داعش اور فاشزم – حصّہ اول – عامر حسینی
نوٹ : ” جہاد ازم ، تکفیریت ، سلفیت ، نیو دیوبندی ازم ، داعش ، تحریک طالبان ، نصرہ فرنٹ ، شام ، عراق ” وغیرہ پر ایک جانب تو دائیں بازو کے رجعتی مذھبی حلقوں کا فرقہ وارانہ ڈسکورس ہے ، دوسری جانب ” سامراج امریکہ نواز ” اور ” سرمایہ دارانہ ترقی کے حامی نیو لبرل مارکیٹ کے شیدائیوں کا ڈسکورس ہے اور یہ دونوں کیمپ ایسے ہیں جو ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کی سماجی ، مادی جڑوں پر بات کرنے سے کتراتے ہين یا جان بوجھ کر اس کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور عوامی شعور کو مزید پراگندہ کرنے کا سبب بنتے ہیں ،
ہماری کوشش یہ ہے کہ فرقہ وارانہ ڈسکورس یا نیولبرل ڈسکورس کے مقابلے میں ایک ایسا ” عوامی ڈسکورس ” تعمیر کیا جائے جو سماجی ہم آہنگی اور ورکنگ کلاس کے اندر اتحاد و یک جہتی پیدا کرتے ہوئے مظلوم و محکوم کمیونٹیز کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرے ، میں نے ” داعش ، شام اور سامراج ” جیسے موضوعات اور اس سے جڑے ” جہاد ازم ، تکفیریت اور سلفیت و نیو دیوبندی ازم ” جیسے ایشوز پر ضمنی مباحث کو واضح کرنے کے لئے اس سے پہلے بھی کئی ایک دانشوروں کے افکار سے اپنے پڑھنے والوں کو متعارف کرایا ، ذیل میں ، میں شام مین بہار عرب کے ایک معروف ایکٹوسٹ اور دانشور غیاث نسائی کا مضمون ” داعش اور فاشزم ” پیش کررہا ہوں ، اس پر بعد ميں دو ایک اور دانشوروں نے بھی آرٹیکلز لکھے وہ بھی اس مضمون کے بعد سامنے آئیں گے اور امید کرتا ہوں کہ اس سے ایک نکتہ نظر کی تعمیر مین مدد ملے گی
دنیا بھر کے عالمی نشریاتی ادارے اور بڑی ریاستوں کے سربراہ جون 2014ء سے داعش کو عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہیں ، ان کے نزدیک داعش کا خطرہ صرف عرب دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مغربی اور مشرقی سامراجی ریاستوں تک کے لغے حطرے کا سبب بن گئی ہے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگست 15، 2014ء کو قرارداد نمبر اکیس سو ستر یعنی 2170 پاس کی جس میں اس نے داعش اور القاعدہ کی شام میں اتحادی النصرہ فرنٹ کو دھشت گرد تنظیمیں قرار دیا اور ان تنطیموں کی حمایت و امداد کرنے والوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کرڈالا – داعش نے جولائی 2014ء میں عراق و شام میں اپنے زیرقبضہ علاقوں پر مشتمل خودساختہ اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کیا – میں اس مضمون میں داعش کے ڈھانچے پر بات کروں گا اور یہ دکھاؤں گا کہ وہ کونسے حالات تھے جنھوں نے داعش کو عراق اور شام میں پھیل جانے کا موقعہ اس وقت فراہم کیا جب شامی معاشرہ سماجی –معاشی تباہی کا شکار ہوا اور شام کے اندر انقلابی لہر رد انقلاب میں بدل گئی ، مرا داعش کے بارے میں کہنا یہ ہے کہ داعش فاشسٹ کردار کی حامل تنظیم ہے اور اس کی ایک خاص فاشسٹ ترکیب ہے
عراق کی تباہی
