داعش اور فاشزم ( آخری حصّہ ) – عامر حسینی

lead_large

غیاث نسائی
مقبول جمہوری تحریک کا کچلا جانا
رقہ وہ پہلا شہر تھا جو بشار حکومت کے قبضے سے مارچ 2013ء میں آزاد کرایا گیا تھا اور اس شہر کو ہم داعش کیسے پاپولر تحریک کے ساتھ سلوک کرتی ہے جیسے سوال کے جواب کے لئے ماڈل اسٹڈی کا مرکز بنا سکتے ہیں – رقہ کی ٹقافتی ، سیاسی اور پاپولر تحریکیں اس کی آزادی کے بعد سے اس وقت تک ترقی کرتی رہیں جب تک یہ داعش کے چنگل میں نہیں آیا
برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کا رپورٹر رچرڈ سپنسر 30 مارچ ،2013ء کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے رقہ شہر لبرل اپوزیشن گروپوں کے غلبے والا شہر ہے – یہ شمالی شام کا شہر ہے جہاں بہت سے فلسفیانہ اور سیاسی مباحثوں کے حلققے دیکھنے کو ملے ہیں ، اور ان گروپوں میں سے ایک ماحول کو بچانے کے لئے درخت اور پودے آگا رہا ہے اور یہ اس شہر کے مرکز میں بیت سبز قائم کررہا ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں کی شدت اور اس کے لئے روح کی بے قراری میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ، ایکٹوسٹوں نے یہاں کئی قسم کی کمپئن چلائی ہیں ( ہماری آزادی کا سانس لیتی ہیں ، ہمارا علم ، ہماری روٹی ) ، ایک نمائش دستکاری اور آرٹسٹک ورک بارے ہورہی ہے جو کہ شہداء کے خاندانوں کی مدد کے لئے ہے اور ہفتہ صفائی کی مہم بھی چل رہی ہے جس میں شہر کے مرکزی راستوں کو صاف کیا جارہا ہے اور اس کمپئن کا نعرہ ہے ” ہمارا رقّہ جنت ہے
جو صورت حال رقہ میں آزادی کے بعد دیکھنے میں آئی اس کا عکس ہمیں اکثر دوسرے شامی آزاد علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملا اور یہ صورت حال وہاں داعش کا قبضہ ہونے تک باقی رہی –مسلح گروپوں ، اسلامسٹ اور دوسرے دھڑوں نے بہرحال دھشت گردی پر مبنی اعمال کئے ، اس میں اندھادھند پکڑ دھکڑ اور مختصر سماعت کے بعد پھانسیاں بھی شامل تھیں لیکن داعش کا جبر ، بربریت ان سب سے بڑھ گئی اور جو آبادی اس کے زیر کنٹرول آئی وہاں پر اس نے ظلم و بربریت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا
اقوام متحدہ کے خودمختار انٹرنیشنل کمیشن برائے انکوائری شامی عرب جمہوریہ نے ” دھشت کی حکمرانی ” کے عنوان سے ایک رپورٹ شایع کی جس میں اس نے لکھا نومبر 14 ، 2014ء سے شام کے جو علاقے داعش کے کنٹرول میں ہیں وہاں داعش نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کئے ہیں اور ان علاقوں میں بے پناہ خوف کو پھیلایا ہے
