شیخ نمر باقر النمر – ایک مرد آزاد کی موت یا ایرانی ایجنٹ کی؟ – عامر حسینی

1295_1685564654994830_3785666685159196611_n

عباس شمائل زیدی نے شیخ باقر النمر کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہی زبردست جملہ کہا
A Man with Courage, who spat on the faces of Al Saud and left this world with pride and honour!
ایک بہادر شخص جس نے آل سعود کے چہروں پر تھوک دیا اور اس دنیا سے عزت و وقار کے ساتھ رخصت ہوا
اور پھر شیخ نمر باقر کی تقریر سے ایک جملہ لیکر درج کیا
“We either live in this land as free men, or be killed and be buried in this land as pious men”
اور واقعی ایسا ہی ہوا وہ آزادی کے ساتھ جینے کی جدوجہد کرتا ہوا ایک پاکباز آدمی کی طرح اپنی دھرتی میں دفن ہوگیا
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز سرکاری ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور انہوں نے 47 افراد کے سر قلم کئے جانے کی خبر سعودی عرب کی عوام کو دی اور یہ بھی بتایا کہ اس میں شیخ نمر باقر النمر بھی شامل ہیں – ان 47 افراد پر دھشت گردی ، غداری اور دیگر قسم کے الزامات تھے اور مفتی اعظم سعودی عرب کے بقول ان افراد کے ساتھ سعودی عرب نے یہ بھلائی کی کہ ان کا سر قلم کردیا تاکہ یہ مزید گناہ نہ کرسکیں
شیخ نمر باقر النمر سعودی عرب کے مشرقی صوبے عوامیہ سے تعلق رکھتے تھے ، اس صوبے کا دارالخلافہ ” دمام ” ہے اور اس صوبے کا واحد سمندری راستہ خلیج فارس سے ملتا ہے جہاں سے ایران سے اس کی سرحد ملتی ہے جبکہ پانچ ملکوں سے اسی صوبے کی زمینی سرحد ملتی ہے اور وہ ہیں عراق ، کویت ، اومان ، متحدہ عرب امارات اور قطر – یہیں پہ ” جسر فہد الملک ” ہے پلوں کا ایک سلسلہ جس سے بحرین اور عوامیہ کے درمیان لنک تعمیر کیا گیا ہے اور یہیں پر کنگ فہد انٹرنیشنل ائر پورٹ بھی ہے ، عوامیہ صوبے کی ایک اور انتہائی اہمیت یہ ہے کہ اسی صوبے میں سعودی عرب کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں اور یہیں پر سعودی عرب کی کیمیکل انڈسٹری بھی موجود ہے جو دنیا کی چند بڑی انڈسٹریز میں شمار ہوتی ہے – تو یہ صوبہ سٹریٹجک اور سعودی عرب کی مالیاتی ریڑھ کی ہڈی کہا جاسکتا ہے –
سعودی عرب کے حاکم اس صوبے میں اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ شیعہ آبادی کو خیال کرتے ہیں جو اس صوبے کی اکثریتی آبادی ہے – سعودی عرب کی تشکیل سے پہلے یہ علاقہ ” الاحصاء ” کہلاتا تھا اور اس میں بحرین تک کا علاقہ شامل تھا – اور شیعہ آبادی کا مرکز اور ان کی سرگرمیوں کا ہیڈ کوارٹر ” القطیف ” ہے اور یہ سعودی کیمکل انڈسٹری ، خلیج فارس اور آئل انڈسٹری کے درمیان گھرا ہوا ہے – شعیہ سعودی آبادی کا 15 فیصد ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سعودی باشندوں میں 20 ملین باشندے شیعہ مذھب رکھتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد مدینہ المنورہ اور مکّہ میں بھی آباد ہے – آل سعود کے جد ابن سعود جس نے سعودی عرب کی بنیاد رکھی نے 1913ء میں الاحصاء پر قبضہ کیا اور اس کا نام ” الشرقیہ عوامیہ ” رکھ دیا –یہ قبضہ حجاز ، نجد اور یمن کے کچھ حصّوں پر قبضوں کی طرح ” پرامن قبضہ ” نہیں تھا بلکہ یہاں بھی بڑے پیمانے پر قبل و غارت گری ، لوٹ مار ہوئی ، عورتوں سے عصمت دری کی گئی ، قطیف کو جلادیا گیا ، شیعہ اور مذاہب اربعہ (سنّی مسالک اربعہ ) کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرلیا گيا اور وہاں پر ” وہابی علماء ” مسلط کردئے گئے اور سوائے ” وہابیت ” کے باقی سب مسالک پر پابندی لگادی گئی
