جاوید احمد غامدی کے افکار،نظریات اور شخصیت کا تجزیہ – ثاقب ملک

ghamidi-2

ایک ہی بات ذہن میں بار بار گونجتی ہے ،جب بھی غامدی صاحب کو سنو یا پڑھو اور وہ لفظ انکی شخصیت پر چھایا ہویا ہے . وہ لفظ ہے “ریشنل”..منطقی آدمی ہیں

غامدی صاحب کی شخصیت کی نرمی ،سادگی،علمیت،منطقیت پر کشش ہے اور انسان کو ہٹ ضرور کرتی ہے مگر .بس جب بھی میں انکی آنکھوں کو دیکھتا ہوں تو عجیب سا لگتا ہے .ایک وحشت سی نظر آتی ہے .لگتا ہے انکے اندر کوئی طوفان تڑپ رہا ہے .کوئی ٹینشن ہے .کوئی کرب ہے .جانے یہ کیا ہے ؟شاید پوری عمر لوگوں اور علما کی مخالفت کا نتیجہ ہے یا کچھ اور ؟

خدا کے ہونے پر انکے دلائل بہت پختہ بنیادوں پر کھڑے ہیں .اسکا مجھے اندازہ نہیں تھا. غامدی صاحب پر نگاہ پڑی تو احساس ہوا کہ آپ کے دلائل بھی بہت وزن رکھتے ہیں

غامدی صاحب تصور خدا کی بنیاد کو پانچ اصولوں پر تعمیر کرتے ہیں .نمبر ایک کہ خدا ،یا ایک خالق کا نفسانی وجدان انسان کے اندر موجود ہے .انسان کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس دنیا وکائنات کا کوئی خالق ہے تو اسکے اندر سے ایک آواز آتی ہے اور وہ اس خیال کو “ایلین” نہیں جانتا .یہ نہیں ہوتا کہ کوئی انسان یہ کہے کہ ہیں اچھا خدا بھی ہوتا ہے ؟یا میرا کوئی خالق بھی ہو سکتا ہے ؟بلکہ اسکے الٹ ہی ہوتا ہے لوگ خدا کو مسترد کرنے کے دلائل ڈھونڈھتے ہیں

انکا دوسرا نکتہ علمی تاریخی تواتر پر مبنی ہے .یعنی کہ انسانی تاریخ،اینتھراپولوجی ،مایتھولوجیز سب اسی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ سب انسانوں کو احساس تھا کہ کوئی خدا ہے .تیسرا نکتہ وہ یہ اٹھاتے ہیں کہ جس دنیا میں ہم رهتے ہیں اس محسوس کائنات کو جانچو اور پرکھو ،دیکھو ،سمجھو کیا یہ اپنی دلیل خود ہے یا کوئی اسکا بنانے والے ہے ؟

آخری دو بنیادوں پر غامدی صاحب نے انبیا اور پھر رسول انکی کتب اور ان اقوام پر نازل عذاب کو رکھا ہے .اس عذاب کو وہ آخری برپا ہونے والی قیامت کا ٹریلر سمجھتے ہیں .اس میں مجھے قرآن پر اور محمّد صلعم کی ذات اور کردارپر فوکس کی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے .آج کے دور کے ایتھیسٹ کو ہم کیا ثبوت دیں گے ؟کیا چیلنج دیں گے ؟وہ چیلنج قرآن کا ہی ہونا چاہئے.خیر ان پانچ اصولوں کے برخلاف بھی دلائل ہیں جنکا جواب بھی غامدی صاحب نے علمی اور احسن انداز میں دینے کی کوشش کی ہے .لیکن سوال تو موجود ہیں کہ جیسے یہ وجدان تو خوف نے پیدا کیا ہے ؟علمی تاریخی شہادت کو بھی مفکرین انسان کی داخلی اختراع قرار دیتے ہیں ؟اس دنیا کے چلنے پر تو بہت سے کانسپٹس اور دلائل ہیں .اور انبیا اور رسول کو ماننا تو بہت دور کی بات ہے اس تک مرحلے تک ایک کافر کو کیسے لایا جائے ؟اس پرتفصیلی انداز میں کوئی بھی پاکستانی سکالر زیادہ مطمئن نہیں کر سکا