اس کمیشن نے داعش کے رہنماؤں کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا – یہ رپورٹ 300 متاثرین اور موقعہ کے عینی شاہدوں کے بیانات پر مشتمل تھی اور یہ کہتی ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں پر اپنی اتھارٹی کو ظاہر کرنے کی بہت شوقین ہے اور یہ اپنی طاقت کا اظہار اپنے لئے ریکروٹمنٹ کی طرف کشش پیدا کرنے کے لئے کرتی ہے اور کسی بھی فرد یا گروپ کی طرف سے اس کی آئیدیالوجی کو چیلنج کرنے پر سخت خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس نے نسلی یا مذھبی شناختوں کی بنیاد پر امتیازی ٹیکسز بھی لآکو کئے ہين اور چبری طور پر مذھب تبدیل کرانے کا کام بھی کیا ہے ، اس نے مقدس مذھبی مقامات کو تباہ کیا اور منظم طور پر اقلیتوں کو خارج کرنے کا عمل بھی سرانجام دیا ہے –
یہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ اس گروپ نے مردوں ، عورتوں اور بچوں کے شہروں اور قصبوں کے چوکوں اور چوراہوں پہ سر قلم کئے ، ان کو سنگسار کیا اور ان کی لاشوں کو تین دن تک وہاں پڑے رہنے دیا تاکہ مقامی آبادی کو متنبہ کیا جاسکے – یہ رپورٹ عورتزن سے ریپ کئے جانے اور کغی خاندانوں کی جانب سے اپنی کم عمر بچیوں کی شادی کردینے بارے رپورٹ کرتی ہے کیونکہ ان خاندانوں کو یہ ڈر تھا کہ ان لڑکیوں کی زبردستی داعش کے لڑاکوں سے شادی کردی جائے گی ، پھر چوروں کے ہاتھ سرعام کاٹے جانے ، رجم یا مصلوب کئے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں اور یہ سب مقامی آبادی میں خوف پھیلانے کے لئے کیا اس کمیشن نے یہ پایا کہ یہ وحشیانہ تنطیم جس کی صفوں مين زیادہ تر غیر ملکی ہیں بچوں کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ یہ طویل المدت وفاداری کو یقینی بناتی ہے اور جلد وہ اس کی ائیڈیالوجی کو قبول کرلیتے ہین اور وہ ایسے کیڈر میں بدل جانے کے اہل ہوتے ہیں جو دھشت گردی کو ہی اپنا طرز زندگی بنانے والے ہوں گے
دوسرے سلفی جہادی گروپوں کے برعکس داعش کے پاس ریاست کی فوری تعمیر اور ایک خاص قسم کے معاشرے کا اسلحے اور تشدد کے زور پر تعمیر کا پروجیکٹ ہے – آزاد شامی فوج اور دوسرے جہادی گروپوں سے لڑنے اور مسابقت کے بعد داعش نے اپنے فنانس کے زرایع کو اور مضبوط کیا جیسے تیل کے کنویں اور باڈر کراسنگ پر کنٹرول – اس نے دیر الزور میں شاطات قبیلے کے ہزاروں لوگوں کو بھاگ جانے پر مجبور کردیا جب اس نے ان میں سینکڑوں لوگوں کو تیل کے دو کنوؤں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے قتل کیا اور یہ جولائی 2014ء میں ہوا –ان میں سے ایک کنواں الامور آئل فیلڈ تھا جو دیر الزور صوبے کے بڑے آئل فیلڈ میں سے ایک تھا- دی مڈل ایسٹ آن لائن ویب سائٹ کے مطابق داعش کے پاس شام مين تیل کے 50 کنویں اور عراق میں 20 ہیں – عراقی فورسز نے ان میں کئی کنویں واپس چھین لئے اور ایک اندازے کے مطابق داعش ایک دن میں تیل بیچ کر 3 ملین ڈالر روزانہ کمارہی ہے اس میں اغواء برائے تاوان ، آرکیالوجی کی نادر چیزوں کی نیلامی سے ہونے والی آمدنی شامل نہیں ہے اور اس کے ہمدردوں کی امداد الگ سے ہے
