شیخ نمر کے قتل پر سعودی پی آر مشین کی پھرتیاں – عامر حسینی
ایک امریکی ویب سائٹ نے
Lee Fang and Zahid Jialani
کا ایک تحقیقی آرٹیکل شایع کیا ہے اور اس آرٹیکل میں ان دونوں انوسٹی گیٹو صحافیوں نے تحقیق کے ساتھ بتایا ہے کہ جیسے ہی شیخ نمر باقر النمر کی پھانسی کے بعد سعودی عرب پر تنقید میں اضافے کے ساتھ ہی سعودی فنڈڈ پی آر میشن بھی تیزی سے متحرک ہوئی اور اس نے اس تنقید کا توڑ تلاش کرنا شروع کردیا
لی فانگ ایک انتہائی محقق اور جانا مانا امریکی صحافی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کام ہی اس بات پر کرتا ہے کہ کیسے مختلف انٹرسٹ گروپ اور دولت کیسے پبلک پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے ، لی فانگ وہ پہلا صحافی تھا جس نے ” امریکی ٹی پارٹی ” کو
Coch Brothers
کی جانب سے فنانسنگ کی خبر سب سے پہلے بریک کی تھی اور وہ امریکی اخبارات میں طمطراق سے شایع ہوتا ہے ، اس کا بلاگ تھنگ پراگریس
thinkprogress
بڑا مقبول ہوا ، زاہد جیلانی بھی اسی بلاگ پر کام کرنا شروع ہوا اور وہ بھی تحقیقی صحافت سے جڑا ہوا ہے
لی فانگ کا پروفائل اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے
https://theintercept.com/staff/leefang/
زاہد جیلانی کی پروفائل
https://theintercept.com/staff/zaidjilani/
یہ لکھتے ہیں
Saudi Arabia’s well-funded public relations apparatus moved quickly after Saturday’s explosive execution of Shiite political dissident Nimr al-Nimr to shape how the news is covered in the United States.
سعودی عرب کا اچھی طرح سے فنڈنگ کیا جانے والا آپریٹس شیعہ پولیٹکل اپوزیشن لیڈر شیخ باقر النمر کی پھانسی کے بعد تیزی سے حرکت میں آگیا تاکہ امریکہ میں ” خبروں ” کو اپنے مطابق شکل و صورت دی جائے
مزید یہ لکھا کہ
The Saudi side of the story is getting a particularly effective boost in the American media through pundits who are quoted justifying the execution, in many cases without mention of their funding or close affiliation with the Saudi Arabian government.
سعودی عرب کی طرف کی کہانی امریکی میڈیا میں موثر طریقے سے بوسٹ اپ کیا جارہا ہے ” صحافتی پنڈتوں ” کے زریعے جن کی نہ تو سعودی حکومت سے وابستگی اور فنڈنگ کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا ہے
اور وہ کہتے ہيں
Meanwhile, social media accounts affiliated with Saudi Arabia’s American lobbyists have pushed English-language infographics, tweets, and online videos to promote a narrative that reflects the interests of the Saudi regime.
سعودی عرب کے امریکی لابسٹ نے انگریزی زبان کے انفوگرافکس ، ٹوئٹس اور آن لائن ویڈیوز کو پھیلایا جو کہ سعودی رجیم کے مفادات کا عکاس کو فروغ دینے والا بیانیہ رکھتے ہیں
Nahal Toosi
کا ایک آرٹیکل
http://www.politico.eu/…/u-s-tries-to-calm-rising-saudi-ir…/
پر شایع ہوا
Politico
میں نہال طوسی نے سعودی عرب میں نمر کی پھانسی کے حوالے سے تین سورسز پیش کئے
ایک سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ڈھیلا ڈھالا رویہ
سعودی حکومت اور فہد ناظر
Fahad Nazer
کے بارے میں اس نے فقط یہ بتایا کہ وہ
JTG.inc
وابستہ ہے جبکہ وہ یہ بات جھپا گیا کہ وہ امریکہ میں موجود سعودی سفارت خانے میں بطور ” سیاسی تجزیہ نگار” وابستہ رہا اور اب وہ امریکی تھنک ٹینک گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ سے بطور فیلو وابستہ ہے اور اس تھنک ٹینک نے گزشتہ سال ہی یہ بتایا تھا کہ اسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مکمل فنڈنگ مل رہی ہے
دی واشنگٹن پوسٹ نے اپنے آرٹیکل
Theodore Karasik
کو کوٹ کرتے ہوئے اسے گلف امور کا تجزیہ کار بتایا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ کراسک ” العربیہ نیوز نیٹ ورک ” سے وابستہ ہے اور یہ شاہ فہد کے کزن ولید بن ابراہیم کی کمپنی ہے اور اسے سعودی و یو اے ای کے مالدار لوگ بھی سپورٹ کرتے ہیں اور یہ بہت واضح طور پر سعودی نواز میڈیا نیٹ ورک ہے
وال سٹریٹ جرنل نے
Joseph Braude
کو بطور حوالہ درج کرتے ہوئے شیخ نمر کو فرقہ پرست ، مذبی جنونی ، انتہا پسند ، دھشت گرد لکھا
لیکن اس دعوے کے حق میں بقول لی فانگ کوئی دلیل یا ثبوت نہ دیا جبکہ ” گاڑدین ” ” بی بی سی ” اور ” دی کرسچن مانٹیر ” جیسے میڈیا ادارے شیخ نمر کی سیاست کو عدم تشدد پر مبنی بتا چکے تھے
لی فانگ اور زاہد جیلانی جوزف براڈے کے بارے میں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ کن کن سعودی نواز جریدوں سے وابستہ ہے جس کا زکر وال سٹریٹ جرنل گول کرگیا
Braude is a contributor to several Saudi-owned media outlets, including Al Arabiya and Al Majalla, a magazine owned by a member of the Saudi royal family. Neither of these affiliations were disclosed in the Wall Street Journal editorial. (Braude was also convicted in 2004 of attempting to smuggle 4,000-year-old artifacts looted from the Iraqi National Museum after the fall of Baghdad into the United States.)
جوزف برڈے نے سعودی حکومت کی جانب سے شیخ نمر کو دھشت گرد قرار دئے جانے کا حوالہ اپنی بات کے ثبوت میں پیش کیا لیکن انٹرسپٹ کو ہیومن رائٹس واچ کے مڈل ایسٹ ڈویژن کی ایگزیگٹو ڈائریکٹر سارہ وٹسن نے بتایا تھا کہ
سعودی عرب کے قانون کے مطابق سعودی عرب کی حکومت پر تنقید کرنا یا سعودی بادشاہت پر تنقید بھی دھشت گردی کے زمرے میں شامل ہے
اور یہ بات وال سٹریٹ جرنل کا اداریہ یا جوزف براڈے گول کرگیا جبکہ سعودی عرب کی امریکہ میں لابسٹ کمپنیاں
Qorvis
اور
Targeted Victory
بھی پوری طرح سے اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں مشعول ہوئیں اور یہ
Alarabia Now
کے نام سے کام کررہی ہیں
اور اس نے سعودی عرب کا ایک سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ
Infographics KSA
سے مواد لیکر ٹوئٹس کئے اور نمر کے بارے میں سعودی میڈ پروپیگنڈا امریکی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لئے دینا شروع کیا
امریکی حکومت نے سعودی عرب کی جانب سے نمر کی پھانسی پر سعودی عرب کو قدرے نرم ردعمل کیوں دکھایا ، اس کی وجہ بیان کرتا ہوا لی فانگ ایک وجہ سعودیہ عرب کی اوبامہ انتطامیہ سے اربوں ڈالر کی اسلحہ ڈیل بھی بتاتا ہے وہ لکھتا ہے
The U.S. government is obviously not eager to alienate a government that President Obama has wooed with warm words and over $90 billion in arms sales. The diplomatic offensive by Saudi-financed flacks and media has provided some space for it to provide a muted response to the execution.
اور لی فانگ یہ بھی کہتا ہے کہ میڈیا میں جو سعودی فنانسنگ کی وجہ سے مرضی کی رائے بنائی گئی اس نے حکومت کو اس معاملے پر چپ سادھ لینے کا موقعہ فراہم کیا
آپ اس آرٹیکل کو اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں
https://theintercept.com/2016/01/04/saudi-pr-machine/
پاکستان کے اندر یہ جو ” تحریک دفاع حرمین شریفین ، پاکستان علماء کونسل ، جمعیت اہحدیث ، اہلسنت والجماعت دیوبندی ، جیسی تنطیمیں ہیں ، فیض اللہ خان ، رعایت اللہ فاروقی ، سبوخ سید ، سلیم صافی ، زاہد الراشدی کی طرح کے تجزیہ کار اور صحافی ہیں یہ بھی سعودی پی آر مشین کے کل پرزے ہیں اور سعودی سفارت خانہ پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھی اپنی پی آر شپ رکھتا ہے ، اس کے مقابلے میں پاکستان کے اندر ” ایرانی پی آر شپ ” بھی موجود ہے جیسا کہ لی فانگ کہتا ہے کہ
The execution led protestors in Shiite-run Iran to set fire to the Saudi Embassy in Tehran, precipitating a major diplomatic crisis between the two major powers already fighting proxy wars across the Middle East.