اسلامی تھیوکریسی یا مذہبی ریاست بارے قائداعظم کے خیالات – عمارخان ناصر

Post Banners

پاکستان بن جانے کے بعد اور گیارہ اگست کی تقریر کے بھی بعد فروری ۱۹۴۸ میں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں قائد اعظم نے پاکستانی ریاست کا خد و خال پر روشن ڈالی، اس سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بانی پاکستان اپنا کوئی نظریہ اسمبلی پر مسلط نہیں کر رہے تھے، وہاں گیارہ اگست کی تقریر کی بھی خود ان کی اپنی زبان سے بڑی واضح تشریح سامنے آ جاتی ہے، انھوں نے فرمایا،

’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہوگی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔’’ (یہ اقتباس ڈاکٹر صفدر محمود نے ایس ایم برک کی کتاب کے صفحہ ۱۲۵ کے حوالے سے نقل کیا ہے)

اقتباس سے واضح ہے کہ جناح صاحب کے ذہن میں کسی لا مذہبی یا سیکولر ریاست کا تصور نہیں، البتہ وہ ’’مذہبی ریاست’’ کے اس تصور کو قطعاً‌ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں شہریت دراصل کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہوتی ہے، جبکہ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا اور مساوی سیاسی حقوق کا حق دار نہیں سمجھا جاتا

Comments

comments