تشدد اور دھشت گردی ہی صرف داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں پاپولر رائے کو کنٹرول کرنے کا زریعہ نہیں ہے شیاطات قبائل کا قتل عام کرنے کے بعد داعش نے بجلی ، فیول اور خوراک بدحال لوگوں میں تقسیم کی تھی – لوٹ مار اور چوری چکاری کے خاتمے اور چوروں کو سزائیں دینے کے بعد علاقے میں سب سے خراب صورت حال اور مارجنلائزڈ آبادی کے حصّے میں مقبولیت حاصل کی – اور پھر اس نے بے روزگار لوگوں کو ایک اچھی تنخواہ دینی شروع کی اور اپنے لئے لڑنے والوں کو 300 ڈالر ماہانہ ، رہائش اور دوسری بنیادی ضرورتیں بھی فراہم کی اور یہ سب وہاں کیا جہاں مقامی آبادی کی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی تھی – داعش اسی لئے سماجی طور دھتکارے ہوئے ان گروپوں کے لئے کشش کا سبب بن گئی جن کے طبقاتی مفاد کے سیاسی اظہار کو ابتک خاطر خواہ اہمیت نہیں ملی تھی
داعش اپنی خودساحتہ خلافپت کے دارالحکومت رقہ میں اور دیکر کنٹرولڈ علاقوں میں لوگوں کی روزمرہ زندگی کے ہر ایک پہلو میں مداخلت کرتی ہے ، اس کے اراکین کلاشنکوفوں کے ساتھ رقہ کی گلیوں میں گشت کرتے ہیں اور صرف ان کو ہی اسلحہ لیکر چلنے کی اجازت ہے –داعش نے دو پولیس فورس بنارکھی ہیں – ایک اسلامی پولیس ہے جو مرد اور عورتوں دونوں کی نگرانی کرتی ہے اور دوسری ” الخنسہ ” بریگیڈ ہے جو کہ عورتوں پر مشتمل ہے اور یہ گلیوں ، محلوں میں کسی بھی عورت کو روک کر اس کی جامہ تلاشی لینے کا اختیار رکھتی ہے اور یہی کام ” حسبہ فورس ” مردوں کے ساتھ کرتی ہے اور ان دونوں برگیڈوں کا گام داعش کے تصور شریعت کا نفاز بھی ہے
داعش نے اس سے بھی آگے بڑھ کر ریاستی اداروں کی شکیل کی اور رقّہ میں ایک حکومت بنائی جس میں وزرات تعلیم ، پبلک ہیلتھ ، پانی و بجلی ، مذھبی امور اور دفاع کی وزراتیں بھی شامل ہیں اور یہ وزراتیں پرانی شامی حکومت کی سرکاری عمارتوں میں کام کررہی ہیں
پيجھے 2013ء تک اوپر زکر کردہ علاقوں میں داعش کو ایک غیرملکی قابض تنظیم خیال کیا جاتا تھا جیسا کہ دیر الزور کے ایک ایکٹوسٹ نے بتایا : ایک آباد کار تحریک ، جیسے اسرائیل نے فلسطین پر آبادکاروں کے ساتھ قبضہ کیا تھا ” – یہی بات دوسرے علاقوں کے شامی بھی داعش کے بارے میں خیال کرتے تھے –تاہم داعش کم سے کم ایک خاص قسم کی سماجی سپورٹ حاصل کرچکی تھی – ایک ایکٹوسٹ کے بقول رقہ کو خاموشی سے ذبح کیا جارہا ہے اور داعش نے قومیائے جانے کا کوئی پروجیکٹ پیش نہیں کیا تھا اور نہ ہی بڑے اجارہ دار تاجروں کی اجارہ داری کو بھی کم نہ کیا جن سے اس تنظیم کے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں
داعش ازم کیا ہے ؟
داعش کا بطور ایک تنظیم کے جہادی اور الٹرا رجعتی اسلامسٹ کرنٹ کے طور پر اسٹڈی کرنا اس کی آئیڈیالوجیکل اور عملی خصوصیت کی وضاحت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگی حبکہ اس کا موازانہ اگر ہم دوسرے اکثر جہادی گروپ جیسے القاعدہ ہے سے کریں – یہ ظاہر کرتا ہے کہ جوں ہی داعش بنی تو یہ دوسرے سلفی جہادی گروپوں سے اس کا تصاد نظر آیا ، خاص طور پر اس نے دوسرے گروپوں کی تحلیل چاہی – دوسرے لفظوں مين آپ کیسے سکتے ہیں کہ داعش دوسرے تمام جہادی گروپوں کو داعش میں بدلنا چاہتی تھی اور ان میں سب سے اہم نصرہ فرنٹ تھی اور نصرہ فرنٹ دو حصوں میں بٹ گئے ، ایک وہ جو داعش کے ساتھ مل گیا اور دوسرا الگ ہی رہا – احرار الشام نے اپنی سلفی جہادی شناخت برقرار رکھی اگرچہ اس کے بعض بریگیڈ داعش کو اپنانے کو تیار تھے –یکن ان رجحانات کا بدترین پہلو یہ تھا کہ بہت سے رجعتی جہادی گروپ بھی جو کہ شمالی افریقہ اور دوسرے خطوں میں سرگرم تھے نے داعش سے وفاداری کا اعلان کردیا
بعض یہ دلیل دیں کہ جب تک داعش کا بنیادی پہلو اس کا رد انقلاب رجعتی تںطیم ہونا رہے گا تو داعش کے دوسرے خواص کی تلاش کرنے میں کوئی سیاسی یا پریکٹکل فاغدہ نہیں ہوگا – لیکن یہ داعش کے فنومنا /مظہر کو اس کے مادی اور سماجی –معاشی تناظر کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا جس میں سے یہ ابھر کر سامنے آيا ہے – داعش کی سیاسی مخالفت کرنا پہلے تو ان مادی حالات کو سمجھے بغیر ناممکن ہے جس نے اس کو جنم دیا اور اسے پھیلایا اور یہ مظلوم ، استحصال زدہ طبقات کے نکتہ نظر سے داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے پایسیوں کو بنانے سے پہلے ضروری ہے
ہم نے داعش کے بطور ایک رجعتی اور رد انقلابی قوت اور اس کے عراق و شام میں پھیلاؤ کے جنم کو خاص تناظر میں پیش کیا اور یہ یاد دھانی بہت ضروری ہے کہ ہم نے اس بات پر فوکس کیا تھا کہ شامی حکومت کے بدترین جبر و ظلم ، علاقائی ممالک اور سامراجی مداخلت وہ اسباب ہیں جنھوں نے داعش کو جنم دیا – عراق پر امرکی حملے نے ملک کے رہے سہے انفراسٹرکچر اور سوشل فیبرک کو تباہ و برباد کرڈالا اور ایسی تحریکوں کے پیدا ہونے کا راستہ ہموار کردیا اور یہ جو امریکہ کی ” داعش ” کے خلاف جنگ ہے یہ ھاعش کو شکست نہین دے گی بلکہ اس کے سامراج مخالف ہونے کے دعوے کو مضبوط کرے گی اور اس سے داعش کی ہمدردیاں بڑھیں گی
داعش کا ابھار اس کے خاص کردار کو بیان کرتے ہوئے جبکہ اس کا موازانہ دوسرے روایتی جہادی گروپوں سے کیا جائے ، اس کی اچانک اور حیران کن حد تک شام مین انقلابی پروسس کے ہوتے ہوئے ظہور اور یہ حقیقت کہ اس نے اپنے علاقوں میں انقلاب کو ساری خصوصیات کے ساتھ کچل کر رکھ دیا اور ایک آئیڈیالوجیکل اور سماجی طرز زندگی لوگوں پر مسلط کیا اور اپنی ہی طرز کی ایک ریاست جنم دی یہ سب ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم داعش کا ” فاشزم کے تجربے ” کے ساتھ معائنہ کریں – اس اپروچ کا مطلب یورپ میں فاشزم کی جو تفضیل ہے اس کا حوالہ دینا نہیں بلکہ نئی فاشسٹ تحریکوں کے ساتھ ایک خاص اور محدود تناظر میں اس کی مشبہات دیکھنا ہے
