آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کی عظیم الشان سنّی کانفرنس کا دلّی میں انعقاد : ہزاروں علماء نے وہابی دہشت گردی کے خلاف فتوی دے دیا – رپورٹ صدائے اہلسنت

12744502_10207226888485051_4927765186294013040_n

 

آٹھ فروری 2016ء کو دلّی کے تلک کٹورہ گراؤنڈ میں صوفی سنّی ہزاروں علماء پہلی مرتبہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے وہاں پر جمع عوام سے صلاح و مشورہ کیا اور پھر ایک ” فتوی عام ” بمطابق قرآن و سنت جاری کیا – آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام نے آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ یہ تاریخ پیش کی

نئی دلّی ہندوستان کا تلک کٹورہ گراؤنڈ ہندوستان بھر سے آنے والے صوفی سنّی مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا جوکہ آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کی جانب سے ایک روزہ پروگرام میں شرکت کے لئے جمع ہوئے تھے – صوفی رجحان رکھنے والے سنّی یہ بات سمجھانا چاہتے تھے کہ اسلام امن کا مذہب ہے جوکہ لوگوں کو باہم امن کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے اور کیسے دھشت گرد اسلام کے منافی بے دردی اور خون آشامی کے ساتھ قتل و غارت کرنے میں مصروف ہیں – کانفرنس سے خطاب کرنے والوں نے لوگوں پر قرآن و سنت سے واضح کیا قران، سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام قتل و غارت گری اور دھشت گردی کو سخت ناپسند رکھتے ہیں – لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ ” وہابی فرقہ چند لوگوں کے مخصوص مفادات ، مسلم معاشروں کے بدعنوان عناصر کے لئے ہندوستان میں تشکیل دیا گیا ہے اور جتنی بھی دھشت گردی ہے وہ وہابی ازم سے منسلک ہے

آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے ترجمان شجاعت علی قادری نے عوام کو بتایا کہ ان کی تںطیم سے تقریبا دس لاکھ ممبران رکھتی ہے جو کہ روایتی زرایع سے ہی معلومات تک رسائی رکھتی ہے – اور اس کے ممبران مسلسل تنظیم سے طالبان ، القائدہ اور داعش جیسی تنظیموں اور ان کی آئیڈیالوجی بارے سوال کرتے رہتے ہیں – آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام سے لوگ مسلسل اصرار کررہے ہیں وہ وہابی پروپیگنڈے کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ ان کے بچوں کو ریڈیکلائز ہونے سے روکا جاسکے –بہت سے بحث و مباحثے کے بعد ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کا منصوبہ بنا جس میں لوگوں کو ان کی مذہبی امن وآہنگی کی صوفیانہ جڑوں بارے بتایا جائے – مزید یہ کہ اب یہ بات بہت واضح ہوگئی کہ صوفی کمیونٹی کے لئے وہابی کمیونٹی کے اندر موجود انتہا پسند عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے – اور ایک مرتبہ جب اے آئی ٹی یو آئی نے

ایسی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو پورے ہندوستان بھر کے علماء و مشائخ نے اس خیال کا بھرپور ساتھ دیا اور کانفرنس کی حمایت کردی

عظیم الشان سنّی کانفرنس کی جھلکیاں

عوام کے ساتھ اوپن مکالمہ اور علماء کا فتوی

مشائخ عظام کا دھشت گردی کے خلاف کھل کر اظہار خیال

وقف بورڑ اور حج کمیٹی سے وہابی انتہاپسندوں کا اخراج

اسکول اور یونورسٹیوں میں نصاب سے انتہا پسند مواد نکالا جائے

ہندوستانی حکومت کو میمورنڈم

ایک تفصیلی میمورنڈم عظیم الشان سنّی کانفرنس کے بعد بھیجا گیا ہے اور اس میں آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام نے کہا کہ وہ ہندوستان کے سنّی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جس مین علماء کرام ، درگاہوں ، خانقاہوں کے متولی ، صوفی سنّی مساجد کے آئمہ شامل ہیں – مسلم کمیونٹی ایک اندرونی بھونچال سے گزر رہی ہے اور اس بھونچال کا سبب وہابی ازم اور عالمی دہشت گردی ہے – میمورنڈم نے دھشت گردی سے نمٹنے کے لئے تین نکاتی پروگرام پیش کیا

