محترم حسین نواز شریف صاحب ۔ آپ کی سادگی کو سلام – عاصم الله بخش

1459829413_hussain_nawaz

معاملہ تو اسی دن کھٹکا تھا جب آپ جاوید چودھری صاحب کے پروگرام میں اپنے کاروباری معاملات کے حوالہ سے بظاہر “بلاوجہ” وضاحتیں پیش کر رہے تھے۔ تاہم اس وقت یہ گمان ہؤا کہ شاید یہ عمران خان صاحب کی اس مہم کا جواب ہے جو وہ وزیر اعظم صاحب اور ان کے خاندان کے اثاثہ جات کے حوالہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بادی النظر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تھا بلکہ اس contingency کی پیش بندی تھی جو پانامہ کی لاء فرم سے “لِیک” ہوئی ، یا کی گئی، معلومات سے پیدا ہوئی.

اِن دنوں پھر آپ مختلف ٹی وی چینلز پر بہار دکھا رہے ہیں اور اس پیشرفت پر اپنے دفاع میں نکات عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ آپ کو اس کا پورا قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔

تاہم گاہے یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ اس صورت حال کا پوری طرح سے ادراک نہیں کر پا رہے کہ دراصل ہؤا کیا ہے۔

1۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس وقت آپ “حلوائی – نوسرباز سنڈروم” کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سنڈروم کیا ہے۔ ایک شخص حلوائی کی دوکان پر گیا اور کہا یہ لڈو کیا بھاؤ ہیں ، 100 روپے پاؤ ہیں ،حلوائی نے جواب دیا۔ اچھا پیک کر دو۔ حلوائی نے پیک کر دیے۔ اس گاھک نے کہا اس کی جگہ رس گلے دے دو، حلوائی نے لڈو واپس سینی میں رکھ رسگلہ پیک کر دیا۔ اچھا، اسے بھی چھوڑو، گاھک نے کہا ،اس کی جگہ گلاب جامن دے دو، حلوائی نے بمشکل اپنے غصہ پر قابو پاتے ہوئے رس گلے بھی واپس رکھ لیے اور گلاب جامن پیک کر دیے۔ ان صاحب نے گلاب جامن کھائے اور چل دیے۔ باؤ جی ، پیسے ؟ حلوائی نے صدا لگائی۔ بھئی یہ تو میں نے رسگلہ کے بدلہ لیے تھے ، تو رسگلہ کے ہی پیسے دے دیں ۔ حلوائی سٹپٹا کر بولا ۔ آپ بھول رہے ہیں کہ وہ تو لڈو کے بدلہ میں لیے تھے ۔ گاہک مسکرا کر بولا۔ حلوائی اب آپے سے باہر ہونے لگا، ابے تو لڈو کے پیسے ہی یہاں رکھ، فوراً۔ لیکن لڈو تو میں نے واپس کر دیے تھے ۔۔ گاھک نے معصوم صورت بنا کر جواب دیا۔

پارک لین کے اپارٹمنٹس ضرور آف شور کمپنیوں کے ہوں گے اور وہ کمپنیاں آپ نے سعودی عرب کی سٹیل مل پیچ کر بنائی ہوں گی لیکن وہ سٹیل مل کہاں سے آئی ؟ جب آپ جدہ تشریف لے گئے تھے تو یہاں کی فیکٹریاں تو آپ کی بینکوں پاس گروی تھیں اور ان کے بقایا جات بہت بعد میں ادا کیے گئے۔

2۔ آف شور کمپنیاں اپنے اندر قانونی سقم نہیں رکھتیں ۔۔۔۔ آخرکار قانونی ماہرین ہی تو یہ سب معاملات چلا رہے ہوتے ہیں۔ البتہ ان میں اخلاقی سوالات سنگین نوعیت کے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس میں سورس آف انویسٹمنٹ کی پردہ پوشی ہوتی ہے یعنی، پیسہ کہاں سے آیا ؟ ۔ دوسرا یہ کہ اس راستہ کے انتخاب میں ٹیکس سے فرار کا جذبہ محرکہ کارفرما رہتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اخلاقی قبولیت سے عاری ہیں۔