آپ کے ہاں رسول پاک سے محبت کی وہ کیفیت نظر نہیں آتی جس کا میں متلاشی ہوں .پیغمبر خدا کے حوالے سے غامدی صاحب میں ایک سرد مہری ہے .ایک علمی چادر تنی ہے.ممکن ہے وہ دل سے بہت محبت رکھتے ہوں بہر حال وہ اپنے جذبات کا ہلکا سا اظھار بھی نہیں کرتے .یہ کچھ دل کی سختی یا ہر چیز کو ریشنل دیکھنے کے مزاج کا ایک نقصان ہے . 

عربی زبان پر عبوراور اس زمانے کے پس منظر پر گہری نگاہ غامدی صاحب کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے .حیرت ہے چار بیٹوں کی وفات کے بعد بچ جانے والے اس زمیندار خاندان کے بچے کو کتنی عمدہ علمی اور تعلیمی صحبت ملی ہے .کیا یہ انکےقادریہ سلسلے سے منسلک والد کی علمی لگن کا نتیجہ ہے ؟یا دعاؤں کا ؟میرا خیال ہے انکے والد اگر زندہ ہوتے تو اپنے بیٹے کے تصوف پر خیالات پر ہر گز خوش نہ ہوتے

حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے زندہ اٹھائے جانے پر اب یہ انٹرپریٹیشن تو ایک بہت متنازعہ ایشو ہے .غامدی صاحب ایک علیحدہ کھڑے ہیں اور باقی تقریباً تمام ہی سکالرز دوسری طرف ہیں .صرف قادیانی ہی غامدی صاحب کے استدلال سے اتفاق کرتے ہیں .کچھ لوگ تو اس بنیاد پر غامدی صاحب پر احمدی ہونے یا انکے سپورٹر ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں جو کہ میری نظر میں با لکل غلط ہے

مسلمانوں کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر یقین رکھتی ہے .غامدی صاحب اس بات سے مکمل انکاری ہیں .وہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن اور صحیح احادیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی

انکے خیال میں سوره نساء میں حضرت عیسیٰ کا جو ذکر ہے اسے غلط سمجھا گیا ہے .یہ بات تو ٹھیک ہے کہ انہیں قتل نہیں کیا گیا .لیکن اٹھایا جانے کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں زندہ اٹھایا گیا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ انہیں قتل نہیں کیا گیا اور الله نے یہودیوں کو دھوکے میں رکھ کراپنے رسول کو اپنے فرشتوں کے ذریعے اٹھا لیا جو کہ موت ہی ہے

مزید وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جب حضرت عیسیٰ اور الله کا مکالمہ درج ہے کہ(مفہوم )اس میں الله قیامت کے روز سوال کرے گا کہ ابن مریم کیا تم نے انہیں یہ تعلیم دی تھی کہ تم میرے بیٹے ہو ؟تو مسیح جواب دیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا میں نے انہیں توحید کی ہی تعلیم دی تھی .تو یہ دلیل ہے کہ انکی دوبارہ واپسی نہیں ہو گی اگر ہوتی تو یہاں پر اس بابت بڑی آسانی سے بتایا جا سکتا تھا

تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ احادیث کی سب سے پہلی کتاب امام مالک کی موطا میں اس پورے موضوع کا کوئی شائبہ بھی نہیں ملتا ہاں البتہ بعد کی کتب میں چندروایات موجود ہیں جنھیں غامدی صاحب ضعیف اور غیر مصدقہ قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں

اس پورے ایشو پر کچھ سوالات غامدی صاحب کی فکر پر اٹھتے ہیں .ایک تو وہ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ واپسی پر احادیث کی ایک بھاری تعداد کو مسترد کر رہے ہیں .وہ کہتے ہیں کہ یہ احادیث اہل تشیع حضرت کی کتب سے اہل سنّت کی کتابوں میں آییں ہیں .دوسرا یہ کہ مسلمانوں کی فکر عیسائیوں سے متاثر ہوئی جس بنا پر وہ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ واپسی کی امید لگا بیٹھے .تیسرا کہ مسلمانوں کے زوال نے اس امید کو ایک جنون بنا دیا حالانکہ انکے بقول یہ ایک حقیقت کے بر عکس بات ہے .کیا یہ بات اتنی آسان اور سادہ ہے؟کیا غامدی صاحب صرف مختلف ہونے کے چکر میں اپنی علیحدہ فکر بنائے بیٹھے ہیں یا وہ واقعی ہی درست علمی استدلال پر ہیں ؟

