قائد اعظم، علامہ اقبال اور محمد علی جوہر چانس پر ہیں۔ – انور مقصود
چند برس پہلے قائداعظم، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر نے فیصلہ کیا کہ چلو پاکستان چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسا چل رہا ہے۔ تینوں بارہ اگست کو اسلام آباد پہنچے۔ پندرہ اگست کو پی آئی اے کے جہاز سے واپس جانے کے لئے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پہنچے۔ ان چار دنوں میں اسلام آباد میں کسی ایک نے بھی نہ پہچانا کہ یہ تینوں کون ہیں۔ تینوں کے واپسی کے ٹکٹ کنفرم نہیں ہیں۔ لاؤنج میں بیٹھے آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ علامہ اقبال درمیان میں کرسی کے ہتھے پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیئے بیٹھے ہیں۔ مولانا غور سے اقبال کو دیکھتے ہیں۔
مولانا: قائد ایسا لگتا ہے علامہ اب کوئی نیا خواب دیکھ رہے ہیں۔
اقبال (چونک کر) یہ بات نہیں ہے مولانا۔ جس آدمی نے پاکستان کا خواب دیکھا پی آئی اے والے اْس سے کہہ رہے ہیں تْو چانس پر ہے۔
قائد: علامہ چانس کا مطلب آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ چانس پر تو ہم تینوں ہیں۔ جن کے ٹکٹ کنفرم نہیں ہوتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ چانس پر ہیں۔
اقبال: ایک بات ماننا پڑے گی قائد تم اسلام آباد میں بہت مشہور ہو۔ چودہ اگست کو اسلام آباد کے ہر گلی کوچے سے ایک ہی گانے کی آواز آرہی تھی
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان
قائد: علامہ میرا آدھا احسان تو یہ لوگ سن انیس سو اکہتًر میں اْتار چکے ہیں۔ حالات دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے کہیں پورا احسان نہ اْتار دیں
مولانا: غلطی آپکی ہے قائد – جب آپ نے مجھے پاکستان کا نقشہ دکھایا تھا تو مجھے کچھ خاص اچھا نہیں لگا تھا۔
قائد: مولانا آپ بھول رہے ہیں۔ آپ نے نقشہ دیکھ کر کہا تھا ماشااللہ ماشااللہ
مولانا: آپ کو سننے میں غلطی ہوئی میں نے ماشااللہ ماشااللہ نہیں مارشل لا مارشل لا کہا تھا۔
اقبال: حیرت ہے ان چار دنوں میں کسی ایک نے بھی ہم لوگوں کو نہیں پہچانا۔
قائد: ایسا ہوتا ہے علامہ – جو ہمارا کام تھا وہ ہم کرچکے اور بہت ایمانداری کے ساتھ۔
مولانا: قائد آپکے ساتھ سامان کتنا ہے؟
قائد: سوٹ کیس لایا تھا جس میں پاکستان کا نقشہ تھا۔اب واپس جارہا ہوں۔ نقشہ بریف کیس میں آگیا- سوٹ کیس میں نے اسلام آباد میں چھوڑ دیا۔
مولانا: علامہ آپکا سوٹ کیس بہت بڑا ہے۔ کیا صوبہ پیک کرلیا؟
اقبال: نہیں مولانا اس میں خودی کو پیک کیا ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر پڑی ہوئی نظر آئی۔ میں نے سوچا یہاں خودی صرف ہوائی جہاز کے ذریعے بلند ہوسکتی ہے۔
قائد: مولانا آپکی گود میں کیا ہے؟
مولانا: میں نے باڑے سے ایک وی سی آر خریدا ہے۔
علامہ: کیوں؟
مولانا: کسی نے مجھے بھیا کا ویڈیو دیا ہے۔ بیسٹ آف شوکت علی۔
علامہ: آپ کے بھیا شوکت علی کے زمانے میں ویڈیو کہاں تھا۔ یہ ویڈیو پنجاب کے فوک سنگر شوکت علی کا ہے۔
مولانا: پھر ہم کیا کریں؟
علامہ: مجھے دے دیں میری سمجھ میں آجائے گا۔
مولانا: ایک انسان نے پاکستان کا خواب دیکھا- ایک نے اْس کی تعبیر پیش کی اور یہاں ان دونوں کو کسی نے بھی نہیں پہچانا۔ کمال ہے۔
ایک بچی بھاگتی ہوئی قائد کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے۔
بچی: آٹوگراف پلیز
قائد: بیٹی آپکا نام؟
بچی: آمنہ
قائد: بہت پیارا نام ہے۔ مجھے چھوٹے بچوں سے امید ہے کہ یہ بڑے ہوکر اس سرزمین کا نام روشن کریں گے
مولانا: بیٹی آپ نے کیسے پہچانا کہ یہ کون ہیں؟
بچی: میں نے نہیں ڈیڈی نے مجھ سے کہا جلدی جاکر آٹوگراف لے لو بہت مشہور ایکٹر کرسٹوفرلی بیٹھے ہوئے ہیں۔
قائد بچی سے آٹوگراف بک واپس لے کر اپنا نام کاٹ دیتے ہیں
قائد: بیٹی میں وہ نہیں ہوں ۔
پی آئی اے کا ایک ملازم آتا ہے
ملازم: آپ تینوں کے ٹکٹ کنفرم ہوگئے ہیں آپ لوگ جہاز پر جاسکتے ہیں۔
جہاز میں ۔
ایئر ہوسٹس: آپ لوگوں کو ہمارا کھانا اگر اچھا لگا ہو تو اس کارڈ پر اپنی رائے کا اظہار کردیں۔
مولانا: کارڈ لینے کے بعد کارڈ پر لکھتے ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ: کیا لکھ رہے ہیں مولانا؟
مولانا: تمہارا شعر لکھ دیا