فاطمہ جناح سے بے نظیر بھٹو تک ۔۔۔۔۔۔ دائیں بازو کا عورت دشمن جہنم کدہ – عامر حسینی

10369748_10153803713649561_1664139547590174921_n

ویسے تو کیا مرد اور کیا عورت جس نے بھی دائیں بازو کی رجعت پرستی اور اسٹبلشمنٹ کے سٹیٹس کو پر حرف اعتراض اٹھایا اور اس نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے عوام کو ایک سمت چلانے کی کوشش کی تو اس کے لئے ہمارا معاشرہ ” جہنم کدے ” میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگی لیکن یہ کام اگر عورت نے کیا تو اس کا ” عورت پن ” سب سے پہلے نشانے پر آیا

” انگارے ” کتاب شایع ہوئی تو ماجد دریا آبادی سمیت دائیں بازو کے لکھاریوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ رشید جہاں سمیت ہر ترقی پسند ادیبہ کو زندہ سنگسار کرڈالیں اور ان سب عورتوں کے لئے جو القابات استعمال کئے گئے میں ان کو یہان درج کرنا نہیں چاہتا

پھر جب فاطمہ جناح سمیت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین باہر آئیں تو یہ احرار ، جمعیت العلمائے ہند کے مولوی تھے جنھوں نے ان عورتوں کو بے حیاء ،بدچلن یہاں تک کہ فاحشہ تک کا لقب دیا

یہی فاطمہ جناح جب ایوب خان کے مقابلے میں باہر نکلیں تو فاطمہ جناح پر ایوب کے حامی پریس نے یہ الزام دھردیا کہ
وہ شادی سے اس لئے گریزاں رہیں کہ وہ ” لیزبین : ہیں ، ان پر غیر فطری زندگی گزارنے کا الزام لگا

بیگم نصرت بھٹو کے بارے ” اردو پریس ” میں اتنا پروپيگنڈا اس جھوٹ کا کیا گیا کہ وہ ” کلب ڈانسر ” ہیں اور یہاں عام آدمی کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ اصفہان کی ایک نہایت معزز خاندان کی خاتون تھیں

ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ کے بارے ميں بہت گند اچھالا گیا

اور بے نظیر بھٹو نے جب سیاست میں قدم رکھا تو ان کے خلاف پروپیگنڈے کی شروعات ان کی “آکسفورڑ دور ” کی زندگی بارے گھٹیا افسانے تراشنے شروع کئے گئے ، آئی ایس آئی کے ایک نمک خوار نے ” پارلیمنٹ سے بازار حسن تک ” نامی ایک چھیڑا کتاب لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب میں بیسٹ سیلر کتاب بن گئی ، اس میں بے ںطیر بھٹو کے بارے میں اس بدزبان مصنف نے یہ تک لکھ ڈالا کہ
” پنکی آکسفورڈ میں اورل سیکس کے حوالے سے مشہور تھیں ” اور پھر ان کے معاشقوں کی فرضی داستان کو نمایاں کیا گیا

سال 1988ء میں جب الیکشن کمپئن عروج پر تھی تو بے نظیر بھٹو کی پریگننسی کو ایک سیاسی سٹنٹ بنالیا گیا اور میں نے پنجاب کے شہروں کے گلیوں ، محلوں اور بازاروں میں یہ بحث ہوتی دیکھی کہ ” بلاول ” کی پیدائش پری میچور تھی کہ نہیں اور اسی دوران ہیلی کاپٹر سے بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی جعلی تصاویر پھینکی گئیں جس میں ان کو امریکی صدر کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے دکھایا گیا اور اس دوران بے نظیر بھٹو کے جلسوں سے خطاب کے دوران ہجوم میں گھرجانے اور ان سے انتہائی نازیبا حرکات کی افواہیں بھی تواتر سے پھیلائی گئیں

یہ سب گند بے ںطیر بھٹو پر آچھالا جارہا تھا کہ اس میں ایک اور عنصر ان کی آصف علی زرداری سے شادی کا بھی داخل ہوگیا

ان دنوں ایک افواہ بہت تواتر سے اور منظم انداز میں پھیلائی گئی کہ بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی بلیک میلنگ کا نتیجہ ہے اور آصف علی زرداری نے ان کی کوئی تصاویر اور وڈیو بنالی تھی

جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کی شادی ارینج میرج تھی

یہ سلسلہ میاں نوآز شریف کے آخری دور حکومت اور جنرل مشرف کے دور میں تو بہت خوفناک شکل اختیار کرگیا

کراچی جیل میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کو زبردستی بے نظیر بھٹو طلاق دینے کے پیپرز پر سائن کرنے کو کہا گیا ، ان کو اس کے بدلے ہر ایک مراعات دینے کی لالچ بھی دی گئی ، مجھے سابق ڈی آئی جی کراچی ظفر عباس نے بتایا جو کہ اس وقت لانڈھی جیل کے سپرینڈنٹ تھے کہ فوجی افسران کے ساتھ رانا مقبول آیا اور اس نے کہا کہ آصف علی زرداری اگر بے نظیر بھٹو کو ” بدکردار ” قرار دیکر طلاق پیپرز پر سائن کردیں تو ان پر سب کیسز ختم اور ان کی حثیت کے مطابق مقام بھی دیا جائے گا ، ان پر تشدد بھی کیا گیا ، اسی دوران ان کی زبان بھی کاٹ دی گئی تھی

بے نطیر بھٹو کو عورپ ہونے کی وجہ سے جو کچھ بھگتنا پڑا اس پر آج تک کسی نے معافی نہیں مانگی ، یہاں تک کہ جب الیکشن 88ء کے آئے اور جب وہ جیت بھی گئیں تو ” عورت کی حکمرانی ، نامنظور ، نامنظور ” کے نعرے پنجاب میں جابجا گونج رہے تھے اور جماعت اسلامی یہ نعرے لگانے میں سب سے آگے تھیں

بے نظیر بھٹو کا نکاح ایک اور انداز سے بھی ” مسئلہ کشمیر ” بنالیا گیا یہ ” مولوی اعظم طارق ” تھے جنھوں نے ” بے ںظیر بھٹو ” سے ایک مکالمہ کیا اور جب بے نظیر بھٹو نے ان کو بتایا کہ وہ ” سنّی ” ہیں تو اعظم طارق نے کہا کہ کلفٹن پر ” علم عباس ” کیوں لگا ہے تو انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری ان کے شوہر شیعہ ہیں تو اس بدبخت نے فوری طور پر کہا کہ
\پھر تو آپ کا نکاح ہی درست نہیں ہوا

اور اسی اعظم طارق کے ایک ایم پی اے نے 93ء میں پنجاب میں پی پی پی کی حکومت کے دور میں کابینہ مين شمولیت اختیار کرلی تھی اور اعظم طارق قومی اسمبلی میں ” شیعہ کافر ” کی تقاریر کررہے تھے

شیخ رشید بھی ان دنوں اپنی بدباطنی سے بعض نہیں آرہا تھا ، ایک محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پیلے رنگ کے سوٹ میں پارلیمنٹ تشریف لائیں ، اس وقت نواز شریف کی حکومت اور ” یلیو کیب سکیم ” چل رہی تھی اور اس پر پی پی پی شدید تنقید کررہی تھیں تو شیخ رشید نے بے نظیر بھٹو کو پیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس دیکھکر بکواس کی

” کون کہتا ہے کہ پیلی ٹیکسی کی کوئی قدر نہیں ہے “

مرے زھن میں ایسے کئی اور واقعات تازہ ہیں جن میں بے ںطیر بھٹو کو ان کے عورت ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور دائیں بازو نے یہ بہت آسان خیال کیا کہ ان کا عورت ہونا ان کو گرانے کے لئے کافی ہے

بے نظیر بھٹو کی یہ ہمت تھی کہ انھوں نے اتنا کجھ ہونے کے باوجود کبھی بھی اپنے ساتھیوں کو مخالفون کی عورتوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ انھوں نے ” عورتوں ” کے تحفظ کے لئے کئی انقلابی اقدامات اٹھائے ، اس نہتی عورت نے بہادری سے ” مرد شاؤنزم ” کا مقابلہ کیا ، ان کی بیٹیوں کو اپنی ماں سے ےسیکھنے کی ضرورت ہے

Comments

comments