سعودی عرب کے مشرقی صوبے عوامیہ اور اس کے مرکز ” قطیف ” میں ” سعودی عرب ” کے خلاف ہمیشہ سے مزاحمتی تحریک موجود رہی ہے اور یہاں کے لوگوں میں سعودی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ بھی موجود رہا ہے اور یہاں پر ” آل- سعود ” کے خلاف تحریک ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب آنے سے بہت پہلے موجود تھی ، اس تحریک مزاحمت کا ٹھیک ٹھیک اظہار 1978ء میں ہوا جب قطیف میں 60 ہزار سے زائد شہریوں نے سعودی حکومت کے خاف احتجاجی مظاہرے سے تحریک کا آغاز کردیا ، اور اس تحریک کا بنیادی مطالبہ سعودی عرب میں بادشاہت کا خاتمہ ، پارلیمانی ڈیموکریسی کا احیاء اور مشرقی صوبے کی شہری آبادی کے حقوق پر لگی پابندیوں کو اٹھانا تھا ، یہ احتجاج جب پھیلنے لگا تو شاہ فہد نے مشرقی صوبے کی احتجاجی عوام سے کوئی مذاکرات کرنے کی بجائے وہاں پر سعودی افواج کو بھجوادیا ، زبردست کریک ڈاؤن ہوا ، بڑے پیمانے پر گرفتایاں ہوئیں ، ہلاکتیں بھی ہوئیں اور وقتی طور پر سیاسی مزاحمتی تحریک دب گئی اور اس کی جگہ پرتشدد اور مسلح مزاحمت نے لے لی –
ایک تنظیم ” الثورۃ االسلامیہ ” سامنے آئی اور ایک ” حزب الحجاز ” سامنے آئی ، ان کا مرکز کربلاء عراق تھا اور عراقی شیعہ مراجع المدرسی شیرازی اس کے دماغ سمجھے جارہے تھے لیکن 80ء کی دھائی کے پہلے عشرے میں 86ء کے قریب کنگ فہد نے ریفارمسٹ شیعہ لیڈروں سے مذاکرات شروع کئے اور شیخ سافر کی قیادت میں ایک گروہ سامنے آیا جس نے سعودی حکمرانون اور شیعہ آبادی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے راستے پر سفر شروع کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہا ، اس دوران مشرقی صوبے کے اندر ” بادشاہت کے خلاف ، انسانی حقوق کی بازیابی اور جمہوریت کے لئے تحریک میں شدت آگئی اور اس مرتبہ مشرقی صوبے عوامیہ کے اندر اس تحریک کی قیادت ایک اور شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھ میں تھی – شیخ باقر النمر 2000ء میں ” بہار عرب ” تحریک کے تناظر میں سعودی مشرقی صوبے میں جاری ہونے والی ” انتفاضہ ” کے سب سے مقبول لیڈر ثابت ہوئے
شیخ باقر النمر نے اپنی تعلیم ایران ، شام اور عراق میں مکمل کی اور وہ آیت اللہ محمد حسین شیرازی اور پھر آیت اللہ محمد تقی المدرسی کی تقلید کرتے رہے ، یہ دونوں شیعہ عالم ایران اور عراق میں چلنے والی شیعہ تحریکوں کے اہم ترین رہنماؤں میں سے تھے اور انہوں نے عراق اور ایران کی شیعی سیاسی نظریات میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا – اور آیت اللہ محمد حسین شیرازی نے ” فقہاء اسلامی کی حکومت ” کا نظریہ پیش کیا تھا جو کہ آیت اللہ خمینی کے ” ولایت فقیہ” سے ملتا جلتا تھا لیکن اس میں فقہاء ہی پارلیمنٹ تشکیل دیتے اور ان کا انتخاب عوام کرتے –
شیخ باقر النمر بھی سعودی عرب میں پارلیمانی جمہوریت اور فقہاء کی سینٹ سے ملکر بننے والے ایک مخلوط سیاسی نظام کی حمایت کرتے تھے ، وہ سعودی بادشاہت کے خاتمے ، اسلامی جمہوریہ حجاز کی تشکیل کے قائل تھے اور مشرقی صوبے کے عوام کے سیاسی ، مذھبی ، ثقافتی ، معاشی آزادی کے علمبردار تھے – وہ سعودی عرب کو امریکی سامراجی بلاک سے واپس لانے کے خواہش مند تھے – شیخ باقر النمر عراق ، ایران ، شام اور ترکی میں شامل ” کرد” علاقوں کو ملاکر ” آزاد خودمختار کرد ریاست ” کے قیام کی حمایت کرتے تھے – اپنے نظریات کے اعتبار سے ہم ان کو ” یوٹوپیائی اسلامی سوشلسٹ ” کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ ” تعلیم ، صحت ، روزگار ، رہائش سمیت سماجی سروسز کی فراہمی کو ریاست کی زمہ داری قرار دیتے تھے