سال 1968ء میں عراقی بعث پارٹی عراق پر قابض ہوئی اور اس کا قبضہ 2003ء تک امریکی حملے سے پہلے برقرار رہا ، پہلے احمد حسن البکر نے حکمرانی کی اور پھر 1979ء میں صدام حسین نے فوجی بغاوت کے زریعے سے اقتدار پر قبضہ کرلیا عراق قدرتی وسائل خصوصا تیل کی دولت سے مالا مال ملک تھا تو اس ملک پر بعث کا قبضہ ہونے کے بعد بعث حکومت نے وہاں پر موجود محنت کشوں اور اشتراکی تحریکوں کو کچل ڈالا جو کہ اس خطے میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال تحریکیں تھیں – صدام حسین نے کردوں کی قومی آزادی کی تحریک کو ہرممکنہ ظلم و جبر کا استعمال کرکے دبانے کی کوشش کی ، یہاں تک کہ ان کے خلاف کیمائی گیس تک استعمال کی گئی جس میں ہزاروں کرد شہری مارے گئے
وحشت اور ظلم و بربریت کے اعتبار سے عراقی بعث اور شامی بعث حکومتوں میں کوئی فرق نہ تھا لیکن عراقی بعث حکومت نے خود کو عرب شاؤنسٹ نعرے کے باعث شامی بعث پارٹی سے ممتاز کیا اور اس نے شیعہ و کرد نسلی آبادی کے گروہ جو کہ عراقی آبادی کی اکثریت پر مشتمل تھے کے خلاف اسے استعمال کیا ، عراقی شیعہ اور کرد آبادی عراق کے سب سے بدحال اور محنت کش طبقات کی اکٹریت پر مشتمل تھے جوکہ عراق کی عوامی اور اشتراکی تحریکوں کی ریڑھ کی ہڈی تھے ، عراقی بعث حکومت نے شیعہ کو فارسی اور کردوں کو اسرائیلی ایجنٹ کہہ کر دبایا
بعث حکومت نے عراق کو 1980ء سے جنگوں میں ملوث کیا – پہلی جنگ ایران کے خلاف لڑی اور یہ جنگ آٹھ سال جاری رہی اور اس نے عراقی معاشرے کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا ، 200 سے 350 ملین ڈالر کے انفراسٹرکچر کی تباہی ہوئی ، دو سال بعد اس جنگ کے بعث حکومت نے چھوٹے پڑوسی ملک کویت پر حملہ کردیا اور اس حملے نے امریکہ کو خلیج عرب پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا اور اس نے عراق کے خلاف جنگ مسلط کی اور یہ ایسے وقت ہوا جب سوویت یونین اور مشرقی یورپی کمیونسٹ بلاک تحلیل ہورہے تھے ، اس جنگ نے عراقی فوج کو تباہ کرڈالا اور 232 ملین ڈالر کے قریب عراقی انفراسٹرکچر تباہ ہوا ، ساتھ عراق کی معاشی و فضائی ناکہ بندی ہوئی جو 2003ءمیں امریکی حملے تک جاری رہیں اور 2003 ء میں امریکی حملے نے رہی سہی کسر پوری کردی ،
عراق ان تین جنگوں میں 15 لاکھ فوجی اور عام شہریوں کی جانیں کھوبیٹھا اور ان تمام جنگوں مین 1193 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر برباد ہوکر رہ گیا گویا 58 سال تک تیل بیچ کر جتنا پیسہ کمایا جانا تھا وہ ان تین جنگوں کی نذر ہوگیا لیکن 2013ء میں امریکی افواج کو تمام سیاسی گروہوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنے کی وجہ سے واپس جانا پڑا لیکن اس سے پہلے عراقی معاشرہ بری طرح سے تقسیم ہوگیا تھا اور امریکی پالیسیوں کے سب اور بعث باقیات سے جان چھڑانے کے نام پر لاکھوں عراقی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے فارغ کرڈالے گئے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کئی