درِ حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ – مبشر علی زیدی
گزشتہ سال امام حسین کے چہلم پر کربلا میں ڈھائی کروڑ عزادار پہنچے تھے۔ پورے کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نہیں ہے۔ کیا میں نے غلطی سے دو تین صفر بڑھادیے ہیں؟یہ میں وکی پیڈیا دیکھ کر لکھ رہا ہوں۔ 2014 میں 25.1 ملین عزادار، 2013 میں 22 ملین سوگوار۔
خود اندازہ لگائیں کہ آج کربلا میں کیا حال ہے۔ میں سب دیکھ رہا ہوں۔ الحمداللہ حج کرچکا ہوں۔ میدان عرفات میں بھی لاکھوں حاجی ایک ساتھ دیکھ چکا ہوں۔ وہاں لاکھوں کو محمد نماز پڑھاتے ہیں۔ یہاں لاکھوں کو حسین نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کی ایک حدیث یاد آگئی۔ حسین منی و انا من الحسین
۔
کبھی سمندر میں پیراکی کی ہے؟ تیز لہریں اٹھتی ہیں۔ ہاتھ پیر چلانے پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔ کربلا میں انسانوں کا سمندر ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پیر چلانا پڑتے ہیں۔ کہنیاں اور دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔میں محمد علی بھائی کے سامنے کہہ بیٹھا، آج کتنا رش ہے۔ وہ تڑپ گئے۔ کہنے لگے، میں پہلی بار 1993 میں کربلا آیا تھا۔ محرم کے دن تھے۔ غازی عباس کے روضے پر حاضری دینے پہنچا تو وہاں صرف دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میں تھا۔ تم رش سے گھبرارہے ہو؟ میں تنہائی سے گھبراگیا تھا۔ محمد علی بھائی کی آواز بھرا گئی۔
پھر انھوں نے کہا، کیا تم یقین کرو گے کہ ان دنوں مقامی افراد کو کربلا آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیا تم یقین کرو گے کہ حضرت عباس کے روضے کا باب قبلہ ٹوٹا ہوا تھا۔ کیا تم یقین کرو گے کہ امام حسین کے روضے میں صرف ایک ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ باقی حرم میں روشنی کا انتظام نہیں تھا۔
میں نے تصور باندھنے کی کوشش کی۔ کربلا میں روشنیوں کا سیلاب دیکھ رہا ہوں اس لیے میری امیجی نیشن بھٹک گئی۔ حسین کی قبر پر اندھیرے کا عکس نہیں بناسکی۔ بی بی فاطمہ کی قبر پر اندھیرے کی تصویر کھنچ گئی۔
میرا چھوٹا بھائی کہتا ہے، دوسرے لوگ اپنی ماں کی قبر پر شمع جلاتے ہیں۔ ہم روشنی کیوں نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں، ہاں کسی دن یہ بات بتاؤں گا۔
میرے بیٹے نے دریافت کیا کہ کیا ہم کسی سے ملنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، زیارت کی حد تک درست لیکن ہم کسی سے ملنے نہیں آئے۔ بیٹے نے کہا کہ یہاں نقارہ بج رہا ہے۔ کیا ہم جنگ کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم جنگ کرنے نہیں آئے۔ اس نے سوال کیا، یہاں زنجیر زنی ہورہی ہے۔ کیا ہم خون کا ماتم کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم خون کا ماتم کرنے نہیں آئے۔
بیٹے نے پوچھا، پھر ہم کربلا کیوں آئے ہیں؟ میں نے کہا، یہ پیاسوں کی سرزمین ہے۔ ہم یہاں پانی پلانے آئے ہیں۔ آؤ، میرے ساتھ سبیل میں کربلا کے پیاسوں کو پانی پلاؤ۔یہ حسین یہاں پانی کے جام پلائے۔ وہ حسین وہاں کوثر کے جام پلائے گا۔ کربلا میں ہر ملک کا نمائندہ موجود ہے، ہر مذہب کا بھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کربلا کی جنگ میں امام حسین کے لشکر میں دو ہندو بھی شامل تھے؟
ہندوستان میں ہندو برہمنوں کا ایک خاندان دت مشہور ہے۔ فلم اسٹار سنیل دت، سنجے دت، ممتاز صحافی برکھا دت کا تعلق اسی سلسلے سے ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ امام حسین کے محب تھے اور کربلا کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ایک بزرگ راہیب دت جنگ میں بچنے کے بعد واپس ہندوستان آگئے تھے۔ انھوں نے ہندوؤں میں عزاداری کی بنیاد رکھی۔ یہ لوگ مندر نہیں جاتے۔ محرم میں جلوس اٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ خون کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ یہ خود کو مسلمان نہیں، حسینی برہمن کہلواتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ یہ روایات درست ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندو کو شہید کہنا درست ہے یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ہندو کربلا میں دفن ہیں یا نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر یہ سب سچ نہیں بھی ہے تب بھی حسینی برہمنوں کی حسین سے محبت سچ ہے۔
درِ حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے
۔