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ باقر النمر ان شیعہ عرب میں شامل تھے جنھوں نے ” انقلاب ایران ” کو آزادی کی راہ میں ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا تھا اور وہ اس سے انسپائر ہوئے تھے لیکن کیا شیخ نمر باقر النمر ایران کی ایک ” پراکسی ” تھے ؟ کیا وہ ایک مذھبی جنونی بنیاد پرست دھشت گرد تھے ؟ کیا وہ ایک تکفیری فاشسٹ ملّا تھے ؟ کیا وہ سیاست میں ” انفرادی دھشت گردی کے قائل تھے ؟ کیا سعودی عرب میں ” انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی جو تحریک موجود ہے وہ اس کا حصّہ نہیں تھے ؟
یہ سوالات اس لئے اٹھائے جانے ضروری ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے دانشور رضاکار ، بائیں بازو کے تجزیہ کار اور لبرل دانشور موجود ہیں جو ” شیخ باقر النمر ” کی پھانسی پر خاموش ہیں اور اس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہیں – بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں اور بڑے ” مہان انسانی حقوق کے علمبردار ” موجود ہیں جن کے ” فوجی عدالتوں کے قیام اور دھشت گردوں کے وہاں ٹرائل و پھانسیوں ” پر تنقیدی بیانات ، پریس کانفرنسز اور مضامین پاکستانی میڈیا میں وقفے وقفے سے شایع ہوتے ہم دیکھتے رہتے ہیں لیکن ” شیخ باقر النمر ” کے معاملے پر ان کے ہاں خاموشی چھائی رہی –
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والے سعودی بلاگرز ، انسانی حقوق کے رضاکاروں کو قید کئے جانے اور سزائے سنانے پر باقاعدہ ایک احتجاجی مہم چلائی اور پیٹشن بھی سائن کروائیں مگر ” شیخ باقر النمر ” کے معاملے پر یہ سب لوگ خاموش رہے – یہ واضح طور پر ایک امتیازی رویہ ہے ، اس سے ” تعصب ” کی بو آتی ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ” سعودی رجیم ” کی دولت اور چمک ان کو ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے
میں شیخ باقر النمر کے تصور ریاست سے قطعی اتفاق نہیں کرتا اور نہ ہی میں سعودی عرب کو ایرانی یا عراقی ماڈل کی ریاست بنانے کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں ، میں سوشلسٹ ہوں اور مرے نزدیک منصفانہ ریاست سوشلسٹ ریاست ہے اور میں کسی بھی سماج کے لئے اسی کو مثالی ریاست خیال کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں سعودی عرب کے عوام چاہے وہ حجاز ميں ہوں ، یا مشرقی صوبے عوامیہ میں یا نجد میں یا وہ سعودی یمن میں ان کے حقوق کی بازیابی کا حامی ہوں ، شیخ باقر مشرقی صوبے کے اندر عوامی حقوق کی جنگ لڑرہے تھے ، وہ نہ تو ایران کے آلہ کار تھے نہ عراق کے اور نہ ہی وہ اپنے عوام کے غدار تھے بلکہ ایک ” مجاہد ” تھے – حریت پسند تھے اور انسانی ضمیر کی آواز تھے –
ان کی پھانسی ایک ظلم عظیم ہے جس نے آل سعود کے کالے کارناموں میں ایک اور سیاہ کارنامے کا اضافہ کیا ہے – ان کو ریاستی طور پر قتل کیا گیا ہے – وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے قائل تھے اور وہ سیاسی مزاحمتی راستے پر ” قاتل ” نہیں بلکہ ” مقتول ” بننا سند کرتے تھے – اپنی گرفتاری سے پہلے انھوں نے ایک تقریر قطیف کی مسجد مین کی تھی جس کا اردو ترجمہ میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کررہا ہوں تاکہ ان کے خیالات کو سمجھنے میں مدد مل سکے
ہم کیا چاہتے ہیں – شیخ باقر النمر
الحمد للہ رب العالمین والصلوات والسلام علی سید المرسلین و علی عترتہ اہل بیتہ وسلم
اما بعدہ !
