سفر نامہ کربلا لکھنے کی وجوہات – مبشر علی زیدی
ایک دوست نے پوچھا، کیا آپ سفرنامہ لکھنے کے لیے کربلا گئے ہیں؟ کیا فیس بک کی تحریریں پلان کرکے لکھی ہیں۔ جی نہیں۔ میں پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔ ایک لفظ نہیں لکھا تھا۔ حج پر گیا تو کئی ڈائریاں بھردیں لیکن فیس بک پر چند صفحے ہی لکھے۔ چھاپا کچھ نہیں۔ عرب امارات، شام، ایران، بحرین، ترکی، جرمنی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، کئی ملک گھوم چکا ہوں۔ کبھی کچھ نہیں لکھا۔
اس بار کیوں لکھنے بیٹھ گیا؟ میں یہ بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن اذن ملا ہے تو بتارہا ہوں۔ میں سات محرم کو کربلا آیا تھا۔ امام حسین کے روضے پر پہنچا تو انھیں اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ میں نے کہا، آپ کا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ضریح کی طرف اشارہ کردیا۔
میں ضریح چوم کر صحن میں آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا، امام نے پوچھا، کیا کام کرتے ہو؟ میں نے کہا، مولا! کہانیاں لکھتا ہوں۔امام حسین نے کہا، اچھا؟ کبھی ہماری کہانی بھی لکھو!
ایک اور دن روضے پر گیا تو وہاں کئی جلوس پہنچے ہوئے تھے۔ کوئی دستہ نقارہ پیٹ رہا تھا، کوئی حلقہ ماتم کررہا تھا، کوئی انجمن دائرہ بناکر گریہ کررہی تھی، کوئی قبیلہ کربلا کے واقعے کو تمثیل کررہا تھا۔ میں اندازہ نہیں لگاسکا کہ امام کو کیا اچھا لگ رہا ہے اور کیا نہیں۔
میں نے ذرا سنبھل کر امام سے سوال کیا، آپ سے محبت کرنے والے آپ کی یاد کیسے منائیں؟ امام حسین نے کہا، کچھ لوگ علم اٹھائیں۔ کچھ لوگ قلم اٹھائیں۔ہر شہر میں لوگ خوشی خوشی آتے ہیں، خوش گوار یادیں جمع کرتے ہیں، خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔ کربلا میں لوگ روتے ہوئے آتے ہیں، روتے روتے واپس جاتے ہیں۔
کربلا سے جدائی کا وقت آن پہنچا۔ لوگ امام حسین کے روضے میں جاتے ہیں۔ الوداعی سلام کرتے ہیں اور دوبارہ طلبی کی درخواست کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میں آج روضے پر پہنچا اور امام حسین کو سلام کیا۔ عرض کیا، مولا! وطن واپس جارہا ہوں۔ اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی پیغام؟ امام حسین نے کہا، ہاں۔ میرے چاہنے والوں سے کہنا کہ جب پانی پئیں، میری پیاس کو یاد کریں، میرے بچوں کی پیاس کو یاد کریں، شہدائے کربلا کی پیاس کو یاد کریں۔
بہنوں بیٹیوں سے کہنا، گھر سے نکلیں تو چادر سر پر ضرور لیں، بی بی زینب کی چادر یاد رکھیں، میری بیٹیوں کا پردہ یاد رکھیں، نبی زادیوں کی حرمت یاد رکھیں۔ اور علی سے عشق کرنے کے دعوے داروں کو بتانا کہ علی کو اسلام کی پہلی صدی میں پچاس سال تک منبروں سے برا بھلا کہا گیا، ان پر تبرا کیا گیا۔ یاد دلانا کہ تبرا کرنے والے منبر باقی نہیں رہتے، صرف وہ منبر رہ جاتے ہیں جن سے محبت پھیلائی جاتی ہے۔
میں روضہ حسین کے باب قبلہ پر صحن میں کھڑا تھا۔ رخصت کی اجازت مانگ چکا تھا۔ ضریح میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ میں اس منظر کو آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی منظر ہمیشہ کے لیے آنکھوں میں بس جاتا ہے۔ پھر وہ خودبخود آپ کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اچانک ایک شخص میرے قریب زور سے چلایا۔ میں گھبراکے اچھل پڑا۔ وہ کوئی عرب ملنگ تھا۔ نعرہ لگارہا تھا، لا الہ الا اللہ۔ قبر حسین کا طواف کرتا جاتا تھا۔ کئی بار کہتا تھا، لا الہ، پھر ایک بار کہتا تھا، الا اللہ۔
مجھے کسی عالم کی بات یاد آئی۔ رسول پاک نے مشرکوں سے منوالیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ وہ اللہ کو مان گئے تھے لیکن کچھ ایسے تھے جو لا الہ نہیں کہتے تھے۔ چوری چھپے اپنے بُتوں کو پوجتے رہتے تھے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے کہا تھا
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الہ الا اللہ
علی نے کعبے میں رکھے بُتوں کو توڑا۔ حسین نے آستینوں میں چھپے بُتوں کو توڑا۔ لا الہ کا اقرار کروایا۔ باب قبلہ پر کھڑے کھڑے میری آنکھوں کے سامنے خانیوال کا امام بارگاہ آگیا جہاں میرے دادا ظفر حسن کی قبر ہے۔ اس کے مرکزی دروازے پر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے اشعار رقم ہیں۔ اپنے گھر میں خواجہ کی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ حسین کے گھر میں ملنگ کے ایک نعرے نے سمجھادی۔
شاہ است حسین، پادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نہ داد دست درِ دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین