دیوبند تحریک اور سعودی غلامی – عامر حسینی
اگر دیوبند ایک تحریک تھی تو پھر اس کی سیاسی مین سٹریم لہر سامراج دشمن، سرمایہ دار مخالف، سیکولر قوم پرستی پہ مشتمل تھی اور دیوبند کے اندر سے جو تکفیری، کمیونل لہریں و تحریکیں برآمد ہوئیں وہ مین سٹریم نہیں تھیں
دیوبند تحریک پہ وھابی تحریک یا اس کے محمد بن عبدالوھاب نجدی کے نظریات سے متاثر ہونے کا الزام لگتا ہے تو اس الزام کی کم از کم دیوبند کے اکابرین نے تردید کی تھی اور اس کا ایک بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے 1920ء میں تحریک خلافت کا ساتھ دیا ترک خلافت کے مقابلے میں چلنے والی وھابی تحریک کا ساتھ نہیں دیا بلکہ جمعیت علمائے ہند کے دوسرے مرکزی صدر حسین احمد مدنی نے تو رد وھابیت پر ایک ضغیم کتاب لکھی
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ مدارس کی قیادت کا سعودی عرب بارے کیا موقف ان کے اکابرین کی سوچ اور فکر سے ملتا ہے؟ کیا محمد بن عبدالوھاب کو وہ اب بھی مثل خوارج خیال کرتے ہیں؟ کیا ان کی سیاست آج بھی سامراج دشمن، سرمایہ دار مخالف اور سیکولر قوم پرستی پہ مبنی ہے؟ اس کا جواب آپ سب جانتے ہیں