پاکستان میں تکفیری سلفی دیوبندی گروہ داعش کے بارے میں بی بی سی اردو کی رپورٹ – وسعت الله خان
کیا پاکستان میں دولتِ اسلامیہ پاؤں جما رہی ہے ؟
یہ سیدھا سیدھا سوال اگر وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے پوچھیں تو شاید وہ اس بار چڑ جائیں کیونکہ گذشتہ فروری سے آج تک ان کا ایک ہی جواب ہے ۔دولتِ اسلامیہ کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور نہ ہی قائم ہونے دیا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کا اس ملک پر سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے۔مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو دولتِ اسلامیہ نہیں ہے البتہ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوز پر تشویش ضرور ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے بھی گذشتہ روز یہی بات زور دے کر کہی کہ پاکستان میں دولتِ اسلامیہ کا سایہ تک نہیں اور اگر ایسا ہوا تو ہمارے قومی ادارے ان سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
جب اتنی معتبر وفاقی ہستیاں تواتر سے دولتِ اسلامیہ کے مقامی وجود سے انکاری ہوں تو ان کی بات پر یقین کر لینا چاہئے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عوام تو رہے ایک طرف خود صوبائی ادارے اس وفاقی دعوے کو ہضم کرنے پر آمادہ نہیں۔
سالِ گذشتہ خود دولتِ اسلامیہ کی ویب سائٹس پر یہ ’نیوز بریک‘ ہوئی کہ دولتِ اسلامیہ خراسان کا وجود عمل میں آ چکا ہے اور اس بابت پاکستان کے لیے دولتِ اسلامیہ کا کمانڈر سعید خان کو بنایا گیا ہے۔
اسی دوران دولتِ اسلامیہ کے ذرائع نے یہ دعوی بھی کیا کہ عراق میں ایک کیمپ پاکستانی مجاہدین کے لیے بھی قائم کیا گیا ہے۔
گذشتہ برس بلوچستان کے محکمِۂ داخلہ نے یہ رپورٹ جاری کی کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی کے تعاون سے دولتِ اسلامیہ کا مقامی ڈھانچہ وجود میں آ چکا ہے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کو بھرتی کا کام زوروں پر ہے۔
بلوچستان کے وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے اس رپورٹ کے اجرا کی تصدیق کی مگر چند روز بعد ہی اوپر کے دباؤ پر یہ رپورٹ دبا دی گئی۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے ایک ہفتے کے اندر اندر لال مسجد کے تحت جامعہ حفصہ کی درجن بھر نقاب پوش طالبات کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ ابوبکر البغدادی کے نام پر بیعت کرتے ہوئے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دے رہی ہیں۔
لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز کے متنازعہ بیانات پر مقدمات بھی درج ہوئے اور ایک عدالت نے انھیں اشتہاری ملزم بھی قرار دے دیا مگر یہ بات شاید وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کے علم میں آتے آتے رہ گئی۔
ورنہ چوہدری صاحب کاہے کو آج تک ڈٹے رہتے کہ مولانا عزیز اگر کوئی جرم کریں گے تب ہی تو ہم پکڑیں گے۔ہم انھیں اس لیے بھی حراست میں نہیں لینا چاہتے کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے بگڑ سکتے ہیں۔
سندھ کے محکمہ پولیس کی اعلی قیادت نے ایک سے زائد بار نشاندہی کی کہ دہشت گردی کے فلاں فلاں واقعہ کے پیچھے دولتِ اسلامیہ کے نظریے سے متاثر مقامی گروہوں کا ہاتھ ہے۔سانحہ صفورہ گوٹھ کے ملزموں کو بھی اسی کیٹگری میں رکھا گیا۔
کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے اعلی اہلکار عادل مسعود بٹ اور ایک اور تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ کو بھی دولتِ اسلامیہ سے تعلق کے شبہے میں حراست میں لیا گیا۔
ایسی خواتین کے گروہ کا بھی پتہ لگایا گیا جو رابطہ کاری اور چندہ جمع کرنے کے مشن پر تھیں۔ان میں پولیس رپورٹ کے مطابق سانحہ صفورہ کے مرکزی ملزم سعد عزیز اور سہولت کار عادل مسعود بٹ کی بیگمات بھی شامل ہیں۔
پنجاب پولیس نے تین روز قبل سیالکوٹ سے دولتِ اسلامیہ کی بیعت کرنے والے آٹھ نوجوانوں کی گرفتاری کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیٹ ورک کئی اضلاع میں پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس بابت مختلف طریقوں سے چندہ بھی جمع کیا جا رہا ہے۔
صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزم شام میں مقیم ماسٹر مائنڈ امیر معاویہ سے سکائپ اور دیگر طریقوں سے رابطے میں تھے۔
پاکستانی سرحد سے متصل افغان صوبے ننگر ہار اور کنر میں دولتِ اسلامیہ کا نفوز گذشتہ ایک برس میں تیزی سے پھیلا اور اب تو ننگر ہار میں دولتِ اسلامیہ کے تحت ریڈیو خلافت کی ایف ایم نشریات پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی سنی جا سکتی ہیں۔
کل ہی پنجاب پولیس نے یہ بھی تصدیق کی کہ لاہور کی تین خواتین جن کی گمشدگی کے بارے میں چند روز پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔اب پتہ چلا ہے کہ اپنے بچوں سمیت شام منتقل ہو چکی ہیں۔
ترکی کے حکام نے تین روز قبل بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کے تین سرکردہ ارکان کو حراست میں لیا گیا۔ان میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔
اس تناظر میں یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ صوبائی اہلکاروں کے برعکس وفاقی اہلکار پاکستان میں دولتِ اسلامیہ کے وجود سے یکسر انکاری کیوں ہیں؟
اب تو یہی کسر رہ گئی ہے کہ دولتِ اسلامیہ اسلام آباد ، لاہور ، کوئٹہ یا کراچی کے کسی پلازے میں ایک دفتر کرائے پر لے اور اس پر دولتِ اسلامیہ پاکستان شاخ کا بورڈ لگا دے اور اگر وفاقی حکومت اور ادارے تب بھی یقین نہ کریں تو کمپنیز ایکٹ کے تحت دولتِ اسلامیہ رجسٹریشن کی درخواست دے دے۔
تب کہیں جا کے امکان ہو سکتا کہ اس کا وجود مرکزی سطح پر تسلیم کرلیا جائے۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151231_lahore_women_isis_wusat_analysis_sr