ایک نماز کربلا میں – مبشر علی زیدی
میں نے حرمِ امام حسین کے ایک طاقچے سے قرآن پاک اٹھایا اور آخری صفحات کھولے۔ جو سورۃ سامنے آئی، اُس کا ایک ہی لفظ پڑھ کر دل لرزنے لگا۔ والعصر- میں مصلے پر کھڑا ہوا اور نمازِ عصر کی نیت باندھ لی۔ مجھے صبحِ عاشور کا خیال آیا جب کربلا میں تیر چلنا شروع ہوگئے تھے۔ امام حسین کے انصار انھیں گھیر کے کھڑے ہوگئے تاکہ وہ نماز پڑھ لیں۔ وہ نماز تیروں کے سائے میں ادا کی گئی۔
میں نے نماز توڑ دی۔ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں خدا کے سوا کسی کا خیال آجائے۔
میں نے پھر نیت کے الفاظ دوہرائے۔ الحمد شریف میں پڑھا، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔ مجھے حُر کا خیال آیا جو شبِ عاشور تک سیدھے راستے پر نہیں تھا۔ لیکن پھر دل پلٹ گیا۔ اسے سیدھا راستہ مل گیا۔ وہ شخص جس نے امام کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر ان کا راستہ روکا تھا، وہ رسی سے ہاتھ باندھ کر ان خدمت میں پیش ہوگیا۔ پھر جان دینے والوں میں آگے آگے رہا۔ اب پتا چلا کہ امام نے ایک رات کی مہلت اپنے لیے نہیں، حُر کے لیے مانگی تھی۔
میں نے نماز ادھوری چھوڑ دی۔ حُر صراط المستقیم پر آگیا تھا لیکن میرا ذہن کیوں بھٹک گیا۔میں نے دوبارہ نیت کرلی۔ الحمد شریف پوری پڑھ لی۔ خیال آیا کہ یہ تو سورہ فاتحہ ہے۔ یہ تو شہیدوں کے سرہانے پڑھی جاتی ہے۔ وہ سامنے شہید حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔ پچھتر سال کا بوڑھا میدانِ جنگ میں کیسے اترا ہوگا؟ تلوار کیسے سنبھالی ہوگی؟ زخم کہاں کھائے ہوں گے؟
مجھے پھر نماز چھوڑنا پڑی۔ میں قبر پرست نہیں ہوں۔ میں خدا پرست ہوں۔میں نے نئے سرے سے نیت باندھ لی۔ الحمد شریف ختم کرلی۔ سورہ کوثر پڑھنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ امام حسین کے انصار اور اہلِ بیت تین دن کے پیاسے تھے۔ وہ شہید ہوکر جنت پہنچے ہوں گے تو امام حسن حوضِ کوثر کے جام لیے کھڑے ہوں گے۔ وہ بھی تو جنت کے سرداروں میں ایک سردار ہیں۔ وہ انصار کی پیاس بجھاتے ہوں گے اور پوچھتے جاتے ہوں گے، میرا علی اصغر کس حال میں ہے؟ میرا علی اکبر کس عالم میں ہے؟ قاسم اُن کی ڈھال بنا یا نہیں؟ وہ جنگ کرنے آرہا ہے یا نہیں؟
میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ سورہ کوثر کے معنی پر غور کرتا رہ گیا۔میں نے ایک بار پھر نیت کی اور پوری توجہ سے نماز پڑھنے لگا۔ الحمد پڑھی، سورہ کوثر پڑھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلا گیا۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیے۔ اچانک عباس کا خیال آیا۔ اُن کے دونوں ہاتھ ظالموں نے قطع کردیے تھے۔ ابھی حرم میں آتے ہوئے شباب قطع کفین کی سبیل سے پانی پیا تھا۔ شباب قطع کفین یعنی وہ جوان جس کے بازو کاٹ دیے گئے؟
میں نے سجدہ نہیں کیا۔ نماز روک دی۔ اپنے سر پر تھپڑ مارے۔ خدا تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوا۔ خود سے وعدہ کیا کہ اب پورے خشوع و خضوع سے نماز پڑھوں گا۔میں نے عصر کی نماز کی نیت ٹھہر ٹھہر کر کی۔ خود کو متوجہ رکھنے کے لیے باآواز بلند نماز پڑھنے لگا۔ قیام میں رہا، خدا کا دھیان رہا۔ رکوع میں گیا، خدا کا دھیان رہا۔ سجدے میں گیا تو کسی نے کان میں کہا، چودہ سو سال بعد نماز پڑھ رہے ہو تو کبھی حُر کا خیال آرہا ہے، کبھی حبیب ابن مظاہر کے بارے میں سوچ رہے ہو، کبھی قاسم اور عباس یاد آرہے ہیں، کبھی اکبر اور اصغر کے لیے آنسو بہارہے ہو۔ حسین نے عصر کی نماز کیسے پڑھی ہوگی؟
زخموں سے چور اُس بدن کا قیام کیسا رہا ہوگا؟ ٹوٹی ہوئی کمر والا بوڑھا رکوع میں کیسے گیا ہوگا؟ پیشانی پر پتھر کھانے والے امام نے سجدہ کیسے کیا ہوگا؟میں نے ایک چیخ ماری اور تڑپ کر اٹھ گیا۔ حسین وہ نماز پوری نہیں کرسکے تھے۔ شمر نے انھیں شہید کردیا تھا۔ میں بھی نماز پوری نہیں کرسکا۔ عصر کا وقت گزر گیا۔ نماز قضا ہوگئی۔ قضا کے سارے مطلب آج سمجھ میں آگئے۔