عراقی گروہوں کو مارجنلائزیشن کا سامنا کرنا پڑا اور ڈی بعث فیکشن کے عمل سے جو لوک سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے فارغ ہوئے وہ امریکی حکومت کے ہی نہیں بلکہ نئی عراقی کٹھ پتلی حکومت کے بھی دشمن بن گئے جبکہ امریکہ جاتے جاتے اقتدار نوری المالکی جیسے متعصب ، فرقہ پرست کے ہاتھوں مين دے گیا جس نے عراقی سنّی اور کرد آبادی میں ایک احساس محرومی کو جنم دیا
داعش کا قیام
دو ہزار چار میں ابومصعب زرقاوی جوکہ اردن کا رہنے والا تھا اور اس کا اصل نام احمد فضل الخیلیلہ تھا نے امریکہ پر عراق کے حملے کے خلاف کئی جہادیوں کے ساتھ ملکر ایک تنطیم بنائی جس نے اسامہ بن لادن کی القاعدہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور یہ تنطیم بعد ازاں القاعدہ میسوپوٹومیا کے نام سے سامنے آئی لیکن جب جون 2006ء مین مصعب زرقاوی ہلاک ہوا گیا تو اس کا نام دولۃ الاسلامیہ العراق رکھ دیا گیا اور 19 اپریل 2010ء مین اس کے ليدر ابو عمر بغدادی و ابو حمزہ مہاجر مقرر کئے گئے جبکہ بعد ازاں ابوبکر البغدادی اس کا پہلا خلیفہ بنا
دولت اسلامیہ العراق عراقی منظر نامے پر سب سے بڑی رہنماء تںطیم بنکر سامنے آئی کیونکہ بعث پارٹی کے کئی فوجی افسران اس میں شامل ہوگئے تھے اور کئی ایک چھوٹے موٹے گروپ جن میں عراقی نیشنل گارڑ ، جیس المحمدیہ و جیش نقشبندیہ بھی اس میں شامل ہوگئے تھے اور یہ سب عراقی بعث باقیات تھے مگر عراقی قبضے بعد جب ان کو کوئی اور شناخت نہ ملی تو انہوں نے خود سنّی آبادی کی نمائندہ تںطیم کے طور پر پیش کرتے ہوئے بتدریج داعش سے الحاق کرلیا تھا اور ان گروپوں نے اپنے آپ کو فرقہ وارانہ دعوؤں سے ممتاز کیا جو ان کے قیام کا جواز فراہم کررہے تھے – لیکن ملک کے سماجی –معاشی انتشار اور سیاسی فرقہ وارانہ زیادتی نے بھی ان کے پھیلاؤ کو ممکن بنایا اور یہ بعث پارٹی سے تعلق رکھنے والی ملٹری اشرافیہ تھی جس نے دولت اسلامیہ العراق کی تنظیمی ، عسکری اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو نکھارنے مین اہم کردار ادا کیا اور ان میں کرنل حاجی بکر ( اصل نام سمیر خلفاوی ) برگیڈیر ابو محمد السیودانی ، کرنل ابو ترکمانی ، عبدالرحیم الترکمانی کرنل ابو مسلم الترکمانی ، علی السود جبوی ، لیفٹنٹ کرنہ ابو عمر النعیمی ، ابو احمد العلوانی ، ابو عبد الرحمان البلاوی ، ابو عقیل موصل ہور ابو علی الانباری شامل تھے اور یہ سب داعش کی لیڈرشپ مین شامل ہین
بعث پارٹی کے افسران اور تکفیری عنصر کے باہمی ادغام نے اسلامی سٹیٹ آف عراق کو دوسری روایت جہادی تںطیموں سے ہٹ کر خاص نمایاں کردار و اوصاف عطا کرڈالے – داعش کا مقصد ایک ایسی خلافت کا قیام ہے جو کہ سب سے زیادہ ظالمانہ اور رجعتی کردار کی حامل ہو اور ایک واضح فوجی ، سیاسی اور کمیونیکشن سٹریٹجی کو اپناتے ہوئے معاشرے میں ہر ایک جمہوری اور ترقی پسند عنصر کی تباہی پھیردے
داعش کا ڈھانچہ
جب شام کے اندر پرامن بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو شامی حکومت جان گئی تھی کہ یہ پرامن جمہوری احتجاج اس کی بقاء کے شدید ترین خطرہ ہیں اور اسی لئے اس نے اول دن سے ان کو بطور دھشت گرد اور تکفیری کے طور پر پینٹ کرنا شروع کردیا – انقلاب شام کے پہلے سال شامی حکومت نے ایسی وڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کردی تھیں جن میں احتجاج کرنے والوں پر ٹارچر اور اذیت پسندی کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر پیش کیا جاتا اور شامی حکومت اس کو ” وہابی ابھار ” کہہ کر پیش کرنے میں لگی ہوئی تھی –
یہ سوچی سمجھی پالیسی شدید قسم کی انانیت اور چالاکی کے ساتھ سامنے لائی گئی تھی اور 2011ء کے آخر اور 2012ء کے شروع میں شامی رجیم نے عراق سے واپس لوٹنے والے کئی بدنام زمانہ جہادیوں کو رہا کرڈالا تھااصل مرکز جو بعد میں النصرہ فرنٹ بنا وہ پہلے سے ہی دولت اسلامیہ فی العراق میں سرگرم تھا جس نے شام میں اپنے جہادیوں کو بھیجا تاکہ وہ وہاں القاعدہ کی شاخ قائم کریں – جو نصرہ فرنٹ کے نام سے بدنام ہوا اور اس نے تیزی سے شام میں اثر حاصل کرلیا ، اس کی وجہ ان کے لڑاکوں کا جذبہ اور ڈسپلن تھا اور پھر ان کے پاس بہتر کوالٹی کے فوجی آلات تھے جو ان تک ” آزاد شامی فوج ” کے زریعے سے پہنچے تھے – ان وجوہات کی وجہ سے اس گروپ میں کئی نوجوان شامیوں کو کشش محسوس ہوئی جو بشار الاسد رجیم کے خلاف لڑنے کو بے تاب ہورہے تھے – اس وقت تک ایسا کوئی پروجیکٹ سامنے نہین آیا تھا جو ایک اسلامی ریاست کے قیام کی بات کررہا ہوتا
اپریل 2013ء میں جب ابوبکر البغدادی نے نصرہ فرنٹ کو اسلامی سٹیٹ میں ضم کرنے کا اعلان کیا تو نصرہ فرنٹ مین تقسیم دیکھنے کو ملی اور جو بغدادی کے وفادار لڑاکے تھے وہ داعش میں شامل ہوگئے اور یہیں سے دولت اسلامیہ فی العراق کے ساتھ والشام کا اصافہ ہوا اور داعش بن گئی اور ایک دھڑا نصرہ فرنٹ کے نام سے کام کرتا رہا ، دونوں کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوئے اور یہ دونوں گروپ اپنی رجعت پسندی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود سٹریٹجی اور مفادات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ میں آگئے – یہان پر اطالوی فلسفی اینتنو لیبرولا کا یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ ” خیالات آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ ہی خوابوں سے کوئی چیز سامنے آتی ہے
دونوں گروپوں کے درمیان خلیج کو اور فاصلوں کو مزید سمجھنے کے لئے داعش کے نام پر بننے والے گروپ میں بعث پارٹی کے نیشنلسٹوں اور جہادی سلفیوں کے باہمی میلاپ والے عنصر پر زور دینا مفید ہوگا – جب القاعدہ کے لیڈر ایمان الزھراوی نے داعش کو جون 2013ء میں تحلیل کرنے کو کہا اور نصرہ فرنٹ کو بحال کرنے کا حکم دیا تو ابو محمد العدنانی نے جواب دیا اگر ہم داعش کو تحلیل کرنے کا فیصلہ مان لیں تو یہ ایک طرح سے سکائی –پائی کوٹ معاہدے کو مان لینے کے مترادف ہوگا – حقیقت یہ پھی کہ جون 2014ء کی ابتداء میں داعش نے عراق اور شام کی سرحدوں کے ختم ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کے ۂغے شام اور عراق کی سرحد پر لگی خاردارتاروں کی تباہی وڈیوز بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر پھیلائی تھیں
داعش نیشنل ازم اور انتہا پسند اسلام ازم کا ایک آمیزہ جوکہ عراق و شام کی سرحدوں کو ختم کرتا ہوا پوری دنیا کے سامنے ماضی کی گم گشتہ اسلامی ایمپائر کی تشکیل کا عملی نمونہ پیش کرنے والی تنظیم کے طور پر خود کو پیش کرنے کا متمنی تھی ابوبکر البغدادی نے 30 جولائی 2013ء کو بیان دیا
ہم دور امت مسلمہ کو دوبارہ زندہ کریں گے – ہم مقبوضہ مسلمانوں کو وہ چاہے کہیں بھی ہوں آزاد کروائیں گے ، ہم یروشلم کو واپس لیں گے اور اندلس کو بھی اور ہم روم بھی فتح کریں گے
اس طرح سے اس نے نیشنلسٹ اور مذھبی جذبات و احساسات کے آمیزے کے ساتھ خود کو بہت ہی رجعتی انداز میں صہیونیت و مغرب مخالف کے طور پر پیش کیا – اس نے داعش کے مقابلہ کرنے اور تشدد و دھشت گردی کے وفور شوق کو تبلیغ کا ہی جزو قرار دیا – اس کا کہنا تھا کہ ” لڑنا بھی تبلیغ ہی ہے اور ہم لوگوں کو پابہ سلاسل کرکے جنت کی طرف دھکیلیں گے
عدنانی نے اگست 2013ء کی تقریر میں داعش کے منشور پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ دوسری جہادی تںطیموں جوکہ فکر وعمل میں حقیقی اسلام کو بروئے کار لاتی ہیں کی محالفت نہیں کرتے لیکن انہوں نے زور دیا کہ وہ ایسا دعوی کرنے سے پہلے داعش سے وفاداری کا آعلان کریں –لیکن اس نے شدید طریقے سے مصر کی اخوان المسلون کی مذمت کی جسے ایمن : مرے بھائی کہہ کر پکارتا ہے ” مگر اس نے اخوان المسلون کو اسلامی لبادے میں محض ایک سیکولر پارٹی قرار دیا اور کہا کہ وہ بدترین اور سیکولرسٹوں کی چھپی ہوئی شکل ہیں
اس لئے ہم یہ نوٹ کرسکتے ہین کہ داعش کی آئیڈیالوجی اور سیاست دوسری اسلامسٹ رجعتی قوتوں کے تمام تر سلسلے سے ہٹ جانے والی ایک تنظیم ہے جس میں القاعدہ اور اس کی شامی شاخ نصرہ فرنٹ بھی شامل ہیں – ہم پہلے ہی اس علیحدگی اور انحراف کی مادی اصل اور بنیاد بارے ڈسکس کرچے ہیں جس کو مذھبی متون کی تشریحات یا فرقہ وارایت پر مبنی اختلاف کے زریعے سے سمجھا نہین جاسکتا جیسے کہ لبرل عام طور پر ان متصادم گروپوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور ہمیں اس پر یقین کرنے کو کہتے ہیں – کارل مارکس نے ” انتقاد سیاسی –معشیت کا دیباچہ ” میں لکھا تھا
تبدیلی / بدلاؤ کے دور کو ہم اس کے شعور کے زریعے سے جانچ نہیں سکتے ، یہ شعور بھی مادی زندگی کے تضادات سے جانچا جانا چاہئیے
داعش کے اکثر لڑاکے اور رہنماء شامی نہین ہیں اور ان کو ہم نصرہ فرنٹ کے اکثریتی شامی لڑاکوں سے ممیز کرسکتے ہیں ؛ اس خصوصیت کے ساتھ ہم نصرہ فرنٹ کی جانب سے شام کی الگ صورت حال پر اصرار کئے جانے کی ایک جزوی وضاحت اور وجہ معلوم کرسکتے ہیں اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دونون تنظیمیں مادی اثر و رسوخ اور زرایع جیسے تیل کے کنویں اور باڈر کراسنگ پر کنٹرول کے لغے ایک دوسرے سے لڑتے اور مقابلہ کرتے ہیں
پے درپے فتوحات ، عراق مين موصل پہ قبضہ اور اس کے ساتھ پڑوس میں یزیدیوں اور کرد علاقوں پر قبضہ اور شہریوں اور سپاہیوں کا قتل عام ایسے واقعات تھے جنھوں نے داعش کے اسلامی ریاست کے دعوے اور اس سے وفاداری کو مقبول بناڈالا جس کی دعوت ابوبکر البغدادی 2014ء میں 29 جون سے دے رہا تھا – ان واقعات نے شام اور عراق کے ایک تہائی حصّے پر داعش کو کنٹرول میں مدد فراہم کی
انتہا پسند اسلامسٹ گروپ شام کے آزاد کرائے گئے علاقوں پر قبضہ جمانے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ آزاد شامی فوج تنظیمی لحاظ سے کمزور تھی اور اس کے پاس جدید ہتھیاروں کی کمی بھی تھی کیونکہ ” احباب شام ” نے اپنے وعدے کی پاسداری نہ کی اور اسے اسلحہ فراہم نہ کیا – بلکہ وہ کبھی بھی آزاد شامی فوج کو جدید ہتھیاروں سے مسلح کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے انہوں نے اسے ہلکے ہتھیار فراہم ضرور کئے جو اس گروپ کو ختم اوجانے سے بجآنے میں ممد و معاون تھے جبکہ اسی دوران جو علاقائی طاقتیں تھیں جیسے سعودی عرب ، قطر اور ترکی اور گلف ریجن مین جو مضبوط جہادی نیٹ ورک تھے انہوں نے انتہا پسند جہادی گروپوں کو لامحدود اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا اور اس نے ان گروپوں کو اپنا غلبہ اور تسلط ان علاقوں پر جمانے مین مدد فراہم کی جو اسد رجیم کی دسترس سے نکل گئے تھے اور یہ 2014ء میں بہت واضح ہوگیا تھا
شام میں داعش کا ابھار
سن 2013ء میں شام کے آزاد علاقوں میں جہان ردانقلاب رجعت پسند طاقتوں – داعش ، نصرہ فرنٹ ، احرار الشام اور دیکر رجعتی جہادی گروپ – نے قبضہ اور غلبہ حاصل کیا کو سمجھنا ضروری ہے وہیں ان علاقوں میں شامی عوام کے سماجی حالات کو جاننا بھی ضروری ہے – شامی عوام نے شامی حکومت کی افواج کی طرف سے ایک خون آشام جنگ کا سامنا کیا جس نے سماجی انفراسٹرکچر کو تباہ کردیا ، گردو نواح کے علاقے تباہی کا شکار ہوئے ، سٹی کونسلز برباد ہوگئیں اور جو شہری و دیہی زندگی تھی وہ بھی بربادی کا منظر پیش کررہی تھی اور شامی حکومتی فوج نے یہ جنگ انتہائی کمزور ہتھیاروں کی مالک اور ایک نیم منظم پاپولر فورس کے خلاف لڑی جسے ” آزاد شامی فوج ” کہا جاتا ہے
ہم آزاد علاقوں میں 2013ء کے آغاز میں عوام کی مشکلات کو ان معروضی حالات کے طور پر جزوی اعتبار سے وہ وجہ قرار دے سکتے ہیں بس نے انتہا پسند جہادی رجعتی طاقتوں کو ان علاقوں پر غلبہ و تسلط جمانے کا موقعہ فراہم کیا جن میں داعش سب سے آگے تھی – 2013ء میں سیرین ریسرچ اینڈ اسٹڈی سنٹر نے ایک رپورٹ شایع کی جس کا عنوان تھا ” شامی انقلاب کی روشنی مین سماجی- معاشی حقائق ” یہ مارچ 2013ء میں آزاد ہونے والے علاقوں کی صورت حال کا خلاصہ یوں پیش کرتی ہے
