سائبر کرائم بل اور شادی بیاہ کی تقریبات کا ترمیمی بل – عمار کاظمی

cyber-crime

قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کے تدارک یا سائبر کرائم بل 2016 کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر آئی ٹی محترمہ انوشہ نیازی صاحبہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میڈم جو آپ نے بل پیش کرنے سے پہلے مہینوں مغزماری کی تھی وہ مغز ماری تھی یا مغز نہاری؟ بل کی مزکورہ شرائط دیکھ کر عقل کا استعمال تو کہیں نظر نہیں آیا البتہ ان گدھوں کی مغز نہاری کا شبہ ضرور ہوا جن کا گوشت چند ماہ پہلے لاہور میں پکڑا گیا تھا۔

آپ کا کہنا ہے کہ اس سے انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق شخصی آزادیوں کا دفاع ہو گا مگر ہماری رائے میں پاکستان بد ترین سولین مارشل لا کی طرف بڑھ رہا ہے اور میڈیا سمیت حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بھی شریک جرم ہیں کہ جن کی قیادتوں کی طرف سے اس عوامی مسلے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کسی کو کچھ خبر ہے، نہ پرواہ ہے کہ “الیکٹرانک جرائم کے تدارک کے بل 2016” کی منظوری کی شخصی آزادی، آزادی اظہار رائے اور صحافت پر کیا اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔ کیا اس بل کا کوئی حمایتی، پڑھا لکھا صحافی یا قانون دان بتا سکتا ہے کہ “سائبر” کی جگہ “الیکٹرانک” کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ تاہم ان سے کچھ بعید نہیں کہ یہ “الیکٹرانک” کو اردو لفظ قرار دے دیں۔ کالم کے دامن میں شاید اتنی گنجائش نہ ہو کہ تمام نقاط پر بات کر سکوں لہذا چند نقاط اور ان پر تجزیہ اور تحفظات پیش خدمت ہیں۔

  “بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ، دہشتگردی، نفرت انگیز تقریر کی معاونت پر 5 سال قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ ہوگا”۔ یعنی اگر کوئی حکومت وقت یا اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کے خلاف دل کی بھڑاس نکالے اور اس کی وڈیو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر دی جائے تو وہ قابل سزا جرم ہوگا۔ واضع رہے کہ یہاں کسی مولوی یا مذہبی انتہا پسندی کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ ہمارا مسلہ دہشت گردی اور اس سے جڑی ملائیت ہے، نہ کہ وہ نوجوان نسل جو 69 سال سے محض ریاست کے بڑوں کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے تکلیف میں ہے۔

  “کسی شخص کی عزت و وقار کے خلاف جرائم پر تین سال قید ہوگی”۔ کسی شخص کو چھوڑیے “وقار” سے عقل والوں کو سمجھ لیجیے کہ یہ کس کے وقار کے تحفظ کی بات ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں دھرنے والوں میں سے ایک مولوی نے “وقار” کو داتا صاحب میں خطاب کے دوران ننگی گالیاں دی تھیں جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی تھی۔ تو جان رکھیے کہ یہ کس کی خواہش پوری کی جا رہی ہے۔

  “بغیر اجازت اعدادوشمار نقل کرنے پر چھ ماہ قیدیا ایک لاکھ روپے جرمانہ ، معلوماتی نظام یا ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی پر تین ماہ قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگا”۔ یہ شرط سب سے اہم ہے کہ اس کے بعد انویسٹی گیٹو رپورٹنگ اور معیاری اور غیر جانبدار تجزیہ نگاری کیسے ممکن ہوگی؟ یعنی انویسٹی گیٹو رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری پھر صرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت کی مرضی سے ہی ہوگی۔ ٹاوٹوں والی خبروں اور چڑیوں طوطوں والے تجزیوں کے بعد آزاد اور غیر جانبدار صحافت کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جائے گی؟ اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔

“بل میں واضح کیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں یا سروسز کی سرگرمیوں پر بل کا اطلاق نہیں ہوگا”۔ جی انھیں پورا اختیار ہوگا کہ لوگوں کی نجی زندگیوں میں روایتی طور پر جتنا چاہے دخل دیں، ٹیلیفون ریکارڈ کریں یا وڈیو بنائیں، انھیں کھلی چھوٹ ہوگی۔ جج طاقتور تھے انھوں نے اس مرض سے اپنی جان چھڑوا لی اور عام آدمی کی تو اس ریاست میں عزت پہلے بھی محفوظ نہ تھی، مگر حزب اختلاف کے عقل کے اندھے کالیو، تم بتاو تمہھارا کیا ہوگا؟

  فوٹو شاپ یعنی ایڈیٹنگ کے ذریعے کسی بندے کی تصویر کسی دوسرے کے دھڑ پر لگانا یا واضع طور پر عریاں تصویر یا تصویر کو خراب یا مسخ کرنا اور اسی نوعیت کی وڈیو پوسٹ کرنے پر 1 کروڑ روپے جرمانہ اور ایک سال قید ہوگی”۔ گو اس سزا کا اطلاق 14 سال سے کم عمر بچوں پر نہیں ہوگا لیکن کیا 15-16 سال کے بچے کے لیے یہ سزا مناسب ہے؟ بیس سے چوبیس سال تک کے بچے بچیاں آئی پیڈ، آئی فون دیگر اینڈرائڈ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں اور ان میں اس طرح کے ایپس ہوتے ہیں۔ یعنی بچے بچیاں ملکی حالات سے تنگ کوئی مزاق کریں گے تو وہ قابل گرفت جرم ہوگا۔

  “جو کوئی بھی کسی کو انٹرنیٹ کے ذریعے حراساں کرے گا، اسے 1 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا”۔ ممکنہ طور پر خطرناک جرم میں صرف ایک سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ؟ اسی سے اندازہ ہوتا کہ کتنی مغز ماری کی گئی ہے اس قانون سازی کے لیے۔

  “حکومت کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ عظمت اسلام کے خلاف یا پاکستان کی سکیورٹی کے خلاف معلومات انٹرنیٹ سے ریموو کر سکے گی”۔ یہ شرط بجائے خود اسلام کو کمزور بیان کر کے توہین اسلام کی مرتکب ہو رہی ہے۔ باقی اگر حکومت اور اراکین اسمبلی مریخ پر نہیں رہتے تو انھیں یاد ہونا چاہیے کہ چند ماہ پہلے ہی سعودی عرب میں علامہ “مودودی” کی کتب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یعنی اسی ہزار لاشیں اٹھانے کے بعد بھی ہماری فہم کا رول ماڈل محض آل سعود ہیں۔ جن کے پاس جواب یا دلیل نہیں ہوتی وہی ایسی معلومات سے بھاگ سکتے ہیں۔ باقی سکیورٹی کے خلاف معلومات ہمیں تو آج تک کسی پاکستانی سے سننے کو نہیں ملیں، جب بھی ایسی کوئی خبر بریک ہوتی ہے تو وہ بین الاقوامی میڈیا ہی بریک کرتا ہے۔ تو صاحب انٹرنیٹ پر ہی پابندی لگا دیجیے بلکہ ڈش ٹی وی پر بھی پابندی لگا دیجیے۔

 “حکومت وقت تحقیق و تفتیش کے لیے تحقیقاتی ایجنسی کا قیام عمل میں لا سکے گی”۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اور کتنی ایجنسیاں بنانی ہیں آپ کو؟ پہلے والوں نے کتنی حلال کی کر کے کھا لی؟ یہ بیسیوں ایجنسیاں جو پہلے سے موجود ہیں یہ کس مرض کی دوا ہیں؟ “خبر کے مطابق حکومتی و اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی میں “الیکٹرانک جرائم تدارک بل” کی منظوری پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا لوگوں کی عزت و آبرو کے تحفظ، آئی ٹی کی صنعت کے مفادات کے لئے بل از حد ضروری ہے، بل کی منظوری سے بے حیائی کو روکنے میں مدد ملے گی”۔ یعنی شرم محسوس کرنے کی بجائے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اس شرمناک قانون سازی پر خوشی منائی۔

دوسری طرف شادی بیاہ کی تقریبات کا ترمیمی بل پنجاب اسمبلی نے منظور کر لیا ہے، جس کے مطابق “گھر کے اندر بھی مہمانوں کو ایک سے زائد ڈش کھلانے کی اجازت ختم کر دی گئی ہے۔ شادی پر اونچی آواز میں گانے بجانے پر بھی پابندی ہوگی۔ گھر میں بھی شادی کی تقریبات رات دس بجے ختم ہو جائیں گی۔ شادی کی تقریبات کے موقع پر جہیز دکھانے پر بھی پابندی ہوگی۔ بل کی خلاف ورزی پر ایک سال قید، پچاس ہزار سے بیس لاکھ جرمانہ ہوگا”۔ اسلام کا نقاب پہن کر قانون سازی کرنے والوں سے عورت کے وراثت میں شرعی حق پر تو آج تک عمل کروایا نہیں گیا مگر جہیز دکھانے پر پابندی عائد کر دی۔ کیا بری دکھانے پر بھی کوئی پابندی لگائی گئی؟ باقی میاں صاحب امرا کو اس سے فرق نہیں پڑتا، مگر غریب کی خوشی منانے کی آزادی آپ کی ان پالیسیوں سے ضرور متاثر ہوگی۔ یہ محض کمزور فہم و دانش کا نتیجہ ہے کہ آپ پہلے سے گھٹن زدہ معاشرے میں ایسی پالیسیاں متعارف کروا رہے ہیں کہ جن سے معاشرتی گھٹن میں مزید اضافہ ہوگا۔

نون لیگ کی مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی قانون سازی میں بنیاد پرستی اور خاص طرح کی مزہبی فکر عیاں ہے۔ ممتاز قادری کی سزا پر عملدرامد ہوا تو لبرل اور بنیاد پرست دونوں حلقے یہ سمجھنے لگے کہ نواز حکومت اپنی روایتی سیاست سے نکل کر لبرل ازم اور روشن خیالی کی طرف بڑھنے لگی ہے۔ سزا پر عملدرامد کے سلسلے میں شک تو مجھے پہلے ہی تھا اور اس کا اظہار ایک تحریر میں بھی کیا تھا، تاہم کسی مفروضے کی بنیاد پر کوئی واضع اندازہ نہیں لگانا چاہتا تھا کہ پھر ہم پر تنقید برائے تنقید کا الزام لگ جاتا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کا سائبر کرائم بل اور پنجاب حکوت کا شادی بیاہ کا حالیہ قانون یہی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کا فیصلہ قانون کی حکمرانی یا روشن خیال لبرل پاکستان کی خواہش سے زیادہ، فرقہ واریت پر مبنی تھا۔ ن لیگ کو لبرل جماعت سمجھنا مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی نا سمجھی تھی۔

Comments

comments