نصر بن مزاحم : اپنے وقت کا اینتنو گرامچی – عامر حسینی
کل رات میں ملتان ” شاہ یوسف گردیز ” امام بارگاہ ملتان مجلس سننے کے بعد رات گئے گھر لوٹا تو تھکن اتنی طاری تھی کہ آنکھ لگ گئی اور آنکھ لگتے ہی ایک خواب نے مرے لاشعور پر دستک دی جس کی آواز اتنی تھی کہ مرے شعور تک وہ آن پہنچی ، کیا دیکھتا ہوں کہ ” مسجد نبوی ” کا صحن ہے اور صحن ابھی کچا ہے اور سامنے کچے حجرے ہیں جن پر کھجور کے پتوں کی چھت ہے اور صحن میں بہت سے حلقے ہیں اور ایک حلقے میں لوگ بہت زیادہ ہیں ، دائرہ بناکر مودب بنے لوگ ایک جوان رعنا کے گرد اکٹھے ہیں اور جوان رعنا کا چہرہ سرخ و سپید ، نور کی کرنوں سے روشن مگر آنکھیں بہت اداس اور کثرت گریہ سے آنکھوں کے گرد ” سیاہ حاشيے ” موجود ہیں ،
سیاہ عمامہ اس نے پہنا ہوا ہے اور زلفیں اس کے کندھوں پر لہرا رہی ہیں اور میں مسجد کے مرکزی دروازے کو عبور کرتا مسجد میں داخل ہورہا ہوں ، وہ جوان رعنا یک دم مری طرف دیکھتے ہیں اور مجھے اپنے حلقے کی طرف آنے کا اشارہ کرتے ہیں ، میں جب اس جوان رعنا کے اشارے پر اس حلقے کی جانب بڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس ” جوان رعنا ” کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے لوکوں کی آنکھوں میں مرے لئے رشک کے جذبات ہیں ، جیسے میں حلقے کے قریب آتا ہوں ، جوان رعنا کے اداس چہرے پر تھوڑی سی شادابی دیکھنے کو ملتی ہے ، ہونٹ تھوڑے سے پھیلتے اور مجھے ان پر مسکان کا شائبہ ہوتا ہے ، اور وہ ” جوان رعنا ” کہتے ہیں
اے مرے اصحاب ! اس ہندی جوان کا استقبال کرو ، یہ بہت دور سے آیا ہے
اس کے ساتھ ہی سب مجھے ” مرحبا یا سیدی ” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں
جوان رعنا پاس پڑی صراحی سے مٹی کے پیالے میں مرے لئے پانی انڈیلتے ہیں اور مجھے پینے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے پہلو میں جگہ دیتے ہیں ، اس کے بعد مجھے کہتے ہیں کہ رات جس قضیہ میں تم الجھے ہوئے تھے ، اس پر ہی آج ہم بات کرتے تھے ، آج کی مجلس حلقہ خواص کی مجلس ہے جس میں ہم نے تمہیں بھی جگہ دی ہے ، میں ” جوان رعنا ” کی بصیرت سے مرعوب ہوجاتا ہوں اور پھ وہ ” جوان رعنا ” بغیر کسی وقفے سے کہنا شروع کرتا ہے
کنّا نعلم التاریخیۃ و السیر کما نعلم السورۃ من القرآن
میں اس پر تھوڑا ٹھٹک جاتا ہوں کیوں مجھے لگتا ہے کہ ” جوان رعنا ” نے علی بن حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب امام اسجاد کے ” الجامع الاخلاق الراوی ( ج 2 ، ص 288 – البدایہ والنھایہ ج 3 ، ص 242 – سبل الھدی و الرشاد ج 4 ، ص 20 ) پر موجود قول کو بدل ڈالا ہے ، کیونکہ وہ تو یوں تھا
کنّا نعلم المغازی رسول اللہ کما نعلم السورۃ من القرآن
ابھی یہ خیال مرے دل پر گزرتا ہی ہے کہ ” جوان رعنا ” ٹھٹک جاتے ہیں اور گفتگو زرا دیر روکتے ہیں اور مری سمت دیکھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں
کیا تم جانتے ہو اس وقت کس جگہ موجود ہو ؟
جی ہاں ! میں مسجد نبوی میں موجود ہوں
میں نے جواب دیا
کہنے لگے ، اس حلقہ کو پہچانتے ہو ؟
میں نے نفی میں سر ہلایا
