قائد اعظم کے کھوٹے سکے – وجاہت مسعود

wajahat

محترم بھائی عامر ہاشم خاکوانی نے دائیں بازو کے نوجوانوں کو ہم درد لہجے میں بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے، متعدد نکات تو ایسے صائب ہیں کہ بلا شبہ دائیں اور بائیں بازو کے امتیاز سے قطع نظر انہیں ہمارے اجتماعی مکالمے کے متفقہ اصول قرار دینا چاہیے۔ کچھ نکات پر اختلاف بھی ہے لیکن برادر عزیز نے صراحتاً اس گروہ کو مخاطب کیا جسے وہ بیک وقت دائیں بازو اور مذہب پسند کا نام دیتے ہیں لہٰذا اختلافی نکات پر بحث کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ایک جملہ البتہ محترم خاکوانی نے بہت دلچسپ لکھا ہے اور اس پر مزید بات کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ فرماتے ہیں کہ ” پاکستان میں اسلامی نظام، اسلامی معاشرے کا قیام، نظریہ پاکستان ، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد سے جڑا ہوا ہے“ ۔

محترم عامر صاحب کو اپنی رائے پر اختیار ہے لیکن تحریک پاکستان تو ایک سیاسی تحریک تھی جس میں بہت سے ایسے افراد شامل تھے جنہوں نے بعد ازاں اس تحریک کے مفروضہ مقاصد سے اختلاف کیا جیسے جی ایم سید، میاں افتخار الدین۔ کچھ افراد تحریک پاکستان کے مخالف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد ان مقاصد کے علم بردار بن گئے جو مبینہ طور پر نظریہ پاکستان کہلائے۔ اور بہت سے ایسے سیاسی رہنما بھی تھے جو تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کا حصہ تھے لیکن ان کے سیاسی کردار پر بہت سے سوالات موجود ہیں۔ عزیز محترم نے تو ابھی صرف قائد اعظم، نوابزادہ لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو تقدیس کی عبا اوڑھائی ہے۔ امکان ہے کہ اس مقدس فہرست میں ابھی بہت اضافہ ہو گا ۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخ کے کچھ زاویے بیان کر دینا مناسب ہو گا قبل اس کے تاریخ کی غلام گردش میں ممنوعہ گوشے اس قدر پھیل جائیں کہ قدم اٹھانے کی گنجایش ختم ہو جاے،۔

مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کے ایک سے زیادہ ارشادات تاریخ کا حصہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد ایک موقع پر کہا کہ ”پاکستان میں نے اپنے ٹائپ رائٹر کی مدد سے بنایا ہے“۔ ان سے ایک اور جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو ’کھوٹے سکوں ‘سے تشبیہ دی تھی۔ دراصل آزادی کے بعد خط تقسیم کے دونوں طرف آزادی کی جدوجہد میں کردار ادا کرنے کے دعویداروں کی کھیپ پیدا ہوئی۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد گاندھی جی کے نو دریافت شدہ ساتھیوں کے بارے میں جوش ملیح آبادی کا یہ مصرع زبان زد عام ہے۔

کھدر پہن پہن کے بداطوار آ گئے

شاعری کی بات چھڑی تو پاکستان میں بھی قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کوئی پینتیس برس تک آزادی کی جدوجہد میں اپنے کارنامے بزبان خودگنواتے رہے لیکن اپنا ایک شعر انہو ںنے پاکستان بننے کے بعد کبھی نہیں دہرایا جو ان دنوں کی نشانی ہے جب وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران دلی میں سانگ پبلسٹی کے ڈائریکٹر تھے۔

جب تک چوروں ، راہزنوں کا ڈر دنیا پہ غالب ہے

پہلے مجھ سے بات کرے جو آزادی کا طالب ہے

گزشتہ صدی کے بے مثل براڈ کاسٹر اخلاق احمد دہلوی کی روایت کے مطابق 15اگست 1947 ءکو دلی ریڈیو اسٹیشن سے جشن آزادی کا جو مشاعرہ نشر ہوا تھااس میں سردار پٹیل نے صرف حفیظ جالندھری کے کلام معجز نما کو پسند فرمایا تھا جب کہ جوش اور جگر مراد آبادی کے کلام پر چراغ پا ہو کر ریڈیو کے ڈائریکٹر کی جواب طلبی کر لی تھی۔ حفیظ کا یہ انداز تو خیر ان کی افتاد طبع کا حصہ تھا لیکن یہ یاد رکھنا بھی دیانت داری کا تقاضا ہے کہ فسادات کے دوران حفیظ جالندھری نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لاہور کے ماڈل ٹاﺅن میں کئی غیر مسلم گھرانوں کی حفاظت کی تھی۔