قرآن کی سوره مریم میں حضرت عیسیٰ اپنی موت ،پیدائش اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام پیش کرتے ہیں .کیا یہ زندہ اٹھایا جانا قیامت کی روز کی بابت ہے یا انکی دوبارہ واپسی پر ؟اگر انکی دوبارہ دنیا میں واپسی کی طرف اشارہ ہے تو پھر انکو زندہ اٹھایا جانے کا دو بار ذکر نہیں ہونا چاہئے تھا؟دوسری طرف علما یہ بھی کہتے ہیں کہ الله کا حضرت عیسیٰ سے وعدہ ہے کہ انکے تمام پیروکار ان پر ایمان لائیں گے تو جب تک وہ دوبارہ واپس نہیں آییں گے تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا .کیا یہ مطلب اخذ کرنا درست ہے ؟؟دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ مسیحوں میں یہ عقیدہ قرآن کے ظہور سے پہلے سے قائم تھا کہ حضرت عیسیٰ کی واپسی ہو گی تو قرآن نے اسکا واضح انکار کیوں نہیں کیا ؟

میں اس ایشو پر مکمل اعتماد اور یقین کے ساتھ کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا .دل تو یہی چاہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ واپسی ہو اور الله کرے کہ کہیں اسی زمانے کے آس پاس ہو تاکہ مجھے بھی انکو دیکھنے کا موقع مل جائے .دوسری جانب غامدی صاحب کے دلائل بھی مضبوط ہیں .کیا ہم واقعی ہی ایک دل فریب خواب کے قیدی ہیں ؟ایک یوٹو پین معاشرے کی تمنا اور اپنی سر بلندی کی خواہش اسکی وجہ ہے ؟کیا مسلمانوں نے رفتہ رفتہ حضرت عیسیٰ سے متعلق احادیث کو ہلکا پھلکا ٹیمپر کیا ہے ؟

..امام مہدی کے متعلق بھی غامدی صاحب کا یہی نکتہ نظر ہے .وہ اسکو بھی مسترد کرتے ہیں .کیا ان دونوں ایشوز پر کچھ صحیح احادیث موجود ہیں ؟اور کیا قرآن کی جن آیات کی غامدی نے تشریح کی ہے کیا وہ درست ہے ؟قرآن میں ابابیلوں کے پتھر مارنے والے ابرہہ والے واقعے پر انکی تعبیر نے بہت تنازعات کو جنم دیا .اس مسلے کا مکمل ادرک مجھے نہیں ہے اس لئے اس پر تفصیلی بات نہیں کر سکتا کوئی عربی دان ہی اس مسلے پر بحث کر سکتا ہے

جمہوریت کی غامدی صاحب نے ‘جم ‘ اور ‘حریت ‘ کے ساتھ مستقل حمایت جاری رکھی ہوئی ہے .انکا خیال ہے کہ جمہوریت اسلام سے ثابت ہے .اسکے لئے وہ قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں کہ مسلمان اپنے کام اپنے مابین مشورے سے حل کرتے ہیں .(مفہوم)وہ یہ بھی کہتے ہیں اور با لکل درست کہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی نظام نہیں ہے .بلکہ صرف گائیڈ نگ پرنسپلز ہیں .
لیکن پھر انکی جمہوریت کی بطور نظام اتنی حمایت کی سمجھ نہیں آتی .یہ تو انکی اپنی ہی بات کا انکار انہوں نے خود ہی کر دیا .ممکن ہے وہ بطور اصول جمہوریت کے حامی ہوں ،موجودہ جمہوریت کی مخالفت پر وہ اسکی درستگی کو سسٹم چلنے سے تعبیر کرتے ہیں .یہی سسٹم چلے گا تو خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا .یہ غیر متاثر کن دلیل ہے .خود بخود کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا .بلکہ یہ دلیل ہے ہی نہیں بلکہ انتہائی احمقانہ بات ہے .غامدی صاحب کا سیکولر ریاست کو اسلامی ریاست کے برابر قرار دینا بھی سمجھ سے باہر ہے .وہ کہتے ہیں کہ جب ایک ریاست میں مسلمان ہی اکثریت میں ہوں گے تو وہ کیسے اسلام کے خلاف جا سکتے ہیں ؟حالانکہ اس بات کی کی گارنٹی نہیں ہے .پھر ایک ریاست کو سیکولر ہی کیوں کہا جائے ؟جب مسلمانوں کے ہر حکم پر الله نگران ہے تو پھر سے ہم کیسے ایک سیکولر ریاست کا قیام جائز قرار دے سکتے ہیں جس کی بنیاد ہی انسانی فہم اور سہولت پر ہے ؟غامدی صاحب ان سوالات کو لفاظی اور اگر مگر کی دلیلوں سے کاؤنٹر کرتے ہیں جو کہ کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہے .اس معاملے میں وہ سب سے زیادہ کمزور پوزیشن پر دکھائی دیتے ہیں

.
انکے دلائل میں یہ بھی ہے کہ اسکا ایک حل وہ معاشرے کی تربیت کو گردانتے ہیں .سماج ٹھیک ہو گا تو اچھے لوگ بھی چن لے گا .اچھا معاشرہ بھی وجود میں آ جائے گا .غامدی صاحب آپ اور آپ جیسے لوگ صدیوں بھی تربیت کر لیں صرف چند ہی فیصد معاشرے کے نسبتاً غیر اہم حصے کو ہی اپنا ہمنوا بنا سکیں گے .کیا ہم صدیوں کے انتظار کے محتمل ہو سکتے ہیں ؟

آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ معاشرے کے طاقت ور افراد کی درستگی معاملات کو حل کر دی گی .سوچ تو ٹھیک ہے .لیکن طاقت ور اپنے برابر یا اپنے سے برتر کی بات سے متاثر ہوتا ہے اپنے سے کم تر کی بات کو وہ اپنے جوتوں کی ٹھوکروں پر رکھتا ہے . طاقت ور طبقہ معاشرے کے استادوں سے سے بھی بڑا استاد ہے .غامدی صاحب کے پاس اس مسلے کا کوئی جامع حل موجود نہیں ہے

اسکا حل یہی ہے کہ پڑھے لکھے سکالر،ایماندار ،دیانت دار ،اہل اور علمی لوگ خود طاقت ور طبقے میں شامل ہوں یا انکا اثر و رسوخ اتنا بڑھ جائے کہ وہ اپنی بات منوا سکیں .اسکی شکل کیا ہو ؟کوئی عظیم سطح کا پریشر گروپ یا تھنک ٹینک؟یا پولیٹیکل پارٹی ؟کوئی علمی فکری تحریک؟یا ان سب کا ملغوبہ؟آپ سب کی راے کیا ہے ؟

پردے،داڑھی، وغیرہ پر غامدی صاحب کا نکتہ نظر درست ہے .داڑھی کو وہ سنت نہیں گردانتے یہ سب سے مختلف سا ٹچ ہے ، کیونکہ انکے خیال میں سنت تو دین کا حصہ ہوتی ہے . آپ کہتے ہیں کہ داڑھی دین کا حصہ نہیں .اس سے نہ تو چہرے کی تطہیر ہوتی ہے ،یعنی نہ جسم کی نہ روح یا نفس کی کسی کی تطہیر نہیں ہوتی ہو دین کا اصل مقصود ہے تو پھر رکھنے کا مقصد دینی تو نہیں ہو سکتا .؟میرا بھی یہی خیال ہے کہ داڑھی ایک ثقافتی ،علاقائی چیز تھی .اب اگر کوئی رکھنا چاہئے تو رکھے مگر اسکو دین نہ بنائے .ہاں ایک مضبوط نکتہ داڑھی کے حق میں ہے کہ تقریباً معلوم انبیا نے داڑھی رکھی .مگر وہ سب اسی ایک خطے سے بھی تعلق رکهتے تھے .کیا کوئی ٹھوس ثبوت داڑھی کے رکھنے کو لازم قرار دیتا ہے ؟

طالبان کی انہوں نے ڈٹ کر مخالفت کی اور سب سے زیادہ کھل کا مخالفت کی .یہ دلیری انہیں سب علما اور سکالرز سے ممتاز کرتی ہے .اسی لئے انہیں ملک چھوڑنا پڑا سود پر انکی نرمی سود کی حمایت نہیں ہے بلکہ مسلے کو جڑ سے پکڑ کر اسکا حل دینے کی ایک تدریجی کوشش لگتی ہے .مگر وہ صدقات کی اہمیت سے بے خبر ہیں کوئی پختہ حل انکے ہاں نظر نہیں آتا ..موسیقی ،غلاموں اور لونڈیوں پر انکی سوچ زیادہ تر روایتی فکر سے مختلف ہے .اور میرے خیال میں کافی حد تک درست بھی ہے .بطور سکالر آغاز میں وہ حد درجہ اپنے استاد امین اصلاحی سے متاثر تھے .انہی کی نقالی ،انہی کی طرح گفتگو لیکن اب وہ اس سحر سے باہر آ چکے ہیں

تصوف کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں .تصوف کی باتوں اور دعوؤں کی نفی کرتے ہیں .انکے خیال میں جب کوئی شخص ایک حد سے زیادہ علمی طور پر بلند ہو جائے تو اس سے یہ برداشت ہی نہیں ہوتا کہ اب اسکا خدا سے ذاتی تعلق نہیں ہو سکتا ہے .کیونکہ نبوت کے خاتمے کے بعد تو وحی اور الہام ختم ہو چکا ہے.یہ نفسیات انسان کو مختلف جسمانی سختیوں اور مراقبوں ،چلوں اور وظائف کی طرف مائل کرتی ہے .میرے خیال میں وہ ماضی کی تصوف کی ملاوٹی فکر سے نالاں ہیں حالانکہ تصوف پر سب اہم کتب انہوں نے پڑھ رکھی ہیں ..تصوف کے سب سے بڑے حامی پروفیسر احمد رفیق اختر بھی تصوف سے منسوب ان باتوں کو رد کرتے ہیں مگر تصوف کو رد نہیں کرتے .غامدی صاحب کے اندر تصوف کے مسلے پر ایک تلخی نظر آتی ہے .اسکی وجہ معلوم نہیں .میڈیا پر انکا آنا درست عمل ہے .اس پر تنقید فضول ہے

مجموعی طور پر غامدی صاحب ایک سکالر ہیں .ایک مفکر ہیں .پاکستان میں ان جیسی روشن فکر والے مزید لوگوں کی ضرورت ہے .افسوس گھٹیا قسم کے سیاسی نوٹنکیوں ،نو سر بازوں اور کمینوں کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے والی عوام انکو فہم دینے والے اس استاد کی حفاظت کی ذمہ داری نہ اٹھا سکی اور انہیں ملک سے باہر جانا پڑا اور اس بات پر کوئی واویلہ بھی نہیں ہے؟کیا مردہ لوگ ہیں

کچھ پہلو بہت اجتہادی ہیں کچھ میں روایت پسند ہیں . زیادہ فوکس صرف قرآن پر ہے .جو کہ کچھ احادیث پر انکی سختی کی دلیل ہے .اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے کہ آخر وہ احادیث کو کس پیمانے پر رکھتے ہیں ؟سب سے اہم بات ہے کہ اپنی بات کو غلط ماننے کے لئے ہر وقت تیار دکھائی دیتے ہیں .تمام تر مثبت پہلوؤں کے باوجود کچھ کمی سی ہے .شاید منطقیت انکی شخصیت پر بہت زیادہ بھاری ہے . غامدی .بہت اچھے ہیں .لیکن بہت عظیم نہیں ہیں .پاکستان کو اس وقت بہت عظیم لوگ درکار ہیں یا غامدی جیسے بہت اچھے علمی لوگوں کی کثیر تعداد درکار ہے

Source:

جاوید احمد غامدی کے افکار،نظریات اور شخصیت کا تجزیہ :ثاقب ملک

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.