سعودی شیعہ – از ترکی الدخیل – العربیہ

112 111

ایڈیٹر نوٹ : ہم ترکی الدخیل کے اس کالم سے باوجود اختلاف ان کی غیر فرقہ وارانہ روش کو سراہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی سعودی شیعہ مسلمانوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہوے ان کے جائز حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے –

جہاں ہم تهران میں سعودی سفارت خانے کو آگ لگانے کی مذمت کرتے ہیں ، وہاں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں شیعہ سعودی ہم وطنوں کو تہہ دل سے سلام پیش کروں جنہوں نے ایسی کارروائیوں کو مسترد کردیا، اور اپنے وطن کی صف میں کھڑے رہے۔ وہ وطن جس کی سرزمین ان کے اور ان کے آباؤ اجداد کے پسینے سے سیراب ہوئی۔

بعض تنگ نظر گروہ کوشش کرتے ہیں کہ سیاسی واقعات کو ہمیشہ فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جائے- 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد تکفیری گروہ نے شیعہ سنی فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی اور سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کو اپنی نفرت کا نشانہ بنانا چاہا جب کہ وہ معاشروں کا حقیقی حصہ ہیں اور اپنے ملکوں اور اداروں کی ترقی میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔

ہم اپنے آپ سے ایک اہم سوال کیوں نہیں پوچھتے “کہ مملکت سعودی عرب اپنی اس نئی صورت میں شاہ عبدالعزیز کے ہاتھوں تاسیس کے بعد تقریبا سو سالوں سے موجود ہے،،، تو پھر یہ فرقہ وارانہ لڑائی خمینی کے انقلاب کے بعد ہی کیوں بھڑکی ہے”

ہم سنیوں اور شیعوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں جانتے تھے۔ صرف ایک شناخت ہوتی تھی “ہم سعودی ہیں”۔ اللہ نے ہمارے وطن پر احسان فرمایا کہ ہمیں مہذب شیعہ افراد کا مجموعہ عطا کیا، جن کی ُاجلی تاریخ ان کے معاشرے اور قیادت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یقینا یہ شیعہ محب وطن ہی ہیں جو اپنے ملک کو لاحق ہونے والے ہر ضرر کا دفاع میڈیا اور گفتگو کے ہر پلیٹ فارم کے ذریعے کرتے ہیں۔ اسلام میں سنی اور شیعہ مساوی ہیں اور حج کے موقع پر سنی، شیعہ مسلمان مل کر اسلامی وحدت کی علامت ہیں

اس سلسلے میں سعودی شیعہ شہری محمد رضا نصر اللہ کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے ایرانی مداخلت کو ٹھوکر مارتے ہوئے طویل عرصے سے مطالبہ کیا کہ عراق میں نجف کی زیارت کی جائے، کیوں کہ عرب شیعوں کا سر چشمہ مدینہ، نجف اور کربلا ہے ایران نہیں

ساتھ ہی انہوں نے سعودی امور میں ایرانی مداخلت کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ محمد رضا نے تمام عرب شیعوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا

اسی طرح وہ کالم جو محمد محفوظ نے کچھ عرصہ قبل عرب شیعوں اور ان کے ملکوں کے حکمرانوں کے لیے لکھا تھا۔ اس میں عمومی خطاب کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ وہ خود کو ایران کے پیچھے نہ گھسیٹیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کی شخصیت جعفر الشایب اور دیگر بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے روشن نقطہ ہائے نظر کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے جگہ کم پڑ جائے گی۔ 8 نومبر 2014 کو “الدالوہ” کے واقعے کے بعد (دالوہ نامی سعودی گاؤں میں ایک شیعہ مسجد اور امام بارگاہ پر تکفیری گروہ کی فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک وزخمی ہو گئے تھے)، شیعہ دانش وروں کے ایک گروپ کی جانب سے بالغ نظری پر مبنی ایک بیان میں کہا گیا کہ وہ سعودی ہیں یہ کافی ہے، یہ ہی جامع شناخت ہے۔

گزشہ روز الساحل میگزین کے چیف ایڈیٹر الشیخ حبیب آل جمیع نے القطیف شہر سے ارسال کیے گئے ایک پیغام میں مجھے کہا کہ ” ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہر گز نہیں ماریں گے، ہم سعودی عرب میں شیعہ عناصر کو علاقائی محور اور بیرونی سیاسی ایجنڈے کے کھیل کا حصہ نہیں بننے دیں گے اور ریاست کی چھت تلے اپنے وطن میں ضم ہو جائیں گے”۔

القطیف کی بلدیہ کونسل کے سابق رکن انجینئر نبیہ آل ابراہیم اور العوامیہ قصبے کے ایک جوان کا کہنا ہے کہ “القطیف اور العوامیہ میں امن وامان کی افسوس ناک صورت حال نے شیعہ مذہبی قیادت کو حرکت میں آنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ اس خطرناک منظرنامے کو ختم کیا جا سکے”۔

یہ ہم سب کا وطن ہے، ہم سب بنا کسی تفریق کے سعودی ہیں، ہم ایرانی جارحین کے خلاف مزید شراکت اور یکساں موقف کی جانب گامزن ہیں۔

العربیہ کے جنرل منیجر ترکی الدخیل کا یہ کالم عرب روزنامہ ‘عکاظ’ میں شائع ہوا، جسے عبدالرحمن صدیقی نے عربی سے اردو کے قالب میں العربیہ کے لیے ڈھالا ہے

Source:

http://urdu.alarabiya.net/…/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-…

Comments

comments