اپنی فیس بک وال پر پروفائل فوٹو کی جگہ کس کا پوسٹر لگایا ہوا ہے جوان رعنا نے سوال کیا ؟ میں چونک گیا کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ میں زمانے میں بہت پیچھے آگیا ہوں لیکن اب لگتا تھا کہ ماضی اور حال دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے امام سجاد کامیں نے جواب دیا یہ سنکر ” جوان رعنا ” مسکرانے لگے جس ” عابد اور ساجد ” کا تذکہ کرتے تم تھکتے نہیں تھے ، آج وہ سامنے ہے تو پہچانتے بھی نہیں ہوجوان رعنا نے کہا تو مرے ذھن کی ساری گتھیاں سلجھ گئیں ، مجھے پتہ چل گیا کہ میں مسجد نبوی میں حلقہ امام سجاد کے اندر تھا اور ” جوان رعنا ” امام سجاد ” کے سوا کوئی نہ تھا ،میں عقیدت و محبت میں بھرگیا اور اپنے ” بھولپن ” کی معافی چاہی
،
کہنے لگے تم نے ” مغازی ” کا لفظ ٹھیک سنا تھا مگر ہم بھی ” تاریخ و سیر ” کا لفظ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں اور یہ جان لو کہ ” شعور تاریخ ” کے بغیر ” شعور قرآن ” بھی کسی کام کا نہیں ہے اور تم نے خود تو ” علی شناسی ” کے ایک باب میں لکھا تھا کہ ” جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بعد از وفات رسول خود کو گھر بند کرلیا تھا اور اس وقت تک باہر نہ نکلے جب تک ” نزولی تاریخ ” کے اعتبار سے قرآن جمع نہ کرلیا اور یہ ایک طرح سے کرانیکل اعتبار سے قران کی جمع بندی تھی ، کیونکہ تاریخی شعور کے بنا ” قرآن ” کا فہم بہت سی غلطیوں سے دوچار کرسکتا تھا ” تو اسی لئے ہم نے ” سورہ قرآن ” کی تعلیم پر قدم کیا ” تاریخ اسلام ” کی تاریخ کودیکھو !
دمشق میں اس وقت جو حاکم وقت بیٹھا ہے وہ رات دن ایک طرف تو ” غلط حدیثوں ” کا انبار پھیلاتا ہے ، دوسری طرف ایسے قصّہ گو اکٹھے کرتا پھرتا ہے جو ” تاریخ ” کے شعور کی ایسی ” بنت کاری ” کریں کہ ” ٹھیک بات ” انحراف ” لگے اور ” منحرف ” “ٹھیک ” لگے اور وہ تفیسر کے ایسے ذخیرے جمع کرنے کی ترغیب دینے میں لگا ہے کہ جس میں سب سے زیادہ ” نفی ” تاريخ اور کرانیکل کی روشنی میں کی گئی تفسیر ” کی ہے اور ” صحیفہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ” اور ” صحیفہ عبداللہ بن مسعود ” کی سب سے زیادہ مخالفت دمشق کی طرف سے ہوتی ہے تو اس کی وجہ بھی ان صحیفوں میں تاریخی شعور کی جاندار روایت کا ہونا ہے اور یہاں اس صحن میں مرے حلقے کے گرد حاکم دمشق نے جاسوسوں کا ایک جال پھیلایا ہوا ہے جس کا مقصد ہے کہ میں ” تاريخ و السیر ” کا بیان نہ کرپاؤں اور اگر میں اس پر اصرار کروں تو کل ہی اس حلقے پر دھاوا بول دیا جائے اور ہم سب تہہ تیغ کردئے جائیں ، اک روز ایسا ہوا بھی کہ جب مجھے ‘ سولی چڑھانے ” کا کوئی بہانہ میسر نہ آسکا تو پھر مجھے زھر دلایا گیا اور یوں مجھے منصب شہادت تک پہنچادیا گیا
