سجدہ – مبشر علی زیدی
آج رجب کی بائیسویں ہے، میری سال گرہ کا دن۔ سنہ ساٹھ ہجری میں امیر معاویہ کا انتقال اسی تاریخ کو ہوا تھا۔ اس کے چند دن بعد امام حسین کو مدینہ چھوڑنا پڑا۔ وہ پہلے مکے گئے اور پھر کربلا۔ پتا ہے، میں بھی یہ تینوں شہر دیکھ چکا ہوں۔ اور اتفاق کی بات ہے کہ۔
ارے تم میری بات بیچ میں کیوں کاٹ دیتی ہو؟ کیا کہا تم نے؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟ کس نے کہا؟ اچھا، یہ بات تم بعد میں بھی کرسکتی تھیں۔ پہلے میری سنو۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ کربلا دیکھ چکا ہوں۔ تم حیران کیوں ہونے لگتی ہو؟ ہاں ہاں، میرا مذہب سے کیا واسطہ۔ سچ کہ نماز نہیں پڑھتا، سچ کہ روزے نہیں رکھتا۔
خون کا ماتم کرنا تو دور کی بات، کبھی سینے پر ایک ہاتھ نہیں مارا۔ کبھی مارے بندھے محرم کی مجلس میں جابیٹھا تو مصائب سن کر ایک آنسو نہ نکلا۔ میرے دوست مجھے پتھر کہا کرتے تھے۔
وہ سب درست لیکن بچپن سے کربلا والوں کی اتنی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ ایک بار بے قرار ہوکر ایک ٹور آپریٹر کے پاس نام لکھوادیا۔
کربلا پہنچے تو قافلے کے شرکا کا عقیدت سے برا حال تھا۔ سب کے سب باادب لوگ پاکیزہ مقام پر جانے سے پہلے غسل اور طہارت مں لگ گئے۔ میں بدتمیز سر جھاڑ منہ پہاڑ، ایسے ہی حرم کی طرف چل پڑا۔
جو لوگ پہلی بار روضے پر جاتے ہیں، انھیں بتایا جاتا ہے کہ پہلے وضو کریں، پھر باب قبلہ سے اندر داخل ہوں۔مجھے یاد نہیں کہ وضو کیا تھا یا نہیں۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کون سے دروازے سے داخل ہوا۔ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ایک شخص نے بازو پکڑکے کہا، جو یہاں زیارت کو آتا ہے، پہلے اسے دو رکعت نماز پڑھنا ہوتی ہے۔ چلو پڑھو نماز۔
میں مصلے پر ہکا بکا کھڑا تھا۔ آخری بار نماز کب پڑھی تھی، یاد نہیں آیا۔ نماز بھی یاد نہیں آئی۔ نیت کرنا بھی بھول گیا۔ کچھ دیر یونہی قیام کے بعد رکوع میں چلاگیا، پھر سجدے میں گرگیا۔ہونٹ خاموش تھے، آنکھیں بند تھیں، ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔ مجھے خیال آیا کہ دو چار گز ادھر یا دو چار گز ادھر، امام حسین نے آخری نماز پڑھی ہوگی۔
لوگ کہتے ہیں، امام کے سب دوست، رشتے دار اور انصار شہید ہوچکے تھے لیکن وہ پھر بھی اکیلے آخر تک شیروں کی طرح لڑتے رہے۔ بڑا کمال کیا۔وہ بھی کمال تھا۔ لیکن مجھے تو یہ خیال آیا کہ اٹھارہ سال کے بیٹے کے سینے میں چُھرا اور چھ مہینے کے بیٹے کے گلے میں تیر پھنسا ہوا دیکھنے کے بعد اُس شخص نے شُکر کا سجدہ کس دل سے کیا ہوگا؟
سجدے میں پڑے پڑے میرا دل بگڑگیا۔ میری وہ نماز ادھوری رہ گئی جو مجھے آتی بھی نہیں تھی۔جب میں کسی طرح سیدھا ہوکر بیٹھا تو میرے برابر میں موجود شخص نے بتایا کہ مجھ پتھر کی پتھرائی ہوئی آنکھوں نے خون کا ماتم کیا ہے۔ ہاں، تو تم کچھ دیر پہلے کیا پوچھ رہی تھیں؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