گزشتہ سو سالوں سے ہمیں ظلم ، جور ، ناانصافی ، ڈرائے دھمکائے جانے کا سامنا ہے – آپ جیسے ہی اس دنیا میں آتے ہیں اسی وقت سے اس ظلم ، جور ، تعدی ، ناانصافی اور ڈرائے دھمکائے جانے کے ساتھ بدسلوکی آپ کا مقدر بنادی جاتی ہے – ہم ڈر اور خوف کے ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں اور یہ خوف اتنا ہوتا ہے کہ ہم دیواروں سے بھی خوف کھاتے ہیں
ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس ظلم ، جور ، تعدی ، ناانصافی اور خوف سے آشنا نہ ہو جس کا ہمیں اس ملک میں سامنا ہے
مری عمر 55 سال ہوچکی یعنی میں عمر رواں کی نصف صدی سے زیادہ سفر کرچکا لیکن میں اپنی پیدائش سے لیکر آج تک اس ملک میں کبھی خود کو محفوظ و مامون خیال نہیں کرسکا
آپ پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی الزام ، دشنام ، تہمت دھر دی جاتی ہے
آپ یہاں ہمیشہ خطرات میں گھرے ہوئے رہتے ہیں
جب مجھے گرفتار کرلیا گیا تو اس صوبے (عوامیہ ) کے سٹیٹ سیکورٹی افسر نے مرے سامنے برملا کہا
تم جنتے بھی شیعہ ہو لازم ہے کہ تمہیں قتل کردیا جائے
یہ ہے ان کا فلسفہ زندگی ، یہ ہے ان کی منطق
یہ بات کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ ہمارے صوبے کا سٹیٹ سیکورٹی افسر کہہ رہا ہے
وہ ہر وقت بڑے قتل عام کا منصوبہ بناتے رہتے ہیں
ہم یہاں موجود ہیں ، مرحبا ! آئے بڑے شوق سے ہمیں قتل کیجئے
اپنی اقدار کے دفاع کے لئے ہمارے خون کا ںذرانہ تو بہت ہی ہلکی قیمت ہے جو ہم چکانے کے لئے تیار ہیں
ہم موت سے ڈورنے والے لوگ نہیں ہیں ، ہم تو ” شہادت ” کی آرزو رکھنے والے لوگ ہیں
کچھ ماہ پہلے اس صوبے کے نوجوانوں کے دلوں میں ” عزت و تکریم ” کی آگ روشن ہوگئی – انہوں نے مشعال حریت فروزاں کی – لوگ گلیوں میں نکل آئے اور انہوں نے اصلاحات ، عزت نفس کی بحالی اور آزادی کا مطالبہ کیا
ان میں وہ لوگ بھی جنھوں نے 16 سال قید کاٹی تھی
جب گلف کونسل کی افواج نے سعودی افواج کی قیادت میں بحرین پر دھاوا بولا تو اس وقت یہاں پر جو احتجاج شروع ہوا تھا تو زیادہ سے زیادہ گرفتاریاں اور تشدد ہوا تھا ، تو کس نے اس کشیدگی اور تناؤ کو جنم دیا تھا ؟
عوامیہ میں کشیدگی و تناؤ سعودی حکومت نے پیدا کیا نہ کہ عوام نے
ہم پرانے اور نئے قیدیوں کا دفاع جاری رکھیں گے
ہم ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے
چاہے ہمارا خون بہادیا جائے ، ہم پرواہ نہیں کریں گے
ہم بحرین کے ساتھ یک جہتی جاری رکھیں گے
تحرین کی عوام ہماری اپنی ہے ، ہم ان کے اہل ہیں – اگر بحرین کے اندر سعودی قیادت میں فوجی مداخلت نہ بھی ہوتی تب بھی ہم بحرین کی عوامی جدوجہد سے اظہار یک جہتی جاری رکھتے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارا فرض تھا
ہم ان کو کیسے تنہا چھوڑ دیں جبکہ ان پر سعودی افواج ظلم کررہی ہوں ، ان کا قتل کررہی ہوں ، ان کی عورتوں سے بدسلوکی کی جاتی ہو اور ان کی دولت کی لوٹ مار کی جارہی ہو
سعودی حکومت کہتی ہے کہ ہم ایک غیر ملک کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں ،وہ ہم پر تشدد کے جواز کے لئے یہ غلط الزام تراشتی ہے اور غیر ملک سے اکثر ان کی مراد ایران ہوتا ہے
