شیخ باقرالنمر کی سزاۓ موت – جمیل اصغر جامی
سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ باقر النمر کی سزاۓ موت سعودی نظام انصاف کی ایک بھیانک مثال ہے۔ حیرت ہے جو لوگ بنگلہ دیش میں حسنیہ واجد اور مصر میں سیسی پر فرعونیت کا الزام لگا رہے تھے، وہ اس سزاۓ موت کو عین اسلامی قرار دے رہے ہیں
مسلک سے قطع نظر یہ بات سب پر واضح ہے کہ سعودی عرب میں شاہی خاندان کی اجاراداریوں کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو ’’اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف بغاوت‘‘ کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب بہت سے سُنی علما کو بھی اسی طرح سزاۓ موت دے چکا ہے۔ نہیں معلوم کتنے لوگ سعودی آمریت کی خلاف جدوجہد کی پاداش میں پس دیوارِ زنداں تختہ دار پر جھول گئے
جو لوگ اس سزا کا دفاع کر رہے ہیں، اُن کے سارے کے سارے دلائل شیخ حسینہ اور سیسی کے حق میں بھی قابل استعمال ہیں۔ مثلاً سب سے نمایاں دلیل ہی کو لے لیجیے: ’’سعودی عرب کا اپنا ایک نظام ہے، ایک قانون ہے جس کے تحت انھوں نے ایک ایسے شخص کو سزا دی ہے جو حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسا رہا تھا‘‘۔ بھیا اگر یہی دلیل ہے تو یہ تو مصر میں الاخوان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگر مصر میں سیسی غیر جمہوری صدر ہے تو کیا شاہی خاندان جمہوری حکمران ہے؟ آخر بنگلہ دیش کا بھی ایک اپنا نظام ہے اور قانون ہے۔ یہ تو ایک مضحکہ خیز سی بات ہے۔ جبر اور ظلم کا کوئی مسلک یا مذہب نہیں ہوتا۔ جبر اور ظلم جہاں ہو، قابل مذمت ہے
آخر میں اپنے اُن دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا جو سعودی شاہی خاندان اور اسلام کو مترادف قرار دیتے ہیں کہ شیخ باقر النمر کا موقف بہت سے اُن سُنی علما کا بھی موقف رہا ہے جو موت کی گھاٹ اتار دیئے گئے۔ موقف کے حوالے سے اس میں سنی یا شیعہ کی کوئی تفریق نہیں۔ باقی آخر میں اشارتاً کہوں گا کہ ذرا تاریخ کا مطالعہ کریں اور ڈھونڈیں کہ امام حرم مدنی شیخ عبدالرحمن بن علی الحذیفی کو کس جرم میں پابند سلاسل کیا گیا؟ کس کے کہنے پر کیا گیا؟ کس نے کیا؟ پھر کیوں رہا کرنا پڑا؟ اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ تھوڑۓ کہے کو زیادہ جانیے