مسلم وقف بورڈ پر جو وہابی غلبہ ہے اسے ختم کیا جائے

حج کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے

مدارس کے نصاب میں جو انتہا پسند مواد ہے اسے نکالا جائے

کانفرنس میں کہا گیا کہ مرکزی اور ہندوستانی ریاستوں کی حکومتیں اقلیتوں کے مسائل پر وہابی ایجنڈے پر ناچتی ہیں – ایسی اندھی اپروج انتہا پسند ایجنڈے کو تقویت دیتی ہیں جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر وزرات کے افسران وہابی ایجنڈے کے زیر اثر آجاتے ہیں اور جانے انجانے میں وقف بورڈ اور دوسرے اداروں پر وہابی غلبے اور قبضے کا سبب بنے ہوئے ہیں اور دھشت گردی پھیلانے میں مصروف ہیں میمورنڈم نے تجویز

کیا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو متعلقہ وزراتوں سے وہابی اثر و رسوخ ہٹانے کی ضرورت ہے اور انتظامی اور وقف بورڈ عہدوں پر صوفی مسلمانوں کی تعنیاتی کی ہونی چاہئیے

تنظیم کے ترجمان شجاعت علی قادری نے کانفرنس میں موجود علماء کو بتایا کہ کانفرنس ایک تفصیلی میمورنڈم لکھے کي جس میں اس بات پر زو ہوگا کہ وہابی ازم دھشت گردی کا زمہ دار ہے اور مسلمان تو خود اس دھشت گردی کا شکار ہیں اور وہابی ازم اسلام کے اندر ایک اجنبی تصور ہے – اور اس میمورنڈم میں ان تمام قرادادوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو اس کانفرنس میں علماء نے پاس کی ہیں جبکہ علماء کا ایک وفد وزیراعظم کے آفس اور وزرات داخلہ تک بھی جائے گا اور یہ میمورنڈم وہاں پیش کیا جائے گا

آٹھ فروری 2016ء کے تلک کٹورہ گراؤنڈ م نئی دلّی میں انٹرنیشنل سنّی کانفرنس میں شریک ہونے والے ملک بھر کے نمائندہ سنّی اجلاس میں علماء نے مشاورت کی اور پھر وہابی ازم کے خلاف ایک فتوی دیا اور اس فتوی کو حکومت کو جمع کرانے کا اعلان بھی کیا گیا – آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے بانی صدر مولانا اشفاق قادری نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزرات برائے اقلیت اور مرکزی وقف کونسل مسلم وقف پراپرٹی کی انتظامیہ اور نیشنل وقف ڈویلپمنٹ کارپوریشن پر وہابی کی زمہ دار ہيں اور یہ ادارے دھشت گردی کو فروغ دینے کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور وہابی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں – وہابیوں نے صوفی سنّیوں کی مساجد پر وزرات اقلیت کی مدد سے قبضہ کرلیا ہے اور یہ ادارے سعودی ایجنڈے پر کام کررہے ہيں جوکہ وہابی ازم اور دھشت گردی ہے – یہ بہت سنجیدہ ایشو ہے اور اسے وقف سے جڑے تمام اداروں کی تشکیل نو اور وہابی نمائندوں کی جگہ صوفی نمائندوں کی تعنیاتی کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا –ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی سرکاری مشینری کا وہابیوں کی جانب سے غلط استعمال ان کو رنجیدہ کرتا ہے اور یہ انتہائی دکھ کی بات ہے – مولانا شفاق قادری نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی حکومت کو اس بات کی اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے روس ، مصر اور چیچنیا نے دھشت گردی سے نمٹنےکے لئے دور رس پالیسی بنائی اور وہاں پر وہابیہ کے آئمہ شیخ ابن تیمیہ ، ان کے شاگردوں ، محمد بن عبدالوہاب ، سید قطب اور دیگر کی کتب اور افکار پر پابندی عائد کردی گئی ، ان کا کہنا تھا کہ مسلم امور کو حل کرنے کے لئے ہندوستان کو مصر کے ماڈل پر کام کرنا چائیے

انٹرنیشنل سنّی کانفرنس میں سنّی علماء کے خطابات کے اقتباس

ماہررہ شریف انڈیا کے سجادہ نشین پروفیسر محمد امین میاں نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا

پرامن صوفی عوام میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لئے عالمی دھشت گردی کی زمہ دار آئیڈیالوجیز کو سمجھنا چاہتے ہیں

رضا اکادمی کے صدر محمد سعید نوری نے کہا : انتہا پسندی عالمی دھشت گردی کی زمہ دار ہے اور وہابی ازم اس انتہا پسندی کو پیدا کرنے کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے – ہندوستانی حکومت کو وہابی ازم پر پابندی لگادینی چاہئیے اور دھشت گردی کی روک تھام کے لئے اسے ہندوستانی آئیں کی روح کے منافی فکر قرار دینے کی ضرورت ہے

خواجہ غریب نواز اجمیر شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین مہدی میاں نے کہا : ملک میں صوفی لٹریچر کے پھیلاؤ کے لئے پالیسیاں بنائی جانے کی ضرورت ہے –ان کا کہنا تھا کہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو صوفیاء کرام اور ان کی فکر جو کہ امن و شانتی کو پھیلانے والی ہے بارے تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور اس سے مسلم نوجوان انسپائر ہوکر امن کے سفیر بنیں گے جو ان کو انتہا پسندی سے دور رکھنے میں مدد دے گی

فتحپوری مسجد کے امام محمد مکرم نے کہا : ہمین قوم کی تعمیر کے لئے متحد ہونے کی صرورت ہے – اگر ہم دھشت گردی کے خلاف سارے معاشرے کو لڑانا چاہتے ہیں تو ہمیں اکٹھے ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے

درگاہ بلگرام شریف کے سجادہ نشین سہیل میاں نے نے کہا : ہم اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں کیا درس دیتا ہے ، دھشت گردوں نے انسانی حدود کو پامال کیا اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندہ ہونے کے قابل نہیں ہیں

درگاہ مخدوم اشرف سمنانی و کچھوچہ شریف کے سجادہ نشین معین اشرف زیلانی نے کہا : ہندوستان صوفیاء کی سرزمین ہے اور ہندوستانی قوم صوفیوں کی شیدائی ہے – ہندوستانی نوجوانوں کو اپنے صوفی ورثہ کو یاد رکھنا چاہئیے اور صوفی پیغام سے وہابی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا چاہئیے جوکہ نوجوانوں کو انتہا پسند اور دھشت گرد بناتا ہے

مخدوم منیری درگاہ کے متولی و سجادہ نشین سیو الدین صاحب نے کہا : ہندوستانی غحکومت کو وقف بورڈ سے تمام وہابیوں کو ہٹانا چاہیے اور وہابی فکر پھیلانے کے لئے آنے والے پٹرو ڈالر کی آمد کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے

الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے مزار ، آستانہ رضویہ بریلوی کے سجادہ نشین منان رضا خان نے کہا : بریلی تصوف کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے – اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خاں بریلوی وہ عالم تھے جنھوں نے انگریز سامراج کے دور ہی میں وہابی خطرے کو پہچان لیا تھا اور وہابی ازم کے خلاف علمی جنگ شروع کردی تھی اور اس کا آغاز انہوں نے بریلی سے کیا تھا – ہمیں وہابیوں کا رد کرنے کے لئے اعلی حضرت کے پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے

سید فرقان علی چشتی گدی نشین اجمیر درگاہ نے کہا : خواجہ صاحب قلوب صوفیاء کی سلطنت کے بادشاہ تھے – تمام مذاہب کے لوگ ان کے مزار کی زیارت کرتے ہیں ، ہمیں ان کی حیات پاک اور فکر سے سیکھنے کی ضرورت ہے

