عاشورہ کربلا میں – مبشر علی زیدی
مبشر صاحب میٹرک میں تھے کہ پہلا بال سفید ہوا۔ راتیں جاگتے گئے، بال سفید ہوتے گئے۔ راتیں زیادہ تھیں، بال کم، بھری جوانی میں سارے کے سارے سفید ہوگئے۔ بہنوں نے کہا، بیوی نے کہا، دوستوں نے کہا، بال رنگوالو۔ مبشر صاحب کچھ لگانے کو تیار نہ ہوئے۔
کربلا میں امام حسین کے روضے کی مٹی آسانی سے نہیں ملتی۔ اسے خاک شفا کہتے ہیں۔ مقامی لوگ کل اور آج اسے برتنوں میں لیے پھررہے ہیں۔ یہ خشک مٹی نہیں، اس میں تھوڑا پانی ملالیا ہے۔ خواتین اسے اپنے برقعوں پر لگارہی ہیں۔ مرد اسے اپنے منہ پر مل رہے ہیں۔ یہ کوئی فیشن کی بات نہیں۔ امام کا گھرانہ خاک و خون ہورہا ہے۔ امام کا لشکر مٹی پر تڑپ رہا ہے۔ عزادار اس مٹی کو سر میں ڈال رہے ہیں۔مبشر صاحب نے تھوڑی سی مٹی اپنے سر میں ڈال لی۔ آج اپنے بال رنگ لیے۔
پاکستان ہندوستان میں محرم کی مجلس ہوتی ہے تو اس میں پہلے سوز خوانی ہوتی ہے۔ اکثر انیس یا دبیر کا کوئی مرثیہ پڑھا جاتا ہے۔ پھر کوئی شاعر اپنا سلام امام کی نذر کرتا ہے۔ اس کے بعد حدیث ہوتی ہے یعنی تقریر۔ ذاکر کے پاس پچاس منٹ ہوتے ہیں۔ عموماً یوں ہوتا ہے کہ پینتالیس منٹ حضرت علی کے فضاٗئل پڑھے جاتے ہیں۔ پھر پانچ منٹ امام حسین کے مصائب بیان کیے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ سننے کی کسی میں تاب نہیں۔ لوگ روتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نوحہ خوانی ہوتی ہے۔ ماتم ہوتا ہے۔
یہ کربلا ہے۔
آج عاشور ہے۔ فضائل کا موقع نہیں، قیامت کا دن ہے۔ یہی وقت ہوگا جب جنگ شروع ہوئی ہوگی۔ روضہ حسین کے منبر سے مصائب کا بیان شروع ہوچکا ہے۔ میں تاریخ میں لکھی باتوں کو نہیں مانتا۔ میں ذاکرین کے بیان کو نہیں مانتا۔ میں انیس و دبیر کی منظر کشی کو نہیں مانتا۔ کربلا میں جنگ نہیں ہوئی تھی، قتل عام ہوا تھا۔ امام حسین کے انصار اور رشتے داروں کو گھیر کے مار دیا گیا تھا۔
حسینی لشکر نے کئی گھنٹے تک مزاحمت کی تھی۔ کربلا کے ذاکر بھی کئی گھنٹے مسلسل مصائب پڑھیں گے۔ یہ مصائب اس وقت جاری ہیں۔ پورے کربلا میں لاؤڈ اسپیکر اور اسکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ روضوں میں بیٹھے ہیں۔ صحنوں میں بیٹھے ہیں۔ بین الحرمین بیٹھے ہیں۔ اطراف حرمین بیٹھے ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ مصائب سنے جارہے ہیں، اشک بہائے جارہے ہیں۔
خون کا ماتم بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ کراچی میں یہ ماتم کیسے ہوتا ہے؟ امام کا گھوڑا، جس کا نام ذوالجناح تھا، اس کی شبیہہ بنائی جاتی ہے۔ ایک گھوڑے پر چادر ڈال دی جاتی ہے۔ اس پر خون جیسا رنگ لگایا جاتا ہے۔ تیر چپکائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ذوالجناح میدان کربلا سے تنہا آیا ہے۔ سوار زخمی ہوکر کہیں گرگیا ہے۔
یہ ذوالجناح جلوس میں لایا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر عزاداروں پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کے سامنے زنجیر زنی کی جاتی ہے۔ اس کے سامنے سر پر قمہ لگائی جاتی ہے۔یہاں کوئی زخمی ذوالجناح نظر نہیں آرہا۔ کوئی تیروں سے چھلنی تابوت نظر نہیں آرہا۔ کوئی خون آلود جھولا نظر نہیں آرہا۔ یہ سرزمین کربلا ہے۔ اس کی مٹی سے شہیدوں کی خوشبو آرہی ہے۔
کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا بچے، سب لمبی لمبی چھریاں لے کر ٹہل رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ابھی خون کا ماتم کرنا ہے۔ جو لوگ سر پر چھری مار چکے ہیں، ان کے چہرے رنگین ہیں۔ کچھ دیر ہوچکی تو سر پر کچھ روئی چپکالی۔ ایمبولینسیں کھڑی ہیں لیکن کوئی ان کا رخ نہیں کررہا۔ جس سڑک پر میں کھڑا ہوں، وہاں کوئی طبی کیمپ نظر نہیں آرہا۔ اسپتال چند ایک ہیں اور دور ہیں۔
میں نے لبنانی عزاداروں سے زیادہ خطرناک خون کا ماتم کسی کو نہیں کرتے دیکھا۔ پہلی بار کئی سال قبل دمشق میں ان کا ماتم دیکھا تھا۔ مجھ سے خون کا ماتم نہیں دیکھا جاتا۔ میں وہاں ایک بازار کی وڈیو بنارہا تھا۔ اپنی آنکھ سے منظر نہیں دیکھ رہا تھا،کیمرے سے آنکھیں ٹکائی ہوئی تھیں۔ اچانک سفید لباس پہنے ایک دستہ دوڑتا ہوا آیا۔ ان کے ہاتھ میں پورے پھل کی تلواریں تھیں۔ وہ میرے قریب ہی آکر کھڑے ہوگئے اور تلواریں سر پر مارنے لگے۔ میرے سامنے سر سے پیر تک خون میں رنگ گئے۔ اسی عالم میں بی بی زینب کے روضے میں داخل ہوئے۔ ان میں کسی کو چکر نہیں آیا لیکن میں چکراکر گرگیا۔
جو لوگ حج کرلیتے ہیں، وہ زندگی بھر اس پر ناز کرتے ہیں۔ زندگی میں اس سے بڑا دن کوئی نہیں۔ یہ دن کوئی نہیں بھول سکتا۔ میں بھی نہیں بھول سکتا۔ میں حج کے دنوں میں بھی فیس بک پر اپنی ڈائری لکھتا تھا۔ کیا اس ڈائری سے ایک صفحہ آپ کو سناؤں؟ سن سکیں گے؟
یہ صفحہ 13 اکتوبر 2013 کو لکھا تھا۔
میں کئی برسوں بلکہ عشروں سے یہ جاننے کے لیے مرا جارہا تھا کہ آٹھ ڈی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟خدا کی قسم، احرام پہننے والے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ کوئی عید، کوئی تہوار، خوشی کا کوئی موقع اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سنی سنائی نہیں سنارہا، خود احرام باند کر لاکھوں حاجیوں کی مسرت کا مشاہدہ کررہا ہوں۔
سب کی آنکھیں خوشی سے بھیگی ہوئی ہیں۔ میری غم سے!سنہ ساٹھ ہجری کی آٹھ ذی الحجہ تھی جب امام حسین نے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیا تھا۔ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ مدینہ چھوڑنے کے باوجود قاتلوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انھوں نے احراموں میں چھپے ہوئے خنجر دیکھ لیے تھے۔ حرم کی حرمت کو بچانے کے لیے وہ مکہ سے نکلے اور ان کے قاتلوں نے ایک ماہ بعد انھیں کربلا میں گھیر لیا۔
میں کئی برسوں سے بلکہ عشروں سے یہ جاننے کے لیے مرا جارہا تھا کہ آٹھ دی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ اور امام حسین کو حج چھوڑ کر کیسا محسوس ہوا ہوگا؟جنت کے طلب گار عرفات کو چلے ہوں گے اور جوانان جنت کا سردار کربلا کو چلا ہوگا۔ خود فیصلہ کیجیے، خدا نے کیا فیصلہ کیا ہوگا؟
موسیٰ بھائی کا کہنا ہے، ذاکرین غلط کہتے ہیں کہ امام حسین نے حج کو عمرے میں بدلا۔ انھوں نے تمام ارکان مکمل کرلیے تھے۔ وہ منیٰ آئے تھے۔ میدان عرفات میں ان کا خطبہ مشہور ہے۔ آج بھی سب پڑھتے ہیں۔ آپ کتابیں کھول کر دیکھ لیں۔ صرف قربانی رہ گئی تھی۔امام نے وہ قربانی کربلا آکر دی۔ ابراہیم اپنے بیٹے اسماعیل کو قربانی کے لیے لے کر چلے تھے۔ حسین اپنے بیٹے علی اکبر کو قربانی کے لیے لے کر چلے۔ ابراہیم کی قربانی قبول ہوئی، اسماعیل بچ گئے۔ حسین کی قربانی قبول ہوئی۔ علی اکبر شہید ہوگئے۔
ایرانی قوم اقبال ہندی سے محبت کرتی ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ فارسی شاعر تھے، اقبال حسینی شاعر تھے۔ انیس کی طرح اشعار میں مجلس پڑھتے تھے۔
آں امام عاشقاں پسر بتول
سرد آزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر