لبرل کیمپ کی کمرشل سوسائٹی کی پوجا پر ایک سماج واد تنقید کا خاکہ – عامر حسینی
کیا سرمایہ دار طبقہ مغربی سرمایہ دار انقلاب کا ہراول دستہ تھا ؟
کیا کارل مارکس اور اینگلس کا مغربی سرمایہ داری انقلاب بارے خیالات لبرل بورژوازی دانشوروں کے سے تھے ؟
ایک صاحب ہیں جو بقول ان کے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن بھی رہے اور آج بھی مادیت پرست ہیں کہتے ہیں کہ لبرل ازم ہی اصل روشن خیالی ہے ، یہی فراخ دلی کا دوسرا نام ہے اور رواداری کا تیسرا نام ہے – یہ کہتے ہیں بڑی تحقیر سے کہ ان کو کوئی شوق نہیں ہے کارل مارکس اور اینگلس کے حوالے دیکر دوسروں کو مرعوب کرتے پھریں حالانکہ شوق سے زیادہ بات ڈنڈی مارنے کی ہے تاکہ لبرل کیمپ کو فاتح قرار دیا جاسکے
ان کی مادیت پرست سماج واد فہم کی داد دینی پڑتی ہے کہ یہ ” ترقی پسند دانشوروں ” کو “ترقی پسند طبقہ ” قرار دیتے ہيںیہ سماجی تبدیلی کے علمبردار بھی ہیں اور روشن خیالی کی بار بار بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کی شعور کی رو بار بار پلٹ کر سماج واد دانشوروں پہ حملہ آور ہوتی ہے کیونکہ وہ ” بورژوازی / سرمایہ داری ” پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ بات ماننے سے انکاری ہیں کہ بورژوازی دانشور / سرمایہ داری کے حامی دانشور بورژوازی / سرمایہ دار طبقے کو سماجی انقلاب کا ہراول دستہ بتلاتے ہیں وہ غلط ہیں
اور یہ بھی ماننے سے بالواسطہ انکاری ہوتے ہیں کہ سماج واد فلسفے کے بانی کارل مارکس اور اینگلس کی سرمایہ دار سماجی انقلاب بارے یہ ” لبرل پوزیشن ” نہیں تھی ” مغرب کی کمرشل سوسائٹی ” کو بار بار ایک مثالی سوسائٹی بناکر پیش کرنے والے ہمارے لبرل کارل مارکس اور اينگلس کے زکر پر اس لئے تاؤ کھاتے ہیں کہ یہ ان کے جھوٹ کا پول کھولنے والا سب سے طاقتور استدلال رکھتے ہیں جبکہ رجعت پرست ، تاریک خیال دایاں بازو کے لوگوں کو کمیونسٹوں پہ اس لئے غصّہ آتا ہے کہ یہ کمرشل سوسائٹی میں نفسا نفسی ، اتھل پتھل ، اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے اور کسی رجعتی راسخ العقیدہ انتہا پسند ماڈل کی طرف جانے کی بات نہیں کرتے بلکہ کمرشل سوسائٹی سے آگے جانے کا راستہ تلاش کرتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ کارل مارکس اور اینگلس نے روشن خیال دانشوروں کی تفہیم اور سماجی تاریخی مادیت پرستی کے درمیان تعلق پر چار سال انتہائی غور وفکر کیا تھا اور انہوں نے روشن خیالی و سرمایہ داری کے درمیان تعلق کو تلاش بھی کیا تھا ، یہ تعلق وہ تھا جسے کارل مارکس اور اینگلس کے ہم عصر لبرل بورژوازی دانشور ایک عرصہ پہلے بھلا چکے تھے – بالکل ٹھیک بات ہے کہ کارل مارکس نے روشن خیال مفکرین کے افکار اور تاریخی مادیت پرستی کے درمیان جو رشتہ تھا اسے بحال کیا –
لیکن کیا کارل مارکس اور اینگلس کا بس یہی کارنامہ تھا ؟یا انہوں نے اس سے زیادہ کچھ کیا تھا – لبرل کیمپ کے وہ جغادری جو بار بار اپنے آپ کو مارکسی کہتے ہیں یا مادیت پرست کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کے نزدیک کارل مارکس اور اینگلس کا اس حوالے سے موقف اور پوزیشن وہی تھا جو لبرل کیمپ کا ہے – یہ لبرل پوزیشن یہ ہے کہ کارل مارکس نے سرمایہ داری انقلاب کے متعلق دو روشن خیال مکاتب فکر کی فکر کو یک جا کردیا –
ایک سکاٹش روشن خیال مکتبہ فکر تھا جس کا ” ترقی کا ماڈل ” بقول لبرل کیمپ کے کارل مارکس نے استعمال کیا کہ کیسے سرمایہ داری پہلے سے موجود تھی جو غالب آگئی اور یہ تجارت یا کامرس کی گروتھ تھی جس نے ایک کمرشل سوسائٹی کو جنم دیا –جبکہ دوسرا کارل مارکس نے فرانسیسی روشن خیال مکتبہ فکر کا طبقاتی بنیادوں پہ سرمایہ دارانہ انقلاب کی کرداری خصوصیات کے تجزیے کے ماڈل کو دریافت کیا جس میں سرمایہ داروں کو ترقی پسندی ، روشن خیالی کا ہراول دستہ بناکر پیش کیا گیا ہے – لیکن کارل مارکس کے باب میں یہ کہنا غلط ہے – کارل مارکس نے سیاسی معشیت پر جو انتقاد شروع کیا تھا اس نے کارل مارکس کو سرمایہ داری کی اصل یا سرچشمہ بارے متبادل ماڈل پیش کرنے کی طرف موڑا –
کارل مارکس نے پہلی بات تو یہ ہے کہ سرمایہ داری کے پہلے سے موجود ہونے کا انکار کیا اور اس نے اس تاریخی پروسس کی نشاندہی کی جس نے ملکیتی رشتوں کو جاگیرداری سماجی رشتوں سے سرمایہ داری رشتوں میں بدلتے دیکھا لیکن اس پروسس میں پہلے سے موجود حکمران طبقے کی جگہ کسی دوسرے حکمران طبقے نے نہیں لی بلکہ جاگیردار حکمران طبقہ ہی سرمایہ دار طبقہ بن گیا اور اس طبقے نے استحصال کا طریق دوسرا اختیار کیا جس میں محکوم اور پسے ہوئے طبقات کا استحصال پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگیا تھا – کارل مارکس اور انگلس نے ورثے میں ملی بورژوا روشن خیال نظریہ کو مسترد کیا جس میں سرمایہ دار انقلاب کا ہر اول دستہ دکھائے گئے ،
انھوں نے روشن خیال دانشوروں جیسے فرگوسن اور ایڈم سمتھ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ایک کمرشل سوسائٹی کی بنیاد محنت کی گہری تقسیم پر ہوتی ہے اور اس تقسیم کے گہرے ہونے سے جو سماجی اثرات ہوتے ہيں اس سے سماج غیر انسانی پن اور گرواٹ اخلاق کا شکار ہوتا ہے اور فرگوسن و سمتھ جیسے روشن خیال دانشور اسے جاگیرداری اور مطلق العنانیت کے خاتمے کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہیں لیکن کارل مارکس و اینگلس نے اس طرح کے تجزیہ کے ساتھ کسی مسئلے کا زکر نہيں کیا – لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا کہ سرمایہ داری طریق پیداوار ان سماجی اثرات کی پیدائش کرتا ہے اور اگر اس طریق پیداوار کو اٹھاکر پھینکا جائے تو یہ سماجی اثرات خودبخود ختم ہوجائیں گے –
تو کارل مارکس و اینگلس نے ایک تو سرمایہ داری نظام کے اندر بدترین استحصال کی غیر مثالی اشکال کو تلاش کیا اور اس کے ساتھ ہی اس بات پہ غور و فکر کیا کہ ” کمرشل سوسائٹی ” کی جگہ دوسری طرح کا سماج تشکیل پاسکتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جسے کارل مارکس اور اینگلس کے سرمایہ داری کے مظہر اور اس کی بنیاد پہ مغربی سرمایہ داری معاشرے پر کی گئی تحقیق میں ڈنڈی ماری جاتی ہے لبرل پوزیشن اختیار کی جاتی ہے اور سرمایہ داری پہ سوال اٹھائے جانے کا راستہ بلاک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
نوٹ : اگلے حصّے میں ہم اس پر سلسلہ کلام کو آگے بڑھائیں گے –ہمارا یہ سلسلہ مضامین
Neil Davidson
کی کتاب
How revolutionary were the Bourgeois Revolutions
سروایہ داری انقلابات کتنے انقلابی تھے میں کی پیش کی جانے والی تحقیقات سے ماخوذ ہیں