لیاقت علی خان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے اور قائداعظم کے دست راست کہلاتے تھے۔ 1937ءکے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے اہم عہدیدار تھے۔ تاہم مسلم لیگی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعد خود ایگری کلچرل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا۔ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ سے اجازت لیے بغیر بھولا بھائی ڈیسائی سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں لیاقت ڈیسائی فارمولا سامنے آیا۔ اس پر قائد اعظم سخت ناراض ہوئے۔ کے ایچ خورشید اپنی کتاب ’جناح کی یادیں‘ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیسیٰ نے یہ کہ کر جناح صاحب کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی کہ لیاقت علی ’اپنی ذاتی حیثیت میں‘ ڈیسائی سے ملے تھے۔ اس پر جناح صاحب نے ناراض ہو کر کہا ”ذاتی حیثیت؟ اس ملک میں سینکڑوں نواب اور نواب زادے پھرتے ہیں جنہیں کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ لیاقت علی نے اگر کسی سے بات کی ہے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے کی ہے….“

سکندر حیات پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کے وزیراعظم تھے۔ تقریباً ہر اہم مسئلے پر قائداعظم سے ان کا اختلاف تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ کھلے بندوں مسلم لیگ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے اور جلسوں میں مطالبہ پاکستان کی تضحیک کرتے تھے۔ لائل پور کے ایک جلسے میں فرمایا کہ ’میں پہلے پنجابی ہوں پھر مسلمان۔ میں مسلم لیگ کے احکامات کو حجت نہیں سمجھتا‘۔ سکندر جناح پیکٹ کے بعد سکندر حیات نے چن چن کر پنجاب مسلم لیگ میں علامہ اقبال کے ساتھیوں مثلاً ملک برکت علی، غلام رسول ، پیر تاج الدین اور عاشق حسین بٹالوی کو پس منظر میں دھکیل دیا۔

قرارداد پاکستان پیش کرنے والے رہنما فضل الحق بنگال میں مسلم لیگ وزارت کے وزیراعظم تھے۔ قائداعظم نے انہیں وائسرائے کی وار کونسل میں شمولیت سے منع کیا تو انہوں نے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی ہی سے استعفیٰ دے دیا۔ آسام میں سرسعد اللہ مسلم لیگی وزیراعلیٰ تھے۔ مسلم لیگ کے واضح احکامات کے باوجود وائسرائے کی وار کونسل میں شامل ہوئے۔

بیگم شاہنواز بھی ان مسلم لیگی رہنماﺅں میں شامل تھیں جنہوں نے قائد اعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے وار کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ قائداعظم نے ان سے باز پرس کی تو انہوں نے کھلے عام کہا کہ ”میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کونسل میں شریک ہوئی ہوں نیز یہ کہ قائداعظم نے عورتوں کے حقوق کے لیے کیا کیا ہے اور وہ کس منہ سے انہیں وار کونسل میں شرکت سے روک سکتے ہیں“۔ بعد ازاں بیگم جہاں آرا شاہنواز نے کبھی یہ انکشاف کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ وائسرائے کی وار کونسل نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے۔

1937ءکے انتخابات میں پورے پنجاب میں مسلم لیگ کے دو ارکان کامیاب ہوئے تھے یعنی ملک برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان۔ راجہ غضنفر علی نے انتخابات میں کامیابی کے چند گھنٹے بعد یونینسٹ پارٹی میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”انتخابات سے پہلے ہی ان کا یونینسٹ پارٹی سے معاہدہ تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جائیں گے“۔ اس کے صلے میں انہیں پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیا گیا جس کی تنخواہ پانچ سو روپے ماہوار تھی۔

 اسی طرح پاکستان کے سابق صدر فاروق لغاری کے والد نواب سر جمال خاں لغاری نے مسلم لیگ سے عہد شکنی کرتے ہوئے خضر حیات کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تو قائد اعظم نے اسے کردار کی کمزوری قرار دیا تھا۔ (بحوالہ کے ایچ خورشید)