شام کی تاریخ میں انقلاب کا یہ خطرناک موڑ اور راستہ بہت سوں کو خیران کرگیا اور یہ بہت ہی تاریخی اور انفرادی قسمت اچانک ہزاروں انسانوں کے لئے اور پھر لاکھوں لوگوں کی قسمت کے مترادف ہوگئی – نہ صرف سماجی طبقات نے شکست کھائی اور نہ صرف سیاسی جماعتیں معدوم ہوئیں بلکہ بذات خود زندگی ، جسمانی بقاء ہی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوگئی اور کئی انسانی گروپ پرابلمیٹک بن گئے – اسی طریقے سے عطیم مارکسی دانشور ارنسٹ مینڈل نے فاشزم کے ابھار کو بیان کیا تھا- فاشزم کی یہ جو تعریف کی جاتی ہے کہ ” فاشزم سوائے فنانس کیپٹل کی طاقت کے اور کچھ بھی نہین ہے ” اس کا اطلاق داعش اور کسی بھی طرح سے اس تعریف کی روشنی میں یورپ میں فاشزم کے جنم کی وضاحت نہیں کرتی اور نہ ہی نئی فاشسٹ تحریکوں کی یہ وضاحت کرپاتی ہے
بہت سے مارکسی دانشور ایسے ہیں جنھوں نے فاشزم کے یورپ میں جنم کا بہترین تجزیہ کیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ فاشزم پیٹی بورژوازی پہ اقتدار کا بوجھ ڈال دیتا ہے اور انہوں نے کہا تھا کہ فاشزم اپنی مدد اور حمایت ٹاؤن کاریگروں ، تاجروں ، سول سرونٹ ، کلرکوں ، ٹیکنکل پرسنز ، انٹیلی جینٹیسیا ، دیوالیہ کسانوں اور بے روزگاروں جیسی سماجی پرتوں سے حاصل کرتا ہے اور لکون ٹراٹسکی نے اسے ” ہیومن ڈسٹ ” کا نام دیا تھا
ٹراٹسکی نے فاشزم کا سماج کے طبقاتی نکتہ نظر سے جائزہ لیا اور ان ایون اینڈ کمبائنڈ ڈویلپمنٹ کی گہری تفہیم – جہاں گزشتہ صدیوں سے ورثے میں ملے پیداوار کے ڈھانچے اور ان کے ساتھ ان کے رشتے اور آئیڈیالوجی – زیادہ ماڈرن سٹرکچرز ، تعلقات اور آئیڈیالوجیز کے ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں – ارنسٹ مینڈل اپنی کتاب
Trotsky: A Study in the Dynamics of His Thought
میں ٹراٹسکی کا فاشزم کے تجزئے کو ان الفاظ میں سمیٹتا ہے
ٹراٹسکی کئی دوسرے مارکسی دانشوروں کے ساتھ یہ سمجھ گیا تھا کہ سوشو اکنامک صورتوں اور آئیڈیالوجیکل صورتوں کے درمیان ڈی سائی کرو نائزیشن رہتی ہے ؛دوسرے لفظوں میں ماقبل سرمایہ داری سے ورثے مین ملے خیالات ، جذبات اور تاثرات بورژوازی کے کئی حصّوں ( خاص طور پر بربادی کے حطرے کے احساس تلی دے درمیانی طبقات بلکہ بورژوازی کی صفوں میں ، ڈی کلاس دانشوروں اور یہاں تک ورکنگ کلاس کے کئی حصّوں میں بھی ) میں موجود رہتے ہیں – ناقابل برداشت سوشواکنامک حالات کے اندر اضافے کی وجہ سے مذکورہ بالا طبقات اور تہیں جن کو ٹراٹسکی ” ہیومن ڈسٹ کہتا ہے – وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملکر طاقتور بڑی عوامی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں – کسی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہوکر اور سرمایہ دار طبقے کے ایک سیکشن اور ان کی ریاستی آپریٹس سے اسلحہ لیکر اٹھنے والی تحریک محنت کشوں کی تحریک کو خون آشام تشدد اور دھشت گردی اور خوف پھیلاکر تباہ کرسکتی ہے
ٹراٹسکی نے بونا پارٹ ازم اور آمریت کی دوسری اشکال سے فاشزم کو الگ رکھ کر دیکھنے پر زور دیا – فاشزم ایک طاقتور قسم کے آپریٹس پر مبنی ایک خاص شکل ہوتی ہے اور یہ ایک اوپن ڈکٹیٹرشپ ہوتی ہے جس کی بنیاد ہر قسم کے ورکنگ کلاس تنظیموں کے ڈھانچے کی مکمل تباہی پر رکھی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ ماڈریٹ سوشل ڈیموکریٹک آرگنائزیشنز کو بھی تباہ کردیتی ہے – فاشزم منظم ورکنگ کلاس کے سیلف ڈیفنس کی کسی بھی شکل کو مادی طور پر دباتا ہے ایسے کہ ورکنگ کلاس کا شیرازہ بکھیرتا ہے –یہ وضاحت کہ فاشسٹ فنومنا بطور ایک تحریک کے ہیومن ڈسٹ پر انحصار رکھتا ہے مکمل طور پر داعش کی تشکیل پر لاگو ہوتا ہے – فاشزم عمومی طور پر پارٹی ملیشیا تشکیل دیتا ہے جو ریاست سے لڑتی ہے اور ایک فاشسٹ ریاست کا قیام کرتی ہے – اور فاشسٹ اطالوی مورخ امیلیو جینٹل کے مطابق خود کو نئے آدمیوں کی اشرافیہ خیال کرتی ہے جو دوران جںگ جنم لیتے ہیں اور وہ اقتدار پہ قابض ہوجاتے ہیں تاکہ ایک بدعنوان قوم کو ازسرنو زندہ کریں – فاشزم کا مقصد لوگوں کو ایک ہجوم کے طور پر منظم کرنا ہوتا ہے نہ بطور طبقہ اور تاریخی مطالعہ یہ بات نشان زد کرتا ہے کہ فاشزم کا مقصد دنیا کو بدلنا یا سماج کو بدلنا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو انسانی فطرت کو ہی بدلنا چاہتے ہیں اور اس لئے وہ لوگوں پر ڈسپلن کے نام پر خوفناک تشدد کرتے ہیں ان معنوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داعش فاشسٹ تحریک کی ایک نئی شکل ہے اور یہ جو خلافتی ریاست ہے یہ خاص نیچر کے ساتھ خاص حالات کی پیداوار ہے
خلاصہ
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سماجی تباہی اور انتشار کے اندر سے داعش کی فاشسٹ کرداری صفات ظاہر ہوئیں تو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ پھر جو انقلابی قوتیں ہیں ان کی مداخلت یہان کیسے ہوسکتی ہے اور اس مداخلت کا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے ؟ اور اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ داعش پاپولر اور انقلابی تحریکوں کے وجود کے لئے انتہائی خطرناک ہے تو یہ سوال اور بھی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے – پھر اس کے خلاف مزاحمت کی عملی اشکال کون سی ہیں ؟ دوسرا سوال جمہوری اور لیفٹ ونگ انقلابی قوتوں پر مشتمل ایک متحدہ محاز اور فرنٹ کا ہے اور آخری سوال بشار الاسد رجیم کی جانب ہمارے رويوں کا ہے جس نے بہرحال ہمارے لوگوں کو اور ملک کو تباہ کیا ہے
نوٹ : میں نے آس آرٹیکل کے اس آخری حصّے کو حذف کردیا ہے کیونکہ اس کا تعلق شام کے اندر لڑنے والے انقلابی گروپوں اور لیفٹ گروپس کی حکمت عملی پر تھا اور اس کا فکری جہتوں سے تعلق کم تھا اور مقصد داعش کی سماجی و مادی اور اس بنیاد پر نظریاتی تفہیم و تشریح تھا جو پورا ہوگیا ہے

Comments

comments