3۔ آپ خود تو ٹیکس نہ دینے کے لیے ہر جتن کر رہے ہیں لیکن آپ کے بزرگ بشمول محترم اسحق ڈار اس قوم کی پیٹھ پر ہر روز نئے ٹیکس لاد رہے ہیں اور درس دے رہے ہیں کہ ٹیکس ملک سے خیرخواہی کا نام ہے۔ چلیں اپنا ملک تو وہ نگر ہے جو سو مرتبہ لوٹا گیا، آپ تو اس ملک سے بھی پر خلوص نہیں نظر آتے جو آپ کی “جائے پناہ” اور “پکا ڈیرہ” ہے۔

4۔ فرمایا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے نام کوئی کمپنی نہیں ۔ کیاآپ نے ان کا کوئی وظیفہ مقرر کیا ہؤا ہے جس سے انکی گزر اوقات ہوتی ہے ؟ کیونکہ جو ان کا معیار زندگی ہے وہ سرکار کی دی گئی تنخواہ سے تو پورا نہیں ہو سکتا۔ آگر آپ وظیفہ بھی نہیں دے رہے تو پھر یہ سب کیسے پورا ہوتا ہے ۔ یہ تو اور خطرناک بات ہو گئی کیونکہ پاکستان میں بھی انکا کوئی کاروبار نہیں۔ اگر آپ کی آمدن ان کے استعمال میں ہے تو بینیفشری  تو وہ بھی ہیں اس سب سلسلہ کے۔

ویسے بعض لوگ تو کہتے ہیں اس مسئلہ کا سیدھا نہ ہونا اسی سے ثابت ہے کہ اس میں ان دونوں کا نام نہیں۔ ورنہ جو ڈینگی مچھر سے لے کر ترقیاتی کاموں اور پہلے سے تعمیر شدہ پارکوں ، سکولوں اور اسپتالوں پر بھی اپنا نام لکھواتے ہوں یہاں کیسے چوک جائیں گے ؟ بہر حال ، چھوڑیں اس بات کو، لوگوں کا کیا ہے ۔۔۔ کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔

جناب والا، آپ کی آسانی کے لیے چانکیہ مہاراج پہلے ہی کہہ گئے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کے ہاں مالی کرپشن ایک عموم ہے کیونکہ ان کے گردا گرد پیسے کی بے پناہ ریل پیل ہوتی ہے۔ مچھلی تالاب میں رہے اور خشک رہے ؟ آپ بھی ادھر ادھر کے دلائل دینے کے بجائے سیدھا سیدھا کہہ دیجیے کہ ہم بھی ایک طویل عرصہ تالاب میں رہنے کی وجہ سے کچھ بھیگ بھاگ گئے ہیں اور قوم اس کے لیے کچھ گنجائش پیدا کرے۔

بس اتنا کرنا ہے کہ ایسا کہتے وقت آنکھیں ڈبڈبائی اور لہجہ گلوگیر ہو۔ اتنی سی بات اور کہانی ختم۔

اپنی قوم پر بھروسہ رکھیں ۔ یہ بہت اچھے دل کے لوگ ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ اتوار کو ہونے والے کرکٹ میچ فائنل میں سارا وقت ویسٹ انڈیز کے ساتھ رہے کہ یہ بیچارے کالے ہیں اور انہیں گوروں پر فتحیاب ہونا چاہیے۔ دعائیں کرتے رہے۔ جب ویسٹ انڈین بیٹسمین نے چار گیندوں پر چار چھکے لگا دیے تو بہت سے جو میچ کے آغاز سے ہی ویسٹ انڈیز کے ساتھ تھے دل گرفتہ نظر آئے کہ انگلینڈ کے ساتھ “زیادتی” ہوگئی

سمجھ تو آپ گئے ہوں گے ۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.