مولودِ کعبہ کی بحث، تاریخی حوادث اور فقہی روایات میں فرق – امجد عباس
امام علی علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے کچھ صاحبانِ علم نے اِس بحث کو اٹھایا ہے کہ آپؑ خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوئے۔
ہمارے ایک عزیز نے دلیل یوں دی کہ آپؑ کے کعبہ میں پیدا ہونے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
دوسرے فاضل محقق نے مختلف قیاسات سے اِس واقعہ کی تردید فرمائی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ کعبہ میں پیدا ہونا، مقصود بالذات شرف نہیں ہے، حضرت علی علیہ السلام کے بے تحاشا صحیح فضائل ہیں جو اُن کی بعد از رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سبھی صحابہ کرام پر علمی و روحانی افضلیت و برتری کو ثابت کرتے ہیں۔
سرِ دست چند معروضات اِس حوالے سے پیشِ خدمت ہیں:
– جہاں تک امام علی علیہ السلام کی کعبہ میں پیدائش کا مسئلہ ہے تو یہ امر خالص تاریخی ہے، تاریخی حوادث کی صحت کتبِ تاریخ طے کرتی ہیں، حضرت علی علیہ السلام کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا تاریخی لحاظ سے مشہور و متواتر ہے، امام حاکم نے اِس حوالے سے تاریخی روایت کے تواتر کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ حافظ ذہبی نے اُن کے اِس دعویٰ کو اپنی تلخیص میں ذکر کیا ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی “ازالۃ الخفاء” میں اِسے متواتر تاریخی واقعہ قرار دیتے ہیں، جبکہ یہ صراحت بھی کرتے ہیں کہ نا کوئی آپؑ سے پہلے خانہ کعبہ میں پیدا ہوا، نا ہی بعد میں، یہ آپؑ کی امتیازی فضیلت ہے۔ دوسری صدی ہجری کے محب اہلِ بیت شاعر سید حِمیَرِی نے اِسی واقعہ کو اپنے قصیدے میں باندھا ہے، سو یہ واقعہ اکیلے امام حاکم نے پہلی بار ذکر نہیں کیا، بلکہ مورخین میں یہ واقعہ شہرت رکھتا ہے۔
– تاریخی حوادث اور فقہی روایات کا معیار الگ الگ ہے، تاریخی قضایا کا فیصلہ کتبِ تاریخ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، اُس میں راوی کی وہ شرائط نہیں ہیں جو فقہی روایات کو قبول کرنے کے لیے ہیں، مثال کے طور پر معروف یونانی مورخ ہیروڈوٹس مسلمان نہیں، لیکن اُس کی تاریخ مقبول ہے، جبکہ فقہی روایات میں “غیر مسلم” کی روایت قبول نہیں۔
تاریخی واقعات کی صحت کا معیار، فقہی روایات کی صحت کے معیار سے یکسر الگ ہے، یہی اہم بات ہے جسے ہمارے فاضل احباب نے ملحوظ نہیں رکھا۔
– تاریخی حوادث احادیث میں اِس طرح مذکور نہیں ہیں کہ جس واقعہ پر صحیح حدیث نہ ملے اُس کا انکار کر دیا جائے۔ اگر یہی معیار بنا لیا تو پوری تاریخ سے ہاتھ اٹھانا ہوں گے۔
– تاریخی پیش آئے واقعات کو آپ اپنے قیاسات سے رد نہیں کر سکتے، یہ احرامِ مصر کو ہی لیجیے، آج سائنس یہ جاننے سے قاصر ہے کہ پتھر کی اتنی بڑی سِلیں مزدوروں نے اتنی اونچائی پر کیسے پہنچائیں، اگر یہ احرام آج موجود نہ ہوتا تو کتنے صاحبانِ علم اِس کے ہونے کی نفی کر چکے ہوتے۔
– انسان کا چاند پر جانا ایک مسلمہ حقیقت ہے، جسے ہمارے کئی اصحابِ دانش محض عقلی قیاسات سے رد فرما چکے، سو عقلی قیاسات سے ماضی کے مُسلم تاریخی وقائع کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں عقلی طور پر کوئی معاملہ سرے سے ناممکن ہوتو اُس کی تردید کی جائے گی۔
آخر میں صرف ایک دو مثالیں عرض کروں گا:
– حضرت عبد القادر جیلانی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ حسنی سید ہیں، کیا اُن کے سید ہونے پر کوئی ایک صحیح السند روایت موجود ہے؟ اُن کا صحیح منقول شجرہ ہے تو پیش کیجیے، حضرت عبد القادر جیلانی کی “سیادت” ہی بسندِ صحیح ثابت کر دیجیے،یہ الگ بات ہے کہ ایسے معاملات میں عُرفی زبان زدِ عام باتوں کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے جب تک اُن کا قطعی رد موجود نہ ہو۔ سو بندہ گیلانیوں کی سیادت کا معتقد ہے، لیکن بسندِ صحیح یہ ثابت نہیں ہے۔
جو بندہ حضرت عبد القادر جیلانی کی کتاب “غنیۃ الطالبین” پڑھے وہ سمجھ جائے گا کہ حضرت انتہائی متشدد تکفیری طرز کے مُلا تھے، بشرطیکہ یہ کتاب اُن کی ہو۔
– صحابہ کرام کے متعلق جتنے واقعات ہیں، اُن کی اسناد کو ذرا احادیث والے ضابطہ پر پرکھیے پھر بتائیے گا کہ کتنے صحابہ کرام کا وجود بھی ثابت نہیں ہو سکتا، جب معیار یہی رکھا جائے کہ روایت صحیح السند ہوگی۔
– مزید بات واضح کردوں کہ آج کی صحافت کو ہی دیکھ لیجیے، یہ دنیا بھر کے حالات و واقعات بتاتی ہے، اب اِس میں بھی حدیث کے قبول کرنے والے ضوابط لاگو کریں تو بتائیے کوئی خبر قابلِ قبول قرار پا سکتی ہے؟ تاریخی واقعات کی صحت کا معیار الگ ہے، اربابِ فہم غور کریں۔
سو بندہ امام علی علیہ السلام کے کعبہ میں پیدا ہونے کو ایک تاریخی مشہور واقعہ کے طور پر تسلیم کرتا ہے، حضرت فاطمہ بنت اسد خانہِ خدا کو متبرک جان کے وہاں تشریف لائیں، یہ اُن کا ایمان تھا کہ وہ اِس گھر کی مہمان ہوئیں، یہ اچنبے کی بات نہیں ہے، حضرت عبد المطلب نے بھی ابرہہ کو کہا تھا کہ میرے اونٹ واپس کر دیجیے، یہ کعبہ خدا کا گھر ہے وہ خود اِس کی حفاظت کرلے گا۔