جامعہ نوریہ بریلی کے پرنسپل محمد حنیف رضوی ، سمیر احمد رضوی بریلی شریف نے کہا : ہمیں عرب اقوام کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہے جنھوں نے برے جنونی لوگوں کو پالا اور وہابی ازم کو اپنے ہاں پھلنے پھولنے کی اجازت دی اور اسے رواداری سے تعبیر کیا آج وہ ممالک اور اقوام تباہ ہوچکی ہیں – وہابی ازم ایک ایسی انتہا پسند آئیڈیالوجی ہے جسے سیکولر ازم کے نام پر ہمارے نوجوانوں کے اندر پھیلنے کا حق نہین دیا جانا چاہئیے

غلام رسول بیلاوی ایم پی بہار کا کہنا تھا : صرف پٹرو ڈالر کی دھشت گردی اور وہابی ازم کے پھیلاؤ کا سبب نہیں ہے بلکہ ناخواندگی ، استحصال اور اچھے مواقع کی کمی بھی دھشت گردی کی زمہ دار ہیں ، دھشت گردی کی فکری جڑوں کے ساتھ اس کی سماجی جڑوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے

اکبر علی فاروقی رائے پور چھتیس گڑھ کا کہنا تھا : ہمیں نیشنل مدرسہ بورڈ کے قیام کی حمایت اور اس سے متعلقہ بل کی منظوری پر زور دینے کی صرورت ہے – مدارس کو جدیدیت سے روشناس کرائے بغیر ہم خوشحال قوم کی تشکیل نہیں کرسکتے

جامعہ مبارکپور کے نظام الدین رضوی کا کہنا تھا : ہم اپنے بچوں کو وہابی فکر سے اس وقت ہی بچا پائیں گے جب جب وہابیوں سے ہمارے مدارس ، خانقاہیں بچ پائیں گی – ہمیں وہابی شکنجوں سے آزاد ہونے کے لئے لڑائی کی صرورت ہے

دار العلوم رابعہ بصری نئی دہلی کے سربراہ شاہ محمد نے کہا : ہندوستانی صوفی مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہیں اور کم از کم پارلیمنٹ مین ان کے اسّی ممبران جانے چاہئیں اور ان کو اپنی آواز اٹھانی چاہیے

دوسرے ممالک سے سیکھنے کی تجويز

کانفرنس کے مقررین حکومت کو غیر ملکی اقوام کے دھشت گردی کے خلاف کئے گئے اقدامات اور اپنائے گئے ماڈل سے سیکھنے کی تجویز دی کئی ایک مقررین نے جامعہ ازھر مصر کے دھشت گردی کے خلاف کردار کی اسٹڈی اور اس کے مطابق مدرسہ اصلاحات پر زور دیا اور مفتی ازھر طیب صاحب کے فتوی کو پھیلانے کی تجویز بھی دی گئی جو انہوں نے وہابیت کے خلاف دیا ہے – مصری صدر جنرل فتح السیسی کا نام بھی کانفرنس میں کئی بار تعریفی انداز میں لیا گیا – ہندوستانی حکومت کو کہا گیا کہ وہ جنرل السیسی سے دھشت گردی سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر رہنمائی طلب کرے

Propaganda through mosques. Speakers also praised Validimor Pution ajd Russia especially how he established peace in Chechenya with the help of Ramzan Kadirov. Speakers also cited the names of Bashar Al Basad of Syria, Hassan Ruhani of Iran, President Nur Sultanbayev of Kazkhstan, Imameali Rehmoon of Tajikistan, Buzar Nishani or Albania for the methods used by them to counter extremism in their Country. Speakers mentioned Kazakhstan as an example.

کانفرنس میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کی جانب سے چیچن صدر رمضان قادریوف کے ساتھ ملکر وہابی دھشت گردی کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی بھی تعریف کی گئی – کانفرنس کے شرکاء نے ایرانی صدر حسن روحانی ، شام کے صدر بشار الاسد ، قازقستان کے صدر نور سلطان بایوف ، امام علی رحمانوف صدر تاجکستان ، بوزر نشانی صدر البانیہ کی بھی وہابی ازم کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی اور ہندوستانی حکومت کو ان سے سیکھنے کی نصحیت کی گئی

Comments

comments