بنگال میں مسلم لیگ منظم کرنے کا سہرا سہروردی کے سر باندھا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان نے فروری 1948 ءمیں ان کی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے ان پر غداری کا الزام لگایا تھا۔ لیاقت علی خان کے الفاظ تھے ”وہ (سہروردی) بھارت کا چھوڑا ہوا ایک کتا ہے“۔ خضر حیات مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کے پنجاب میں وزیراعظم رہے۔ انہی کی حکومت ختم کرنے کے لیے دسمبر 1946 ءمیں مسلم لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ افتخار حسین ممدوٹ اپنے والد کے انتقال پر پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ تقریر و تحریر میں پھسڈی اور فیصلہ سازی میں منفعل ہونے کی بنا پر ان کا لقب ’گونگا پہلوان‘ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ان میں اور ممتاز دولتانہ میں چل گئی۔ قائد اعظم نے ہر دو حضرات کو کراچی بلا کر بنفس نفیس ان میں مفاہمت کرائی مگر لاہور پہنچتے ہی دونوں میں پھر جھگڑا شروع ہو گیا۔ برسبیل تذکرہ، ممتاز دولتانہ لیاقت علی کی شہ پر قائد اعظم کی مخالفت کرتے تھے۔

چوہدری خلیق الزمان یو پی مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ قائداعظم اور پاکستان کے بارے میں ان کے افکار

Pathway to Pakistan

میں درج ہیں۔ شوکت حیات کو ’شوکت اسلام ‘کا خطاب دیا جاتا تھا۔ انہیں غیر پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرنے پر وائسرائے کے ایما سے پنجاب کی صوبائی کابینہ سے سبک دوش کیا گیا تھا۔ سر ظفراللہ خان کے مداح بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ برطانوی حکومت سے قریبی ربط ضبط رکھتے تھے۔ دراصل انہیں مسلم لیگ میں برطانوی راج کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ءمیں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو ظفراللہ خان غلام محمد کے دھڑے میں تھے۔

راجہ صاحب محمود آباد مسلم لیگی قیادت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں ان کی کچھ خیالات مختار مسعود کی کتاب ’آواز دوست‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ”مسلم لیگ نے پاکستان نہیں بنایا ۔ مسلم لیگ کہاں اتنی منظم تھی کہ اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکتی۔ اس ملک کی تعمیر کے عوامل کچھ اور ہی تھے۔ ہندوﺅں کا زور اور ظلم، دفاتر کے مسلم عملے کی طلبِ جاہ و مرتبہ اور مسلم تاجر کی حرص و ہوا۔“ © ©

راجہ صاحب محمود آباد نے خود اپنے ایک مضمون بعنوان ’کچھ یادیں‘ میں لکھا :

”میری طرف سے اسلامی ریاست کی حمایت پر جناح صاحب کے ساتھ میرے اختلافات پیدا ہو گئے۔جناح صاحب میرے خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے منع کر دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو سکتا تھا کہ جناح صاحب میرے نقطہ ¿ نظر سے اتفاق کرتے ہیں اور میں ان کے ایما ہی پر عوامی اجتماعات میں ایسی آراپیش کرتا ہوں۔ مجھے ایک طرف اپنی رائے کی اصابت پر پورا یقین تھا دوسری طرف میں جناح صاحب کو بھی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے ان سے فاصلہ پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اگلے دو برس کے دوران ہماری ملاقاتیں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس یا رسمی ملاقاتوں تک محدود رہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ ماضی میں ہمارے نہایت قریبی تعلقات رہے تھے۔ اب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں کس قدر غلطی پر تھا۔“ (راجہ صاحب محمود آباد کا یہ مضمون مشیر الحسن کی مرتب کردہ کتاب

India’s Partition-Process, Strategy and Mobilisation

میں شامل ہے۔ )

شیعہ عقائد کے حامل راجہ صاحب محمود آباد کے اسلامی ریاست کے بارے میں آخر ایسے کیا خیالات تھے جن پر قائد اعظم محمدعلی جناح اس قدر برافروختہ ہوئے۔ راجہ صاحب محمود آباد نے 1939ءمیں ممتاز مورخ محب الحسن کے نام ایک مکتوب میں ان خیالات پر کچھ روشنی ڈالی تھی۔

”جب ہم اسلام میں جمہوریت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب طرز حکومت میں جمہوریت نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے سماجی اور ثقافتی پہلوﺅں میں جمہوریت مراد ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں ہمہ گیر اور یک جماعتی (Totalitarian) ریاست کا تصور پایا جاتا ہے۔ ہمیں قران کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ہم قرانی قوانین کی آمریت چاہتے ہیں۔ اور ہم یہ مقصد حاصل کر کے رہیں گے نیز یہ کہ ہم اس منزل تک عدم تشدد اور گاندھی کے طریقہ کار کی مدد سے نہیں پہنچیں گے“۔

