برصغیر میں توہین مذھب کے الزامات میں احمدیہ جماعت کا کردار – از عمار خان ناصر و رفیق

Liwa-e-ahmadiyya

بسا اوقات ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں – آج کل مسیحی، سنی صوفی اور شیعہ کے علاوہ احمدی حضرات بھی توہین مذھب کے قانون کا شکار ہیں اور عمومی طور پر تکفیری دیوبندی خوارج کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں

برصغیر میں توہین مذہب کے الزام نے مسلمان فرقوں میں اس لئے زور پکڑا کیونکہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی طرف سے ہندو اور مسیحی مذہب کے خلاف جارحانہ اور ناروا اسلوب میں تنقید اور مناظروں کا آغاز کیا گیا جس کے جواب میں دوسری طرف سے بھی توہین اسلام اور توہین رسول وغیرہ کا رویہ سامنے آیا اور اس قسم کے واقعات بہ تکرار رونما ہونا شروع ہوئے جس پر انگریز سرکار کو اس کی روک تھام کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرنا پڑی، ورنہ اس سے قبل ماضی کی صدیوں کی تاریخ میں ایسے محض اکا دکا واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ بعد ازاں مرزا صاحب کے بعض خلفا جیسا کہ مرزا بشر الدین محمود صاحب نے ان تمام مسلمانوں کو کافر اور خارج از اسلام کہنا شروع کر دیا جواحمدیہ عقائد کو درست تسلیم نہیں کرتے

توہین مذہب ا  ایک ہتھیار بنا جب مرزا غلام احمد صاحب نے ایک توہین مذھب مہم شروع کردی۔عیسایوں کو ویسے ہی مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے پیروکار کچھ زیادہ پسند نہی تھے۔ مرزا غلام احمد صاحب کی پیدا کردہ مذہبی منافرت کی وجہ سے بہت زیادہ دلآزار لٹریچر لکھا گیا  کافی گالیاں دی۔۔چور، سخت دل، خبیث، نالایق۔۔کہا ریوں کا مذہب- بدتریں مذہب ہے ۔۔ پنڈتوں کو گرمایا۔۔ ان کو جاہل اور بے نصیب کہا…رد عمل میں ہر طرف سے مناظرے کے نام پر گالی گلوچ کا کلچر عام ہوگیا۔۔آریوں اور ہندو پنڈتوں کی طرف سے جوابی بیانے بھی آئے
اس بات کو گاندھی جی کے ایک بیان سے منسوب کیا جاتا ہے کہ اس فتنے کا آغاز مرزای مولویوں نے کیا ہے جن نے لٹریچر میں ہندو مذہب کو نشانہ طنز بنایا۔۔گالیاں دی۔۔۔اس پر بعض نادان لوگوں نے انتقا م کے لیے اسلام کی توہین شروع کردی – ینگ انڈیا ۹ جون ۱۹۴۶ ستمبر

Comment by an Ahmadi brother

Snip20160109_406

Comments

comments

Latest Comments