شام کے معاملے میں فوجی آپریشن ، بمباری ، حراستوں اور بڑے پیمانے پر بے دخلی نے شام کی عوام پر بدتر انسانی و معاشی حالات مسلط کرڈالے ہیں – سول سوسائٹی کے کردار کے بڑھنے کے باوجود بحران سماجی حالت کے مزید بدتر ہونے اور انتہا پسندی و مذھبی جنونیت کی طرف بڑھ رہا ہے ،اس نے سماجی اقدار و روایات پر منفی اثر ڈالا ہے اور انتقامی و ظالمانہ خیالات کو بڑھایا ہے – ان سب حالات نے سماجی ہم آہنگی اور یک جہتی کو تباہ کردیا ہے اور ساتھ ساتھ انسانی زرایع کو ثقافتی –سمجی معنوں میں برباد کرڈالا ہے اور یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے کہ اب اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی اور اس نے پرتشدد اعلانیہ طریقوں کو بڑھاوا دیا ہے اور ترقی معکوس کو جنم دے ڈالا ہے
ظاہر سی بات ہے کہ سماجی معاشی حالت تب سے بتک اور بدتر ہوچکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق چھے اعشاریہ سات ملین شامی خط غربت سے نیچے آگئے ہیں جب سے انقلاب شروع ہوا ہے – اس کا مطلب یہ ہے شام کی آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے – 2013ء بہار شام سے لیکر ابتک 23 لاکھ سرکاری و نجی سیکٹر مں کام کرنے والے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ قومی بیروزگاری شرح 50 فیصد ہوگئی ہے
محنت کشوں نے بہار شام کے آغاز سے احتجاج میں حصّہ لیا لیکن ان کی شرکت محنت ک تحریک کے طور پر نہ تھی کیونکہ شام مین ٹریڈ یونینز موجود نہ تھیں اور نہ ہی انقلابی سیاسی ڈھانچے کیونکہ بعث پارٹی اور اس کی شاخوں کے علاوہ کسی اور کا وجود تو برداشت کیا ہی نہین جاتا تھا ، سیرین ریسرچ اینڈ اسٹڈی سنٹر کی رپورٹ بتلاتی ہے
تقریبا 85 ہزار ورکرز انقلاب کے پہلے سال جبری برطرف کرڈالے گئے – اور اس میں حمص ، حماء اور ادلب کے لوگ شامل نہین ہین جہان سرکاری اعدادوشمار کے مطبق 187 پرائیویٹ سیکٹر کمپنیاں جنوری 2011ء سے 28 فروری 2012ء کے دوران بند ہوچکی تھیں – یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ اعداد و شمار کریڈیبل نہیں ہیں کیونکہ کافی ورکشاپس اور فیکڑیاں جو بند ہوئیں ان کی تعداد 500 ہزار کے قریب تھی اور ان مین وہ مارکیٹس اور تجارتی ادارے شامل نہین جو حمص و الیپو میں یا تو لوٹ لئے کئے یا ان کو جلا ڈالا گیا
سن 2013 کے آغاز میں 5 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور بہت سے ایسے تھے جن کو سخت نقصان پہنچا اور شام کی آبادی کا ایک تہائی حصّہ ہمسایہ ملکوں مین پناہ لینے پر مجبور ہوگیا یا شام مین محفوظ علاقوں تک منتقل ہوگیا – 2014ء تک شام کی آدھی آبادی بے دخل یا مہاجر ہوگئی – سماجی معاشی تباہی کے ان حالات میں اور سماجی انتشار اور انسانوں کے چلے جانے نے داعش اور دوسری جہادی تنطیموں کو بڑھنے اور اپنا تسلط جمانے میں مدد فراہم کی – ان کے بڑھنے کی دوسری وجوہات میں آزاد شامی فوج کا کچلا جانا ، ان کی مارجنلائزیشن بھی شامل ہے جس نے شام کی بعث حکومت کے تشدد اور وحشت ناکی کے خلاف مقبول عوامی مزاحمت کو رجعتی مذھبی فسطائیت میں بدل ڈالا