ایران میں اہل سنت مساجد و مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں، مولوی نذیر احمد سلامی
ایران کے اہل سنت عالم دین مولوی نذیر احمد سلامی کا تعلق صوبہ سیستان و بلوچستان سے ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلٰی سطحی کونسل مجلس خبرگان رہبری کے رکن ہیں۔ علاوہ ازیں تقریب بین المذاہب اسلامی کے تحت قائم ہونے والی تمام مسالک کی مشترک دانشگاہ میں تدریسی امور انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اسلام آباد میں منعقدہ علمی نشست کے دوران رکن مجلس خبرگان کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہمارے قارئین کے لئے چند تعارفی کلمات فرمائیں۔؟
مولوی نذیر احمد سلامی: میرا نام نذیر احمد فیملی نام اسلامی ہے، ایرانی بلوچستان کا رہنے والا ہوں، کراچی میں گیارہ سال گزارے، دینی مدرسہ سے فارغ ہو کر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی، اور پھر واپس ایران چلا گیا، وہاں ایک دینی مدرسہ میں مشغول رہا، پھر دانشگاہ مذہب اسلامی (جس کا تذکرہ آج کی تقریب میں بھی کیا گیا) اس میں استاد کی حیثیت سے اب تک ذمہ داریاں انجام دے رہا ہوں، اور زاہدان ریڈیو بلوچی زبان میں سوال و جواب پر مشتمل ایک پروگرام بھی کرتا ہوں۔
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں پر اہل سنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو خاص پذیرائی نہیں ملتی، اہل سنت کی مساجد نہیں ہیں، اعلٰی اداروں میں ان کے لوگ نہیں ہیں، آپ اس حوالہ سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولوی نذیر احمد سلامی: ہمارے ہاں چند صوبوں میں الحمدللہ اکثریت اہل سنت کی ہے۔ جن میں صوبہ بلوچستان، صوبہ گلستان، صوبہ کردستان شامل ہیں۔ بلوچستان اور کردستان سے اہل سنت امیدوار انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، اور میرے خیال میں ان صوبوں سے دس گیارہ اہل سنت رکن اسمبلی ہیں۔ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایران جو وحدت کی کوششوں میں پیش پیش ہے، وہ خلاف وحدت عمل کرے، اور اہل سنت کے حقوق کو ضائع کرے۔ ان صوبوں میں جہاں اہل سنت کی اکثریت موجود ہے، وہاں ہمارے بڑے بڑے مدارس موجود ہیں، جس طرح کہ زاہدان میں موجود دینی مدرسہ میں میں خود پڑھاتا ہوں، آٹھ سو لڑکے اور چھ سو لڑکیاں اس مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دوسروں شہروں جیسے شہر چابہار ہے، گلستان میں بھی مدارس فعال ہیں، اور پورے ذوق و شوق سے دینی کام کرتے ہیں۔ ہمارے مقام معظم رہبری کی طرف سے جو مراعات اور رعایت شیعہ طلاب کے لئے ہیں، وہی اہل سنت طلبہ کو بھی دی جا رہی ہیں۔ اہل سنت کے مولوی صاحبان اور طلاب کا بیمہ ہوچکا ہے۔ مقام معظم رہبری کی طرف سے انشورنس کمپنی کو اہل سنت علماء اور طلاب کا بیمہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اٹھارہ سال کو پہنچنے والوں کے لئے ملٹری سروس لازمی ہے، طلباء کو رعایت دی گئی ہے کہ وہ چالیس روز میں ملٹری ٹریننگ سیکھنے کے بعد طالبعلمی جاری رکھیں، اگر مدرس ہیں تو تدریس کریں گے، خلاصہ کلام، یہ پروپیگنڈا غلط ہے، اگر کسی کو شک ہے تو ہم دعوت دیتے ہیں کہ آئے اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔
اسلام ٹائمز: یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں اہل سنت کی مساجد موجود نہیں ہیں، آپ اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟
مولوی نذیر احمد سلامی: یہ درست نہیں ہے، ایران میں اہل سنت کی مساجد بہت زیادہ ہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ اسلامی جمہوریہ ایران کی مجلس خبرگان میں اہل سنت کی نمائندگی کرتے ہیں، آپکی بات کو کس حد تک اہمیت دی جاتی ہے۔؟
مولوی نذیر احمد سلامی: بالکل ہماری بات کو اہمیت دی جاتی ہے اور اسے سنا جاتا ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ کوئی رکن مجلس سنی ہے یا شیعہ ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے مطالبات کو پیش کرتا ہے۔
اسلام ٹائمز: ہم نے دیکھا کہ گذشتہ کافی عرصہ سے سیستان و بلوچستان میں حالات کو خراب کرنے اور دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش کے تحت کبھی جنداللہ اور کبھی جیش العدل جیسی تنظیمیں سر اٹھاتی ہیں، آپ کیا تبصرہ کریں گے۔؟
مولوی نذیر احمد سلامی: یہ کچھ بے سر و پا لوگ ہیں، ایران سے بھاگ کر پاکستان یا افغانستان میں جاتے ہیں، امریکہ کی طرف سے ان کو مالی معاونت ملتی ہے، تو اپنے اربابوں کو راضی کرنے کے لئے ایسی حرکات کرتے ہیں۔
Source:
http://www.islamtimes.org/ur/doc/interview/489735/