یہ بات جوں ہی ختم ہوئی تو مری آنکھ کھل گئی اور مجھے اپنے سینے میں ایک لطیف ٹھنڈک اور زبان پر عجب شریں پانی کا زائقہ محسوس ہوا ، میں اٹھ بیٹھا ، گفتگو کا ایک ایک لفظ میں نہیں بھولا تھا ، نو محرم کی رات اور محرم کی آٹھویں تاریخ ابھی باقی تھی اور اسی وقت مجھے خیال آیا کہ ” امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز ملتان ” میں دوران مجلس ہی مرے موبائل فون کے میسج باکس میں نیوز الرٹ آئی تھی کہ ” بلوچستان کے ضلع بولان کے ایک علاقے میں امام بارگاہ کے ںزدیک اس وقت خودکش بم دھماکہ ہوا تھا جب امام بارگاہ کے اندر ” مجلس عزا ” منعقد ہورہی تھی ، چار دیواری کے اندر مجلس عزا میں کیا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ” تاریخی شعور ” کو بیدار کیا جاتا ہے اور واقعات کرب و بلاء کی تفہیم کے در کھولے جاتے اور آخر میں مصائب اہل بیت کا زکر کرکے آنسو بہائے جاتے ہیں ، یہ وہی ” شعور ” ہے جس کو مردہ کرنے کے لئے ” تکفیری ” آکر پھٹ جاتے ہیں
میں ابھی اس خواب بارے سوچ ہی رہا تھا کہ مرے ذھن میں یک دم نجانے کیسے “أبو الفضل نصر بن مزاحم بن سيار(يسار) العطار المنقري، العراقي ” کا نام آگیا اور میں سوچنے لگا کہ جس تاریخی شعور کی بنیاد جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ” وفات رسول ” کے فوری بعد رکھنے کی کوشش کی تھی اور اسے جناب امام حسن و امام حسین نے بڑی تندھی سے آگے بڑھایا اور پھر اس کو ایک ماہرانہ انداز سے جناب امام سجاد نے آگے لیکر جانے کی کوشش کی تو یہ وراثت جناب امام باقر کو ملی تو ان کو بہت سے ایسے شاگرد میسر آئے جنہوں نے ” تاریخی شعور ” کو معراج تک لیکر جانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ، ان میں ابو مخنف ، ہشام کلبی اور ابن اسحاق کا نام تو نمایاں ہے ہی لیکن جو کام ” نصر بن مزاحم ” نے کیا وہ اپنے ہم عصروں اور اپنے سے پہلے لوگوں سے بہت ہی زیادہ کمال کا تھا
میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ زندگی میں مری اکثر تحریریں کسی پہلے سے طے کردہ پلاٹ کا حصّہ نہیں ہیں ، کوئی حادثہ ، کوئی واقعہ اور کوئی خواب ان کو لکھنے کا سبب بنا ہے ، ابھی کل کی بات ہے کہ سیدہ رجاء نے اپنا ایک افسانہ لکھا اور اس کا عنوان بھی بہت عجیب تھا
Unresolved Love
اور اس کا ایک کردار جو راوی ہے افسانے کا کہتا ہے کہ ” وہ زات جو اکمال کو چھو چکی ، اس کی اس حالت اکمال کو تباہ کردو اور اسے اکمال پذیری کی طرف لے آؤ اور پھر اس کے جنازے پر وہ حالت اکمال سے حالت اکمال پذیری پر لوٹ آتی ہے ” تو بس ہر تحریر کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں ” مرتبہ اکمال ” پر آگیا لیکن پھر کوئی حادثہ / کوئی واقعہ مجھے ” اکمال پذیری ” کی جانب لے جاتا ہے اور مرا قلم پھر سے رواں ہوتا ہے اور اس وقت مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ میں کیا لکھنے بیٹھا ہوں اور مرے ذھن کے نہاں گوشوں سے کیا بات نکل کرآئے گی ، بس جب آتی ہے تو بہت سے ” در ہائے فہم ” کھلنے لگتے ہیں
میں آپ کو زیادہ تجسس کا شکار کرنا نہیں چاہتا ، یہ بتادوں کہ مجھے اس بات کی تلاش تھی کہ آخر جسے ہم ” شعیت یا علویت ” کہتے ہیں یا جسے ” مکتب علی شناس ” کہا جاتا ہے اس پر اسقدر خونین اور وحشتناک ” حملے ” کیوں ہوتے ہیں اور اس کی تاریخ ” خون میں اسقدر نہائی ” ہوئی کیوں ہے ؟ کیوں اس کی ہر ایک ” علامت شعور ” پر حملہ کیا جاتا ہے ؟ اور جن پر حملہ ہوتا ہے وہ اتنے زیادہ ” وفور عشق ” سے بھرے کیوں ہوتے ہیں ، جب مقام ” فنا و بربادی ” آتا ہے تو ان کے منہ سے ” اشعار ” کے پھول کیوں جھڑنے لگتے ہیں
