شہر مدینہ سے آل رسول کی محبت – از عامر حسینی
یہ مدینہ اور مکہ کی بھی اپنی تاریخ ہے یہاں پہ جب سیاسی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تو یہ درست ہے کہ جناب علی المرتضی کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ ان کے مقدمے کی بنیاد “نسل پرستانہ یا قبیل پرستی ” پہ نہ تھی، آپ کا مقدمہ تو جناب آپ کے چچا عباس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور ان کے کلمات جو تاریخ کی کتب میں موجود ہیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ بھی اسے ایک قبیل داری ایشو خیال کررہے تھے اور دوسری جانب بنو امیہ کے سردار ابو سفیان تھے ان کے ہاں بھی یہی خیال ذرا زیادہ شدت سے کارفرما تھا
اے علی! کیا آب بنو تمیم کے بکریاں چلانے والے ہم پہ حکمرانی کریں گے یہ ایک فقرہ اور اس پہ جناب علی المرتضی کا جواب یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس وقت مدینہ میں کسی بھی فرد کو جناب علی المرتضی کے مقدمے کی سمجھ ہی نہیں آئی تھی – اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک اور قرینہ بہت معاون ہے
جناب فاطمہ زھرا اپنے بچوں کے ساتھ اہل مدینہ کے پاس جاتی ہیں اور جناب علی المرتضی کی ولایت کا مقدمہ پیش کرتی ہیں یہ مقدمہ اس وقت بھی اہل مدینہ کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اس زمانے میں درجن بھر سے زیادہ لوگ اس مقدمے کا ادراک کرنے والے نہیں تھے اور بعض تو یہ تعداد چھے بتلاتے ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو وحدت بنی نوع انسانی کا تصور اور اخوت کی بنیاد توحید کو بنایا گیا اس کے آڑے قبیل داری سسٹم سختی سے آڑے آرہا تھا
لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہی بنو امیہ کا اقتدار پہ غلبہ ہونے تک اور مروان سمیت اموی گورنروں کے حالات کار کی وجہ سے مدینہ و مکہ میں صورت حال بدل گئی تھی اور علوی کیمپ میں لوگ زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے رہے اور اہل مدینہ تو دور علوی میں جناب علی کے ساتھ رہے اور اہل مدینہ کی علوی کیمپ میں شمولیت کی سزا شام کے حاکموں نے لشکر کشی کرکے دی احوال ابن کثیر سمیت دیگر قدیم مورخین کی کتب میں پڑھا جاسکتا ہے. مدینہ کی ہزاروں عورتوں کی عزت لوٹ لی گئی تھی اور کئی ہزار مرد جلائے گئے قصور علی سے وابستگی اور اموی ملوکیت کے خلاف بغاوت تھی
جناب علی کو مدینہ کی یاد ستاتی تھی یہاں تک جب کربلاء جیسا حادثہ پیش آیا تو پسماندگان اہل بیت مدینہ ہی لوٹے تھے جناب سجاد یہاں آنے کے بعد کہیں نہیں گئے اور مکہ کے بارے میں جناب محمد مصطفی کی محبت کا ذکر تاریخ میں موجود ہے، یہ عراق بھی اپنی ستم ظریفیوں میں پیچھے نہیں رہا کوفہ میں جناب علی المرتضی پہ حملہ کرنے والا عراقی تھا، مسلم بن عقیل اور ان کے بیٹوں کی شہادت کرنے اور مخبری کرنے والے بھی عراقی تھے تو لوگوں کے کردار مختلف تھے جناب علی کے باب میں تو ہمیں ایسے ہی مختلف کردار ملتے ہیں مالک اشتر عراقی تھے، سلیم ھلالی عراقی تھے، انصار اور مہاجروں میں بھی علوی کیمپ کے لوگ تھے
نہج البلاغہ کی شرح میں ابی الحدید نے ایک واقعہ درج کیا کہ جناب حضرت عبداللہ بن عباس کوفہ میں آپ کے گھر سخت سردی میں گئے تو آپ ایک پتلا سا کرتا پہنے سردی سے کانپ رہے تھے تو جناب حبرالامہ نے ان کو اون کا کرتا خریدنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کرتا میں مدینہ سے لایا تھا اور مدینہ سے یہ تعلق مجھے بیت عزیز ہے
اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ جناب علی کو مدینہ سے کیسی محبت تھی اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ وہاں جناب رسول کی قبر تھی، دوسرا آپ کی بیوی رفیق جناب فاطمہ وہاں دفن تھیں اور کئی یادیں اس شہر سے علی کی وابستہ تھیں.! مدینہ اور مکہ سمیت پورا حجاز مقبوضہ ہے تو قابضوں سے نفرت کا جواز بنتا ہے مقبوضہ ہوجانے والی سرزمین نہیں