شب عاشور اور کربلا – مبشر علی زیدی
کربلا میں شبِ عاشور ہے۔ ایک سڑک پر بیٹھا ہوں اور آتے جاتے لوگوں کو پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ کبھی عزاداروں کو گننے کا ارادہ کرتا ہوں۔ کبھی ہجوم کو ناپنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔سرکاری اعدادوشمار عاشورے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔ میں صبح لکھ چکا ہوں کہ گزشتہ سال اربعین پر یہاں ڈھائی کروڑ زائرین آئے تھے۔ میں دو اور ڈھائی کروڑ کی باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ اندازہ ہے کہ اس وقت کم از کم ایک کروڑ افراد اس چھوٹے سے شہر میں موجود ہیں۔
تھوڑی دیر کو عقیدت اور جذبات ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ایک کروڑ افراد کھانا کہاں سے کھارہے ہیں؟ پانی کہاں سے پی رہے ہیں؟ کون سے باتھ روم جارہے ہیں؟ ہر سال کربلا آنے والے کہتے ہیں، کل مغرب کے بعد آپ کو یہاں چند لاکھ افراد نظر آئیں گے۔ رش چھٹ جائے گا۔ سڑکیں خالی ہوجائیں گی۔ نقل و حرکت آسان ہوجائے گی۔میں حج کرچکا ہوں۔ بیس بائیس لاکھ افراد کو مکہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ اور منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔
لاکھوں افراد کے آنے جانے کے لیے کتنی گاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے؟ پارکنگ کے لیے کتنی جگہ درکار ہوتی ہے؟ کوئی جگہ خالی کرنے کے بعد صفائی کا کیسا انتظام کرنا پڑتا ہے؟ کربلا کی انتظامیہ یہ سب کرنے کی اہل نظر نہیں آتی۔ اہل ہوتی تو یہ شہر ٹوٹا پھوٹا ہوتا؟عقیدت مند کہتے ہیں، مولا حسین کے ماننے والے کسی اور ہی دنیا سے آتے ہیں۔ انھیں گاڑیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انھیں کھانے پینے کی طلب نہیں ہوتی۔ انھیں کوئی اور حاجت نہیں ستاتی۔مجھے یہ باتیں کرنے والے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق نظر آتے ہیں۔
جہاں ہمارا قیام ہے، وہاں قبیلہ بنی طویریج کے لوگ رہتے ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان کے ایک بزرگ نے عاشور کے دن ظہر کے وقت بے قرار ہوکر امام حسین کی قبر سے حضرت عباس کے روضے کی طرف دوڑنا شروع کردیا تھا۔ وہ بوڑھا دوڑتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، عباس سکینہ پیاسی ہے، پانی لاؤ، عباس پانی لاؤ۔ غازی کے روضے پر پہنچ کر اس نے ماتم کرتے ہوئے کہا، واویلا عباس واویلا۔
عاشور کے دن ظہر حضرت عباس کی شہادت کا وقت ہے۔ غازی جب گھوڑے سے گرے تو امام حسین بے قرار ہوکر اس طرف دوڑے تھے۔ چلا چلاکر کہتے جاتے تھے، عباس ایسا نہ کرو۔ سکینہ پیاسی ہے، اس کے لیے پانی لاؤ۔ غازی نے پکارکر کہا تھا، آقا، پانی نہیں لاسکا۔ میرا آخری سلام۔ پھر حسین نے بھائی کی شہادت پر واویلا بلند کیا تھا۔
بنی طویریج کے اس بزرگ نے صدیوں پرانے اس المیے کو یاد دلایا تھا۔ اس دن کے بعد یہ روایت بن گئی کہ عاشور کے دن ظہر کے وقت کچھ عزادار بنی طویریج کے محلے سے دوڑنا شروع کرتے ہیں۔ باب قبلہ سے روضہ حسین میں داخل ہوتے ہیں۔ سکینہ پیاسی ہے، عباس پانی لاؤ کا نوحہ پڑھتے ہیں اور دوڑتے دوڑتے دوسرے دروازے سے روضہ عباس کا رخ کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ساٹھ لاکھ افراد امام حسین کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے بین الحرمین دوڑے تھے۔ اس سال بھی لاکھوں تیار ہیں۔ عراق کا کربلا ٹی وی یہ مناظر براہ راست پیش کرتا ہے۔
کربلا کے عزاداروں نے کالے کپڑے بدل کر سفید لباس پہن لیا ہے۔ جنھوں نے لباس نہیں بدلا، انھوں نے کالی قمیصوں پر سفید کفن چڑھا لیا ہے۔ یہ کفن پوش شہر بھر میں گشت کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں ہیں، خنجر ہیں، زنجیریں ہیں۔کربلا میں رضاکاروں نے مقدس روضوں کی دیواروں پر پلاسٹک کی شیٹیں چپکادی ہیں۔ فرش پر مٹی بچھادی ہے۔ باہر سڑکوں پر بھی پلاسٹک بچھادیا جائے گا۔ فجر کے بعد چھریوں کا ماتم شروع ہوجائے گا۔ سر خونم خون ہوجائیں گے۔ پیٹھیں لالوں لال ہوجائیں گی۔ سڑکیں لہو لہان ہوجائیں گی۔
میں نے کبھی خون کا ماتم نہیں کیا۔ مجھ سے خون کا ماتم نہیں دیکھا جاتا۔ عقل کہتی ہے، خون کے ماتم کا حسین سے کیا تعلق؟کبھی کسی آیت اللہ نے خون کے ماتم کی تحسین نہیں کی۔ کبھی کسی امام کعبہ نے چھریوں کے ماتم کی حمایت نہیں کی۔ خیال آتا ہے کہ غیر لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ لیکن عشق نے کبھی اس بات کی پرواہ کی ہے کہ مذہب کیا کہے گا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ عشق نے کبھی اللہ کا کہا مانا ہے جو آیت اللہ کا کہا مانے گا؟
عشق فقط یک کلام
حسین علیہ السلام