میں اس الزام کا جواب تاریخ سے دوں گا
سال تھا 1978ء کا جب عوامیہ صوبے کے لوگ اپنی عزت نفس کی بحالی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھا اور اس وقت سعودی فوج قطیف پر ٹوٹ پڑی تھی
یہ انتفاضہ ، آزادی کی تحریک دسمبر 1978ء میں شروع ہوئی تھی جب شاہ ایران کی حکومت ابھی قائم تھی ، ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا اور یہ اس انقلاب کے آنے سے چار ماہ پہلے کا قصّہ تھا
کیا ہوا تھا ، لوگ امام حسین کا تعزیہ کا جلوس لیکر جارہے تھے ، یہ کوئی سیاسی یا دفاعی معاملہ نہ تھا لیکن سیکورٹی فورسز نے ان پر حملہ کردیا اور اس طرح سے ایک ” محاز آرائی ” شروع کردی گئی –لوگ اپنی حرمت ، عقیدے اور عزت کا دفاع کررہے تھے ، اس رات انہوں نے 100 افراد پکڑے اور یہ سب ” انقلاب ایران ” سے بہت پہلے ، شاہ ایران کی حکومت کے گرنے سے چار ماہ پہلے ہوا تھا تو وہ کیسے ” بیرونی مداخلت کا الزام دے سکتے ہیں ؟
آپ کو اپنے اوپر خود شرم آنی چاہئیے
سعودی حکومت کہتی ہے
اکڑ احتجاج ختم نہ ہوا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا
آپ 40 / 50 سالوں سے کمزور و ضعیف لوگوں کے ساتھ انہی آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہے ہیں
ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی بیرونی ملک آپ کے یہاں مداخلت کررہا ہے تو اس سانپ کا سر آپ اٹھنے سے پہلے کچل کیوں نہیں دیتے ؟ اگر یہ سب ایران کررہا ہے تو جائیں ، اس پر حملہ کردیں
 
ہمارا ایران یا کسی اور ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہم اپنی لڑائی خود لڑرہے ہیں ، ہم اپنی اقدار سے جڑے ہیں (جو کسی سے مستعار نہیں لی ہوئیں ) ہم ان کا دفاع کریں گے – اگر چہ سرکاری میڈیا ہمارے موقف کو کتنا ہی مسخ کیوں نہ کرے
یہ دفاع ہم تشدد سے نہیں بلکہ اپنے عزم ، عقیدے ، صبر و تحمل سے کریں گے اور انہی سے آپ کو شکست دیں گے ، ناانصافی کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور ہم سرنڈر نہیں کریں گے
زیادہ سے زیادہ سے زیادہ آپ ہمیں ماردیں گے
ہم اللہ کی راہ میں شہادت پانے کو خوش آمدید کہیں گے
ایک آدمی جب مرجاتا ہے تو زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ حقیقی زندگی کا آغاز تو تب ہی ہوتا ہے یا تو ہم اس دھرتی پر ” فرد آزاد ” کی طرح رہیں گے یا ایک مرد پاکباز کی طرح مرجائیں گے اور اس دھرتی میں ہی ایک پاکباز کی طرح دفن ہوں گے ، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے
سعودی ویکیلیکس میں ایک امریکی سفارتی کیبل شیخ نمر الباقر سے ملاقاتوں کی تفصیل پر مشتمل ہے اور ان کیبلز کو اگر آپ پڑھیں تو آپ کو صاف معلوم ہوگا کہ شیخ باقر نمر النمر کو ” ایرانی ایجنٹ ” کہلوانے یا ” ایران نواز ملّا ” کہلانے پر سخت اعتراض تھا اور اس کے ایران ، سعودی عرب ، امریکہ بارے کیا خیالات تھے اس کا اندازہ بھی اس کیبل کو پڑھ کر کیا جاسکتا ہے ، کیبل کا ایڈریس یہ ہے
To listen speech of Sheikh Baqir Al-Nimr visit this link : https://www.youtube.com/watch?v=8bRh_-CkBgE
To read more about Sheikh please visit link : https://en.wikipedia.org/wiki/Nimr_…

Comments

comments