سن لیجئے اظہارِ محبت جرم نہیں – خرم زکی
یہ کیا بھئی؟ تو کیا اب اس مملکتِ خداداد میں محبت پر پابندی لگے گی اور اظہارِ محبت جرم قرار پائے گا؟ جی ہاں اس سے قبل کہ میں اس محبت کے اظہارِ دن کی مناسبت سے اظہارِ خیال فرماتا، اسلام آباد انتظامیہ نے ایک عجیب و غریب حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے پر پابندی عائد کردی۔ گویا محبتوں کا دن نہ ہوا، بسنت ہوگیا کہ خبردار جی اب کوئی گڈی نہیں اڑے گی محبت کی۔
کیا آپ نے انسانی جذبات پر قابو پانے کا ہنر بھی پالیا؟ جو یومِ محبت منانے پر پابندی لگادی ہے۔ کچھ تو دانائی ہونی چاہئیے انتظامی سطح سے بیانات داغنے میں، چلیں اگر پابندی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اِس ناچیز کو آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے یہ بتایا جائے کہ کیا کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ پابندی کی حدود پار نہ ہوں۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے(فیض احمد فیض)
اب ذرا وہ تمام لوگ جو اظہارِ محبت کا دن منانے کے مخالف ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا وہ انسان نہیں یا محبت سے خالی ہیں؟ بھائی جب پورا سال محبت کے دعویدار بنتے پھرتے ہیں تو ایک دن اظہار کرنے میں کیا قباحت ہے؟ محبت کرنا جرم ہے یا اظہار کرنا؟ ابھی میری اس جرات پر مغرب زدہ ہونے کے فتویٰ صادر کئے جائیں گے تو ذرا مشرقی اقدار کے پروردہ حضرات یہ تو بتلا دیجیئے کہ ہیر ماہیوال، سسی پنوں اور شیریں فرہاد کے قصے بھی کیا انگریز یہاں چھوڑ گئے؟ کیوں محبت کی یاد گاریں تعمیر کی گئیں ہیں؟ وہ بھی آپ کے معاشرے کی ہی لازوال داستانیں ہیں۔
اگر اعتراض ہے تو تاریخ سے ان کے قصے نکال دیجئے، یا اگر اس سے بھی دل نہ بھرے تو اردو ادب کا ایک بڑا حصہ شعراء اور نثر نگاروں نے محبت کی داستانوں کے ضمن میں تحریر کیا ہے، اپنے الفاظ، اپنے کلام میں محبت کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، ان سب پر بھی قدغن لگا دیجئے۔
پھر جائیے غالب اور میر کی غزلوں کو اسکولوں، کالجوں کے نصاب سے نکلوا دیجئے کیونکہ اُن میں بھی محبت کا اظہار ہے، کہاں تک مخالفت کریں گے آپ اور کہاں تک فتویٰ صادر فرمائیں گے؟ یہ پوری کائنات ہی داستانِ عشق اور اس کا اظہار ہے، کوئی مہکتے پھولوں کا تحفہ دے کر محبت کا اظہار کرے یا تاج محل تعمیر کرکے، چمن میں پھیلی ہوئی ہے داستاں اس کی۔ اب جو محبت کی مخالفت کرے یقیناً وہ انسان کے زمرے میں تو رکھے جانے کے لائق نہیں، کیونکہ محبت سے خالی افراد ہی گولیاں، بارودر برساتے ہیں، گلے کاٹتے ہیں۔
محبت ایک آفاقی جذبہ ہے، غور کیجئے پوری کائنات میں محبت کا ہی اظہار ہی تو ہے۔ بارش مسکرا کر برسی تو محبت سے گل نکھر گئے، زمین نے اپنے سینے میں پرورش کی تو خراجِ محبت سے فصلیں لہلانے لگی اور جی کرے تو سورۃ یوسف دیکھیئے ’’احسن القصص‘‘، زلیخا کی محبت کو اللہ نے کتابِ ہدایت کا جُزو بنادیا۔
محبت اور اس کے اظہار کا کینوس بہت وسیع ہے۔ محبت کی مخالفت کا تصور بھی قابلِ قبول نہیں، بالفرض آپ نے ایک روز کی پابندی لگا کر بھی اپنی دانست میں بے حیائی روکنے کی کوشش کی تو پورا سال اور سال کے ہر لمحے پھلنے پھولنے والی محبتوں کو کیسے روکیں گے؟ ہاں رہی بات بے حیائی کے فروغ کی تو یہ محبت کرنے والوں کی اپنی صوبداید ہے کہ وہ اپنے محبت کو دوام کیسے بخشتے ہیں۔ پاکیزہ اور قانونی طریقہ اپناتے ہیں یا دروغ گوئی اور جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوکر محبت کے نام پر دھوکہ دہی اور جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں۔
بھائی میرا تو خیال ہے کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے میں کوئی حرج نہیں اور میرا مشورہ مانیں تو اس دن اپنے محبوب کو باقاعدہ طور پر اپنی زندگی میں شامل کرتے ہوئے کھل کر محبتوں کا دن منائیے۔
Source:
http://www.express.pk/story/449445/