، زرا کربلاء کو دیکھ لیں نافع بن ہلال ہوں ، حبیب ابن مظاہر ہوں ، عباس علمدار ہوں ، اس سے پہلے زرا خود جناب علی المرتضی کو دیکھ لیں کہ ” فزت بالرب الکعبۃ ” کی صدا ان کے ہاں بلند ہوتی ہے اور عباس کیوں اپنے جسم کو اپنے خون سے رنگین کرنے کو ” خضاب لگانے ” سے تعبیر کرتے ہیں گویا ” سج دھج ” کر میدان کار زار میں جانے کی بات کی جاتی ہے اور کیوں ” حجر بن عدی ” اپنے حلقہ یاراں کے ساتھ ” مرکز ظلم و جبر ” جاپہنچتے ہیں اور وہآں پر دربار ملوک کو اپنے لئے “مذبح ” خانہ بنتے دیکھ کر بھی زرا خوفزدہ نہیں ہوتے اور میں نے دور حاضر میں ” خانپور کے جلوس عزا میں خودکش بم دھماکے کے موقعہ پر لبیک یا حسین کی صدائیں بلند ہوتے دیکھیں اور کل جب ” بولان ” کی امام بارگاہ میں بم پھٹے تو بھی میں نے لوگوں کو یہی صدا بلند کرتے دیکھا
اور مجھے یاد آیا کہ ” محلہ کرخ ” پر جب عباسی خلیفہ ” معتصم باللہ ” کے بیٹے ” ابوبکر بن معتصم باللہ ” نے اپنے لشکر کے ساتھ دھاوا بولا اور سب گھروں میں سوئے ہوئے مرد ، عورتوں اور بچوں سب کو زبح کرڈالا تھا اور ان کا سب کا قصور یہ تھا کہ وہ سب کے سب ” زکر حسین ” کرنے والے تھے تو بھی میں نے کسی کو میدان چھوڑتے نہیں دیکھا تو ایک طرف تو زبردست بربریت نظر آتی ہے تو دوسری طرف ” زبردست وفور عشق ” نظر آتا ہے اور فرق یہ ہے کہ ” بربریت ” کرنے والے ” شعور تاريخ ” مٹانے پر تلے اور ” وفور عشق ” میں زبردست ” مزاحمت ” کرنے والے اس ” شعور تاریخ ” کو اور زور و شور سے پھیلاتے نظر آتے ہيں
نصر بن مزاحم یسار عراقی کوفہ میں 120 ھجری میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے جب سن شعور سنبھالا تو بڑے بڑے قاری ، فقہا ، مفسرین اور محدثین اس زمانے میں موجود تھے ، نصر بن مزاحم نے پہلے پہل حدیث ، تفسیر ، قرآت کا علم سفيان الثوري ، شعبۃ بن حجاج ، عبدالعزیز بن سیاہ ، حبیب بن حسّان ، یزید بن ابراہیم الشوستری ، ابوالجاورد اور زیاد بن منذر سے حاصل کیا اور جب تک نصر من مزاحم اپنے ” شعور ” کی پرداخت مرکز ظلم و جبر دمشق کی منشاء اور ضرورت کے مطابق کرتا رہا تو اس کو دربار وسرکار کے ماہرین اسماء الرجال ” عالم بے بدل ” قرار دیتے رہے ، لیکن جیسے ہی ” نصر بن مزاحم ” بارگاہ امام باقر میں پہنچا اور اس نے وہاں سے حاصل کردہ ” تاریخي شعور ” کی روشنی میں حقائق کو مرتب کرنا شروع کیا اور اس نے ایسی کتابیں لکھیں
(الغارات) كتاب (الجمل) (مقتل حجر ابن عدي)، (مقتل الحسين بن علي) ، ( المناقب ) اور اخبار المختار لکھیں تو وہ ایک دم سب سے زیادہ ” مغضوب و معتوب ” شخص ٹھہر گیا
اس کے بارے میں الحافظ أبو جعفر العقيلي محمد بن عمرو بن موسى بن محمد بن حماد العقيلي المكي متوفی 322 ھ نے تذکرہ کرنے کے لئے راویان حدیث و تاريخ و السیر پر جرح و تعدیل کے لئے اس کتاب کا انتخاب کیا جس کا نام ہی ” الضعفاء الکبیر ” یعنی ” بہت بڑے ضعیف راوی ” رکھا اور اس میں اس نے مزاحم بن نصر کی پوٹریٹ کچھ یوں بنائی
كان يذهب إلى التشيع وفي حديثه اضطراب وخطأ كثير، ثم ساق له نموذجا يمثل انحرافه في المرويات في تفسير قوله تعالى: وَالَّذِي جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ [ الزمر: 33].
قال نصر: الذي جاء بالصدق محمد، والذي صدق به علي، ثم علق العقيلي على ذلك بقوله: وهذا لا يتابع عليه
وہ مذھب تشیع کی جانب چلاگیا اور اسی لئے اس کی حدیث میں ” اضطراب اور کثیر خطاء پائی جاتی ہے ، اور پھر اس کی منحرف مرویات میں سے ایک تفیسر قول باری تعالی کی : والذی جاء بالصدق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو نصر نے کہا کہ جاء بالصدق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور والذی صدق بیہ سے مراد علی ہیں اور عقیلی نے اس کے اس قول پر کہا کہ ” اس کی متابعت نہیں کی جاتی
یہ ” زاہب الی التشیع ” یعنی شیعت کی جانب جانا کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی شخص کی حدیث میں ” اضطراب اور خطاء کثیر ” پیدا ہوجاتی ہے ، یہ تشیع وہ شعور تاریخ ہے جو کسی شخص میں پیدا ہوجاتا ہے تو وہ ” خطرناک حد تک ” سچ بولنا شروع ہوجاتا ہے اور اس تاریخی شعور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ شخص ” جمل و صفین و نہروان ” کی ٹھیک ٹھیک تاريخ لکھتا ہے ، ابن سباء جیسا افسانوی کردار گڑھتا نہیں ہے اورخطیب بغدادی نے نصر بن مزاحم کو جن روایات کی بنا پر مردود ٹھہرایا ان میں سے ایک روایت تو وہ ہے جو انہوں نے ” جنگ صفین ” کے موقعہ پر جناب حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطبہ کے الفاظ کے حوالے سے نقل کی ، نصر بن مزاحم نے کیا بات نقل کی تھی ، اسے پڑھ لیں ، آپ کو اندازہ ہوجائے گا
نقل أو اختلق صاحب (وقعة صفين) خطبة علي حين عزم على الخروج إلى صفين، وكان مما جاء
سيروا إلى أعداء السنن والقرآن، سيروا إلى بقية الأحزاب
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے صفین میں جانے کا عزم ظاہر کیا تو اس موقعہ پر انہوں نے خطبہ دیا کہ سنت و قرآن کے دشمنوں کی طرف چلو ، بچے کچھے گروہ کی طرف چلواور یہ بھی نصر بن مزاحم کا جرم تھا کہ انہوں جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے یہ روایت نقل کی کہامیر شام کیسے علی کی بیعت کرسکتا ہے جبکہ علی نے عتبہ ، شیبہ و ولید کو ایک ہی معرکہ میں آن واحد میں قتل کیا ہو اور مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ ابتک ان قتلوں کو بھول گئے ہوں گے
نصر بن مزاحم نے ” واقعہ کربلاء ” کو ” حسینی شعور تاریخ ” سے رقم کیا اور یہ کام نصر بن مزاحم نے ابو محنف ، ہشام الکلبی اور ابن اسحاق سے بھی پہلے کیا تھا اور اس نے ہی سب سے پہلے بہت ہی جامع طریقہ سے ” مقتل حجر بن عدی ” اور وقعۃ صفین لکھکر تاریخ کے انتہائی دلخراش واقعات کو پوری درستگی کے ساتھ بیان کیا تھا اور اسی تاریخی شعور کو زندہ کرنے کے باعث وہ ” سرکاری تواریخ ” میں ایک معتوب شخض قرار پایا
نصر بن مزاحم نے ” واقعہ صفین ” نامی جو کتاب لکھی ، اس کتاب میں ہمیں جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اقوال ، خطبات ، افعال کا اس قدر کثیر زحیرہ ملتا ہے کہ آدمی سیر ہوجاتا ہے ، اور زرا غور کیجئے کہ وہ کون سا زمانہ تھا جب ” نصر بن مزاحم ” نے ” وقعۃ صفین ” لکھی کہ جب پوری کوشش تھی کہ جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ” زات ، ان کی عادات ، ان کی فکر ” کو حرف غلط کی طرح مٹادیا جائے ، ان سے بہت کم اقوال نقل کئے جائیں ، میں نے جب ” سیرت ابن اسحاق ” پڑھی تو مری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نے اپنی ” تمام تر مائل بہ تشیع طبعیت ” کے باوجود امام محمد باقر سے صرف تین یا چار اقوال درج کئے اور طبقات الکبری میں جناب ابن سعد جو سر سے پیر تک ‘ علوی ” تھے انہوں نے بھی چند اقوال کا زکر کیا اور یہ سب کے سب مابعد اموی دور کے مورخ تھے لیکن ان کی احتیاط سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آل محمد کی فکر کو ان کے نام سے برملا نقل کرنے سے خوفزدہ تھے کیونکہ ایسا کرتے تو ان پر فوری طور پر ” رافضی ” ہونے اور غالی ہونے کا الزام داغ دیا جاتا
اور یہ تاریخ میں ایک غیر ثقہ اور نامعتبر راوی ٹھہر جاتے ، آج بھی ” تاریخی شعور ” کو ویسے بیان کرنا جیسے ” نصر بن مزاحم ‘ نے بیان کیا مجھ جیسے لوگوں کے لئے بھی ممکن نہیں ہے ، حد یہ ہے کہ آج بھی زمانہ ” منحرفین ” کو ” فرقہ پرست ” کہنے کی بجائے اور ان کے ظلم وستم کو رد کرنے کی بجائے ہم جیسے لوگوں کو ” فرقہ پرست ” ٹھہرادیتا ہے جب کبھی ہم “تاريخی شعور ” کے تودے کو پانی کی سطح سے زرا ” اوپر ” اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں نصر بن مزاحم ” کلام علی المرتضی ” کو گمنامی کے اندھیروں سے نکال کر باہر لائے تو ہمیں اس قدر خوبصورت ” متن کلام علی المرتضی ” بارے پتہ چلا
نصر : قال أبو عبد الله ، عن سليمان بن المغيرة ، عن علي بن الحسين : خطبة علي بن أبي طالب في الجمعة بالكوفة والمدينة :
« إن الحمد لله ، أحمده (1) وأستعينه وأستهديه ، وأعوذ بالله من الضلالة . من يهد الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأن محمدا عبده ورسوله ، انتجبه (2) لأمره ، واختصه بالنبوة ، أكرم خلقه وأحبهم إليه ، فبلغ رسالة ربه ، ونصح لأمته ، وأدى الذي عليه . وأوصيكم بتقوى الله ، فإن تقوى الله خير ما تواصي به عباد الله وأقربه لرضوان الله ، وخيره في عواقب الأمور عند الله . وبتقوى الله أمرتم ، وللإحسان والطاعة خلقتم . فاحذروا من الله ما حذركم من نفسه ، فإنه حذر بأسا شديدا . واخشوا الله خشية ليست بتعذير (3) ، واعملوا في غير رياء ولا سمعة ، فإن من عمل لغير الله وكله الله إلى ما عمل له ، ومن عمل لله مخلصا تولى الله أجره . وأشفقوا من عذاب الله ، فإنه لم يخلقكم عبثا ، ولم يترك شيئا من أمركم سدى ، قد سمى آثاركم ، وعلم أعمالكم ، وكتب آجالكم . فلا تغروا بالدنيا فإنها غرارة بأهلها ، مغرور من اغتر بها ، وإلى فناء ما هي . وإن الآخرة هي دار الحيوان لو كانوا يعلمون . أسأل الله منازل الشهداء ، ومرافقة الأنبياء ، ومعيشة السعداء ، فإنما نحن له وبه » .
ثم إن عليا عليه السلام أقام بالكوفة ، واستعمل العمال
.
علی نے کوفہ اور مدینہ میں جمعہ کی نمازوں مین کیا خطبہ دیا تھا ، یہ خطبات نقل کرنے والے خود علی بن حسین یعنی امام سجاد زین العابدین تھےبے شک حمد اللہ کے لئے ہے ، میں بھی اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں اور میں ” ضلالت ” سے پناہ مانگتا ہوں ، اور جسے اللہ ( اس کے اعمال قبیح کے سبب ) ضلالت کے راستے پر گامزن کرے ، اس کو پھر کوئی ہدايت نہیں دے سکتا
زرا فقروں کے حسن پر غور کریں آسال اللہ منازل الشہداء ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ سے ہم شہداء کا گھر طلب کرتے ہیں ، و مرافقۃ الانبیآء —- اور انبیاء کی رفاقت مانگتے ہیں ۔۔۔۔۔ و معشیۃ اسعداء —- اور کامیاب لوگوں کی زندگی طلب کرتے ہیں بے شک ہم ان کے لئے اور ان کے ساتھ ہوں گے – تو جناب علی المرتضی نے کوفہ میں ان آدرشوں کے ساتھ قیام کیا اور گورنر مقرر کئے ، یہ وہ گفتگو ہے جو شام والوں کے ہاں اور صفین میں اکٹھے ہونے والوں کے ہاں نظر نہیں آئے گی
نصر بن مزاحم نے خود جناب علی کی زبانی اپنے مخالف محاذ بنانے والوں کے لئے القاب اسی ” وقعۃ صفین ” میں درج کئے کہ ان سے لڑنے والے ” ناکثین ” یعنی عہد کو توڑنے والے ، قاتلین شعیتنا و اخوننا ہمارے پیرو اور بھائیوں کے قاتل ہیں
نصر بن مزاحم نے یہ سب لکھا تو ان کے بارے میں یہ لکھ دیا گیا کہ
رافضي جلد تركوه، ثم نقل عن أبي خيثمة: كان كذّاباً
کٹّر رافضی تھے ،متروک کردیا گیا ، پھر ابی خثیمہ سے نقل کیا کہ وہ ” کذاب ” تھے
یہ لکھنے والا شیخ ابن تیمیہ کا ہم عصر اور شاگرد تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن عدی حاتم ،اور دارقطنی نے انھیں ” ضیعف ” لکھنے پر اکتفاء کیا تھا ان پر “جھوٹ ، بہتان ” کا الزام نہیں دھرا تھا ، کیونکہ ” ضعف ” تو خود اہل تسنن کے ہاں ” فضائل ” کے باب میں قابل قبول ہوتا ہے اس سے بچنے کے ۂغے ذھبی ، شیخ ابن تیمیہ کو ان پر ” کذب و افتراء ” کا الزام دھرنا پڑا ، کیونکہ اس کے بغیر ” نصر بن مزاحم ” راندہ درگاہ ہونہیں سکتا تھا اور جوزجانی نے زرا ہاتھ ہلکا رکھتے ہوئے جب یہ لکھا کہ
كان نصر زائغاً عن الحق مائلاً
نصر تھوڑا سا حق سے ہٹ گیا تھا تو اس تھوڑے سے کو بڑا بنانے کے لئے خطیب بغدادی میدان میں اترے اور یہ حاشیہ اس پر جڑدیا
أراد بذلك غلوه في الرفض
اس سے مراد ان کا رفض میں غلو تھا
جبکہ رفض تو بذات خود ایک حالت غلو ہے ، اگر ایسا تھا تو جوزجانی نے صاف صاف کیوں نہیں لکھانصر بن مزاحم کا ” غلو ” تھا کیا کہ انہوں نے تاریخ میں شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں کہا ” شام والوں کا کیمپ بھی ٹھیک ، لشکر شام صفین میں جو تھا وہ بھی ٹھیک اور کوفہ سے جو نکلا کیمپ شیعان علی وہ بھی ٹھیک ، لشکر یزید بھی ٹھیک اور قافہ حسین بھی ٹھیک ” سب ٹھیک قاتل بھی ، ناکث بھی اور مقتول بھی ، ایفائے عہد کرنے والے بھی ، نصر بن مزاحم اگر سب چھپا جاتا تو اس کو کبھی بھی زائغا عن الحق مائلا نہ لکھا جاتا ، وہ کبھی شیعی جلد ترکوہ کے جملے سے یاد نہ کیا جاتا ، وہ ضعفاء الکبیر میں درج نہ ہوتا ، اس نے مقتل حسین بن علی نہ لکھی ہوتی تو وہ کبھی بھی اسماء الرجال کی کتابوں میں ” ولن ” کے طور پر درج نہ ہوتا بلکہ ایک ھیرو کے طور پر یاد رکھا جاتا
مسلمانوں کے سماج میں ” ٹھیک تاریخی شعور ” کو پاجانے والوں کے ساتھ یہی ٹریجڈی اور المیہ ہوا کرتا ہے جو نصر بن مزاحم کے ساتھ ہوا ، امام سجاد نے ٹھیک کہا کہ ” کنّا نعلم مغازی رسول اللہ کما نعلم سورۃ من القرآن ” کیوں یہ مغازی اور سیر کی تعلیم ہی شعور کی ٹھیک ٹھیک بنیادوں کی تعمیر کرتی ہے
تاریخ کو
Manipulate
Manufacture
کاریگری کی نظر کرنے کی کوشش ہی اصل میں شعور تاريخ کو گدلا کرنے کے ہوتی ہے اور آج کے دور میں یہ جو مجالس عزاء اور جلوس ہائے عزاداری ہیں یہ تاریخ کو گدلا ہونے سے بچاتے ہیں اور یہ اس ” ٹریجڈی ” کی شدت اور انتہا کو اپنی اصل کیفیت کے ساتھ سامنے لاکر رکھ دیتے ہیں جسے کبھی ” دو شہزادوں کی لڑائی ” کہا جاتا ہے تو کبھی اسے ” اقتدار کی جنگ ” کہا جاتا ہے ،
کبھی اسے قریش کے دو ذیلی قبیلوں کی جنگ قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کو کبھی ” قبائلی تنازعے ” کا نام دے دیا جاتا ہے
نصر بن مزاحم نے اس زمانے میں ” جمل ، صفین ، مقتل حجر بن عدی ، مقتل حسین بن علی ” ان سب کو ” عالمگیر استعاروں ” کے طور پر متعارف کرایا اور ان استعاروں کو قبیلے ، حسب نسب ، زات پات اور کسی فرقہ وارانہ تنگنائیوں میں قید کرنے والوں کو مسکت جواب دیا اور ش” تبراء ” کو ظلم ، جبر ، ظالم ، جابر ، ناکث ، نکث ، غدر و غدار سے بیزاری ، علیحدگی اور اظہار برآت سے مشروط رکھا جبکہ اس دور میں بھی ظالموں نے اسے ” گالی گلوچ ، بدتہذیبی ، پامالی تقدیس ” قرار دینے کی کوشش کی تھی اور اصل مطلب کو غارت کرنے کی کوشش پوری کی تھی ،
نصر کوفہ میں پیدا ہوا ، یہیں پلا بڑھا اور پھر بغداد کی گلیوں ، کوچوں میں اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ گزارا ، بنو امیہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی تحریکوں کا وہ حصّہ بنا رہا ، اس نے زید بن علی کے صاحبزادے ابراہیم نفس زکیہ اور ابوالسرایا کی بغاوتوں کا ساتھ دیا اور السوق کا گورنر بھی رہا ، ساری زندگی اس نے فکری و عملی مزاحمت میں گزاری اور شعور کی جو آگ اس نے امام باقر و امام جعفر الصادق کے ہاں سے پائی تھی ،اس آگ سے اس نے ظلمت کدے کو جلاکر بھسم کرنے کی پوری پوری کوشش کی
میں نصر بن مزاحم پر لکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہمارے شعور تاریخ کو پروان چڑھانے والے اس فلسفی ، ماہر تاريخ بارے آج کے ہمارے ” حسینی نوجوان ” کتنا جانتے ہیں ، مجھے وہ تاریخ جدید میں شعور محنت کشاں کو گدلا کرنے اور حکمرانوں کے خیالات کو غالب کرنے کی راہ میں فکری روکاوٹ ڈالنے والے ” انتنیو گرامچی ” کی طرح کا کردار لگتا ہے اور ابھی اس کردار کو اور دریافت کرنے کی ضرورت باقی ہے
نصر بن مزاحم اس لئے اپنے دور کا ” انتینو گرامچی ” تھا کہ جس زمانے میں اس نے کوفہ میں آنکھ کھولی اور بغداد میں زندگی گزاری تو اس سارے زمانے میں اس نے پانچ اموی خلفاء کا دور دیکھا اور امین کے زمانے تک کا عباسی دور اس نے ملاحظہ کیا ، اس نے اپنی زندگی میں تین شورشیں خوارج کی دیکھیں جن میں موصل میں بہلول بن بشر متوفی 119ء ، ضحاک بن قیس متوفی 128 ھ کی بصرہ میں ، عبدالسلام بن ہاشم الکیشری متوفی 162 ھ جزیرۃ العرب میں ہونے والی شورشیں شامل تھیں ، اسی عرصہ کے دوران اس نے کوفہ میں زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب متوفی 122ھ کی تحریک دیکھی جس کا مرکز کوفہ تھا ،
پھر اس نے محمد بن عبداللہ النفس الزکیۃ کی مدینہ سے اٹھی تحریک انقلاب بنو امیۃ کے خلاف دیکھی اور بصرہ میں ابراہیم بن عبداللہ بن زید بن علی کی تحریک انقلاب دیکھی اور یہ 145ھ کا زمانہ تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نصر بن مزاحم کی عمر 23 سے 24 سال ہوگی اور اس نے ان تحریکوں کے نتیجہ میں بنو امیہ کے خلاف ابو مسلم خراسانی کی قیادت میں بہت بڑی بغاوتی تحریک کا جنم دیکھا جس نے بنوامیہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور ” عباس السفاح ” عباسی کا دور شور ہوا اور نصر بن مزاحم نے اسی زمانے میں مسلم تاریخ و سیرت کے بانیوں میں شمار ہونے والے ممتاز ماہرین تاریخ کو اپنا ہم عصر پایا
جن میں محمد بن عمر الواقدی متوفی 207ھ ، علی بن محمد المدائنی متوفی 228ھ ، ہشام الکلبی متوفی 204ھ ، محمد بن اسحاق اور ابو الحسین علی الحسین بن علی المسعودی شامل ، محمد بن جریر طبری ، ابویعقوب الیعقوبی ، ابوحنیفہ دینوری ، احمد بن یحیحی بن جابن ابوالحسن شامل ہیں ، اور یہ وہ زمانہ ہے جب جو ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی ، حنبل اور ان سے پہلے حماد ، سفیان بن عنییہ وغیرہ کا زمانہ تھا اور یہی امام باقر و امام جعفر الصادق ، امام موسی کاظم وغیرہ کا زمانہ ہے اور ادیب شہیر عبداللہ ابن مقفع متوفی 147ھ ، موجد علم نحو علی بن حمزہ الکسائی متوفی 197ھ ، ماہر و بانی علم لغت حماد الراویۃ متوفی 156ھ ، نحو کا ایک اور ماہر یحیحی بن الفراء متوفی 207ھ موجود تھے اور نصر بن مزاحم کی زندگی کا جو آخری دور ہے
اس میں معتزلہ کے سب سے بڑی علمبردار ضرار بن عمرو القاضی متوفی 180ھ اور ابوالھذیل العلاف 226ھ کا توتی بول رہا تھا جہمیہ یعنی جبریہ کا سب سے بڑا علمبردار اور بانی ” جہم بن صفوان ” بھی ان کا ہم عصر تھا اور مرجئہ کا مکتب فکر بھی اسی زمانے میں تشکیل پارہا تھا ، ایسے میں ” نصر بن مزاحم ” نے باقیات بنو امیہ اور علمبرداران ” ملوکان عباسی ” کی ” مینوفیکچرڈ تاریخ ” کے مقابلے میں ” عوامی تاریخ ” کی تشکیل کی اور یہ وہ تاریخ تھی جس کو چھپانے کی کوشش ہر طرح سے کی جارہی تھی تو انہوں نے اصل تاریخ لوگوں کے سامنے پیش کردی
Source: