مولانا مودودی اسلام کے نام پر ایک ہمہ گیر آمریت کے خواہشمند تھے – وجاہت مسعود

wajahat

برادرم آصف محمود نے ’’کیا اسلام ایک ضابطہ حیات ہے؟“ کے عنوان سے اپنے خیالات رقم فرمائے۔ شیخ سعدی کے لفظوں میں ” از دل خیزد و بر دل ریزد “ کا مضمون رہا۔ ممکن ہے کچھ پڑھنے والے چاہیں کہ نثر فارسی کے اس جیتے جیتے ٹکڑے کا ترجمہ ہو جائے۔ تو بھائی ایک مصرعہ تو اقبال سے لیتے ہیں، ’اٹھی تو دل اقبال سے ہے، کیا جانیے، کس کی ہے یہ صدا ‘ اور اقبال سے پہلے کسی نے کہہ رکھا تھا ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ سادہ بات یہ کہ خاکسار کو بھائی آصف محمود سے مکمل اتفاق تھا۔ البتہ خط تنصیف کی دوسری طرف بہت سی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ کڑکے ہیں بہت اہل حکم برسر دربار۔ علم کا دعوی ٰ رکھنے والے، بصیرت کے کلید بردار اور پارسائی کے ساونت پرے باندھے کھڑے ہیں۔ ایک ایک سوار دوڑ تا ہوا آتا ہے اور آصف محمود کے حرف محرمانہ کی میخ پر نیزہ بازی کی مشق کرتا ہے۔ اختلاف رائے اچھی بات ہے۔ معاشرہ اختلاف رائے ہی سے آگے بڑھتا ہے۔ تاہم اسے بدقسمتی کہنا چاہیے کہ ہماری معاشرے میں اختلاف رائے میں بھی قطبیعت کا رجحان بہت راسخ ہے۔ عام طور سے آصف محمود کے ان خیالات کے حامی سمجھے جانے والے خاموش ہیں کہ آصف محمود کسی دف کا پہلوان نہیں۔ اپنے ضمیر کا پابجولاں قیدی ہے۔ دوسری طرف وہ مہربان ہیں کہ جو اپنے ردعمل کا آغاز ہی اس جملے سے کرتے ہیں کہ ’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘۔ اور پھر وہی پامال ردیف کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ یہ خیالات ہمارے ملک میں اس قدر عام ہیں کہ انہیں قریب قریب متفق علیہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان نکات پر کچھ گزارشات پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنا مناسب ہو گا ۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قیام پاکستان کے بعد اپنی تحریروں میں یہ خیال پیش کرنا شروع کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ¿ حیات ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مولانا مذہب اور سیاست کی یکجائی کے قائل تھے۔ ان دونوں نکات کو ملا کر پڑھنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ مولانا اسلام کے نام پر ایک ہمہ گیر آمریت (Totalitarianism) کے موید تھے جس میں حکومت شہریوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے ہر پہلو کو منضبط کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔خیال رہے کہ مولانا سے قبل چودہ سو برس میں کسی مسلم مفکر نے اسلام کو ضابطہ¿ حیات قرار نہیں دیا۔ خود مولانا نے بھی یہ رائے قیام پاکستان کے بعد قائم کی۔ وجہ بہت سادہ ہے ۔ مذہب انسانوں کو اقداری رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ اسلام کی بنیادی اقدار انسانی مساوات، انصاف، تفکر اور انسان دوستی ہیں۔ مذہب معاشرتی اور سیاسی زندگی کے کسی ایسے متعین نمونے کو ترجیح نہیں دیتا جو کسی خاص زمانے اور علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفکر ، جستجو اور پیداواری سرگرمیوں کے نتیجے میں معاشرہ مسلسل ارتقا سے گزرتا رہتا ہے۔ مذہب کی رہنما اقدار کو معاشرتی ارتقا کی ہر منزل پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر حکومت شہریوں کی زندگی کے ہر پہلو کو منضبط کرنا چاہے تو نہ صرف یہ کہ معاشرہ ارتقا کی بجائے جمود کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ ایسا معاشرہ بالآخر مسابقت کی دوڑ میں پسماندہ اور غیر متعلق ہو جاتا ہے۔ اجتہاد اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے اور اجتہاد ایک جمہوری قدر ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں منتخب پارلیمان کو اجتہاد ہی کی ایک صورت قرار دیا ہے۔ ہمارے ملک میں اگر اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا جائے کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے تو اسے گویا مذہب سے انکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ رائے درست نہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے استوائی خطوں میں بھی مسلمان رہتے ہیں ۔ وسطی ایشیاکے سرد پہاڑی منطقوں کے علاوہ جنوبی مشرقی ایشیا کے گرم مرطوب میدانوں اور افریقہ کے صحراﺅں میں بھی مسلمان آباد ہیں۔ مسلمان ایسے ملکوں میں بھی آباد ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں اور ایسے ممالک میں بھی رہتے ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔ یہ تمام مسلمان اسلام کی رہنما اقدار کااتباع کر سکتے ہیں۔ لیکن مولانا کی موعودہ ہمہ گیر آمریت کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں۔

یہ نقطہ نظر ایک سیاسی بیان ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ مسلم اقلیت کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ تمام انسانی گروہوں کی طرح مسلمانوں میں بھی مختلف سیاسی اور معاشرتی مکاتب فکر موجود ہیں۔مسلمان مذہبی رہنماﺅں کی اکثریت مطالبہ پاکستان کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ ایک جدید سیاسی جماعت تھی جو دستوری طریقہ کار میں یقین رکھتی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ حق خود ارادیت کے جدید سیاسی اصول کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد مذہبی رہنماﺅں نے اس جدوجہد کو اپنے معنی پہنانا شروع کر دیے اور یہ خیال پیش کیا کہ پاکستان اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں ایسی مذہبی حکومت قائم کی جائے گی جس کی باگ ڈور ملاﺅں کے ہاتھ میں ہو گی۔ قائداعظم نے فروری 1948ءمیں ریڈیو پر امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں بیان کیا تھاکہ پاکستان میں تھیوکریسی نہیں چلے گی۔ خود لیاقت علی خان نے بھی قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے تھیوکریسی کے امکان کو رد کیا تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ءکی تقریر کا سیاسی بیانیہ اور تھا جب کہ قرارداد مقاصد ایک مختلف سیاسی بیانیے کی ترجمان تھی۔ گزشتہ سات دہائیوں میں اس ابہام نے اس قدر جڑ پکڑ لی ہے کہ سیاسی اور تمدنی قوتوں کے لیے اس خیال کی مخالفت کرنا آسان نہیں رہا۔ یہاں بھی طریقہ کار وہی ہے کہ جب اس خیال کو رد کیا جائے کہ پاکستان مذہبی پیشواﺅں کی حکومت کے لیے نہیں بلکہ یہاں کے باشندوں کے جمہوری حقوق کے لیے بنایا گیا تھا تو اسے گویا مذہب کی مخالفت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مذہب ایک سیاسی فریق نہیں ہوتا۔ مذہب کا منصب اپنے پیروکاروں کا اخلاقی ارتفاع ہے۔ سیاست کا مقصد شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ہر شہری اپنے سیاسی عمل میں اپنے مذہب سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے تاہم کسی کو دوسرے شہریوں پر اپنے عقائد مسلط کرنے کا حق نہیں۔

اسی طرح کا ابہام سیاسی نظریہ کے بارے میں بھی پایا جاتا ہے۔ سیاست میں آئیڈیالوجی کی اصطلاح انیسویں صدی کے علمی حلقوں میں سامنے آئی۔ اسے بیسویں صدی میں انقلاب روس کے بعد مقبولیت ملی۔ روس ، چین ، مشرقی یورپ ، مشرق بعید اور لاطینی امریکا میں کمیونسٹ پارٹیوں کی یک جماعتی آمریت پر آئیڈیالوجی کا پردہ ڈالا گیا۔ ہر سیاسی جماعت اپنا منفرد نظریہ اپنانے کا استحقاق رکھتی ہے۔ لیکن اگر ریاست نظریاتی ہونے کا دعویٰ پال لے تو گویا کسی ایک سیاسی مکتب فکر کو دیگر سیاسی نقطہ ہائے نظر پر مستقل بالادستی حاصل ہو جاتی ہے۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں یہ مشق ناکام ہوئی اور اسے ناکام ہی ہونا تھا۔ نظریاتی ریاست کا مطلب ایک سیاسی نقطہ نظر کو ایسی غیر منصفانہ ترجیح دینا ہے جس میں ریاست ترجیحی سیاسی نقطہ نظر کے ساتھ فریق بن جاتی ہے۔ اس سے معاشرے میں فکر ، سوچ اور پالیسی کا تنوع ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی اجتماع میں یہ ممکن نہیں کہ سیاسی اور تمدنی نقطہ نظر کی مکمل یک رنگی پیدا کی جا سکے۔ ایسی یک رنگی مصنوعی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی استحصال کی بدصورتیاں جنم لیتی ہیں۔ شہری بظاہر اپنے مفادات کے لیے ریاست کے نظریاتی بیانیے کی حمایت کرتے ہیں لیکن ایسا نظریاتی بیانیہ بذات خود کمزور ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد شہریوں کی رضاکارانہ وابستگی پر نہیں ہوتی۔ دوسری طرف جمہوریت ایک مشمولہ (Inclusive) طریقہ کار ہے جس میں مختلف سیاسی مکاتب فکر کے مابین پرامن مکالمہ ممکن ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ریاست اور ایک مخصوص سیاسی بیانیے کے اتحاد کی صورت جنرل ضیاالحق کے دور میں سامنے آئی۔ اگر چہ پاکستان میں دائیں بازو کے بہت سے دیانت دار مفکر اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ضیا آمریت کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا غلط تھا۔ تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں یہ صورتحال اب طالبان کے ظہور تک جا پہنچی ہے۔ طالبان کا مظہر پاکستان کی ریاست کے نظریاتی چولا پہننے کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ اگر طالبان جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کے نقطہ نظر سے یہ رویہ قابل فہم ہے۔ وہ ایک ایسا نظریاتی گر وہ ہیں جو مخالف نقطہ ہائے نظر کے ساتھ بقائے باہمی میں یقین نہیں رکھتا۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ نظریاتی ریاست جمہوری نہیں ہوتی چنانچہ انہوں نے جمہوریت کے مقابلے میں نظریاتی آمریت کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان میں دستوری طریقہ کار اور جمہوری نظام پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں نظریاتی ہمہ گیریت کے دعوے اب اس نہج پر جا پہنچے ہیں جہاں انہیں جمہوری پاکستان اور ملائیت کے استبداد میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

Source:

http://humsub.com.pk/11958/wajahat-masood-63/

Comments

comments