 صوبہ سرحد (سابقہ) میں مسلم لیگ کے مرد آہن عبدالقیوم خان نے 1946ءکے انتخابات سے دو ہفتے قبل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

جہاں تک انگریز حکمرانوں سے درپردہ ساز باز کا تعلق ہے تو اس الزام سے کانگرس اور مسلم لیگ کے بیشتر رہنما بری الذمہ قرار نہیں پاتے البتہ مسلم لیگ چونکہ غیرملکی حکمرانوں سے آزادی کی بجائے کانگرس کی مخالفت کو اپنا بنیادی وظیفہ قرار دیتی تھی نیز مسلم لیگ کی قیادت کا بیشتر حصہ عوام دشمن طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکار کے حمایت یافتہ افراد کا ٹولہ تھا لہٰذا مسلم لیگ پر یہ الزام عاید کرنا زیادہ آسان تھا۔ اس میں سرحد کے خوانین، پنجاب کے چوہدریوں ، سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں اور وسطی ہندوستان کے جاگیرداروں اور نوابین کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ان اصحاب کی سیاست کا مزاج سمجھنے میں پنجاب کے صرف ایک سیاستدان امیر محمد خان کالاباغ کی شہادت کافی ہو گی۔ امیر محمد کالاباغ کو بھی پاکستان بنانے میں قربانیوں کا دعویٰ تھا۔ واضح رہے کہ امیر محمد خان پشتینی نواب نہیں تھے۔ ان کے والد دریائے سندھ کے گھاٹ پر کشتیاں چلانے کا ٹھیکہ لیتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں فوجی بھرتی میں مدد دینے پر انہیں خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔

الطاف گوہر اپنی کتاب ’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘ میں امیر محمد خان سے روایت کرتے ہیں ، ”ہم لوگ چندہ تو مسلم لیگ کو ادا کرتے تھے مگر ہماری اصل سیاست اپنے کمشنر کی سیاست تھی۔ ایمرسن صاحب (انگریز کو وہ ہمیشہ ’صاحب‘ ہی کہتے تھے) جو کہہ دیتے ہم وہی کرتے تھے۔ لاہور کے ڈپٹی کمشنر کا گھر گورنمنٹ ہاﺅس کے قریب ہی ہوتا تھا۔ یکم جنوری کی صبح ہم لوگ وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ بڑے بڑے طرے لگا کر، نیلے گنبد والے کپور تھلہ ہاﺅس کی بنی ہوئی نئی شیروانیاں پہنتے، ہر ایک زمیندار، جس میں ٹوانے، نون، دولتانے اور ممدوٹ سب شامل ہوتے، اپنے ساتھ نذر کی ڈالیاں لاتے۔ ہم سب خاموشی سے شامیانے کے نیچے کھڑے ہو جاتے۔ بات تو کیا، کھسر پھسر بھی نہیں کرتے تھے۔ سب اس انتظار میں کہ ابھی ڈپٹی کمشنر بہادر نمودار ہوں گے تو باجماعت کورنش بجا لایں گے۔ صاحب بہادرنشہ میں مدہوش پڑے ہوتے۔ نئے سال کی آمد کی خوشی میں انھوں نے جام پر جام لنڈھائے ہوتے۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب ایک باوردی چوبدار چک اٹھا کر باہر آتا اور اعلان کرتا ”صاحب بولا، سلام ہو گیا“۔ اب ہم بڑے جوش و خروش سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے اور مبارک سلامت کا غلغلہ مچ جاتا۔ کمشنر بہادر تک ہم زمینداروں کی رسائی مشکل سے ہوتی تھی۔ 1946ءکے آخر میں ہمارے علاقہ کے کمشنر نے ہمیں بلایا اور یہ خبر سنائی کہ انگریز نے ہندوستان چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بس اُس کے بعد ہم لو گ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور پھر ہم نے پاکستان کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا…. اور ہر طرح کی قربانی دی“۔

قیام پاکستان کے بعد امیر محمد خان کالاباغ نے بحیثیت گورنر مغربی پاکستان ایک جلسہ ¿ عام میں فرمایا، ”پاکستان دو وکیلوں نے بنایا، ایک خوجہ (جناح) اور ایک کشمیری (اقبال)۔ دونوں کے پاس دو ایکڑ زمین نہیں تھی، انہیں کیا معلوم تھا کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے؟

Source:

http://www.humsub.com.pk/12715/wajahat-masood-66/

Comments

comments