کربلا میں شب عاشور – مبشر علی زیدی

karbla main shab asorekb1

کربلا میں آج 9 محرم ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کربلا کی جنگ 9 محرم کو ہونی تھی لیکن امام حسین نے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔

امام نے مہلت مانگی؟ کیا مطلب؟ کیوں؟

امام حسین نے کہا، ایک رات کی مہلت چاہیے تاکہ ہم مرنے سے پہلے جی بھر کے عبادت کرلیں۔ اس رات کو شب عاشور کہا جاتا ہے۔ لاکھوں، یا شاید کروڑوں لوگ آج کی رات نہیں سوتے۔ آپ اس رات کیا کرتے ہیں؟اگر آپ شیعہ ہیں تو آج کی رات امام بارگاہ میں گزاریں۔ اگر آپ سنی ہیں تو آج کی رات مسجد میں گزاریں۔ اگر آپ کسی مذہب کو نہیں مانتے تو آج کی رات اور کل کا دن لوگوں کی خدمت میں گزاریں۔ کسی غریب کو کھانا کھلادیں۔ کسی پیاسے کو پانی پلادیں۔ یہی انسانیت ہے۔ یہی حسینیت ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ کس کے پاس کتنی مہلت ہے۔ ایک رات بھی ہے یا نہیں۔
۔
اگر آپ کبھی کربلا نہیں آئے تو آپ کے ذہن میں ایک میدان کا تصور ہوگا۔ خیال ہوگا کہ اس میدان میں دو مزار بنادیے گئے ہیں۔ تصویروں میں دونوں مزاروں کے درمیان کی جگہ نظر آتی ہے۔ کربلا ٹی وی چینل ان مزاروں اور ان کے درمیانی راستے پر ہونے والی عزاداری کو چوبیس گھنٹے نشر کرتا رہتا ہے۔

میں لکیروں کے بجائے لفظوں سے موجودہ کربلا کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کربلا ایک صوبے کا نام ہے۔ اس کے بیچ میں ایک شہر ہے جس کے اطراف اب پہرا ہے۔ اندر داخل ہونے والوں کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔ شہر میں عمارتیں ہیں۔ نئے پرانے ہوٹل ہیں، چھوٹی دکانوں والی قدیم مارکیٹیں ہیں، ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں گھر بھی ہیں۔

کربلا کے مرکز میں دو روضے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے احاطے ہیں۔ چاروں طرف کمرے اور دفاتر، بیچ میں صحن اور مرکز میں گنبد۔ گنبد کے نیچے ضریح۔ میں پچھلی بار آیا تھا تو صحن کھلے تھے لیکن چھتیں ڈالنے کا انتظام ہورہا تھا۔ اس بار سب چھتیایا جاچکا ہے۔

دونوں روضوں میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں۔ ہر دروازے کا ایک نام ہے۔ اس پر کوئی ایک سلام بھی لکھا ہے۔ میں وہ سب کسی آئندہ تحریر میں درج کروں گا۔ سمجھانے کو صرف ایک لکھ دیتا ہوں۔ روضہ حسین کے ایک دروازے کا نام باب قبلہ ہے۔ اس پر السلام علیک یا سید الشہدا لکھا ہے۔

ہر دروازے کے قریب جوتے اور امانتیں سنبھالنے والے بیٹھے ہیں۔ آپ جوتے اور موبائل فون ان کے حوالے کردیں۔ وہ آپ کو ٹوکن دے دیں گے۔ موبائل فون اور کیمرے اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔شمر لعین نے جہاں امام حسین کا سر کاٹا، وہ ان کی قبر سے الگ مقام ہے لیکن چند قدم دور گنبد کے نیچے ہی ہے۔ یہ ایک تنگ کمرا ہے جس میں ایک وقت میں چار چھ سے زیادہ آدمی داخل نہیں ہوسکتے۔ آپ کتنے ہی بہادر آدمی کیوں نہ ہوں، اس کمرے میں پہنچ کر گھبرا جائیں گے۔ اگر حسین سے محبت ہے تو تڑپ جائیں گے۔

میں لکھ چکا ہوں کہ امام کی ضریح کے ساتھ گنج شہیداں ہے۔ بیشتر شہدا وہیں دفن ہیں۔ کچھ فاصلے پر اسی گنبد کی عمارت کے نیچے حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔

کئی قبریں اس مرکزی روضے سے دور ہیں۔ جیسے حضرت عباس، جن کی قبر پر الگ روضہ ہے۔ وہ قبر اس لیے دور ہے کہ غازی کو دریا کے کنارے شہید کیا گیا تھا۔ یہاں حُر کی قبر بھی نہیں۔ یہاں بی بی زینب کے بچوں عون اور محمد کی قبریں بھی نہیں۔ بی بی نے اپنے بچوں سے کہا تھا، امام حسین پیاسے ہیں۔ خبردار اگر دریا کا رخ کیا تو۔ بچوں نے دریا سے منہ موڑا اور لڑتے لڑتے کہیں دور نکل گئے۔ وہیں قتل ہوئے۔ وہیں دفن ہوئے۔

روضہ حسین کے سامنے ایک الگ نسبتاً چھوٹی عمارت ہے۔ اس کا نام تلہ زینبیہ ہے یعنی زینب کا ٹیلہ۔ عاشور کے دن عصر کے وقت جب شمر لعین خنجر لے کر، سجدے میں پڑے ہوئے امام کی پیٹھ پر چڑھا تو بی بی نے اس ٹیلے پر چڑھ کر وہ منظر دیکھا۔ اس مقام پر سیڑھیاں بنادی گئی ہیں۔ بہت سے لوگ ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھ پاتے۔ جسم لرزنے لگتا ہے۔ پیروں سے جان نکل جاتی ہے۔

امام حسین کے روضے کے ایک جانب شارع سدرہ ہے۔ وہیں ایک مقام ہے جہاں امام حسین کے اٹھارہ سال کے بیٹے علی اکبر کو سینے میں برچھی مارکے قتل کیا گیا تھا۔ ایک مقام ہے جہاں چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر مار کے شہید کیا گیا تھا۔ شارع سدرہ پر اب ہوٹل بن گئے ہیں۔ ان کے پیچھے پتلی پتلی گلیاں اور رہائشی مکان ہیں۔ یہ دونوں مقامات ان تنگ گلیوں کے بیچ ہیں۔ وہاں زائرین کا ہجوم ہوتا ہے۔

روضوں سے کچھ دور خیمہ گاہ ہے۔ امام حسین کے لشکر کی خیمہ گاہ۔ وہاں اب بس تین چار خیمے لگے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف عمارتیں ہونے کی وجہ سے وہ تصور تو پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک بار آپ کسی خیمے میں جاکر بیٹھ جائیں تو کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت عباس کے روضے کے ایک جانب ایک سڑک کا نام شارع علقمے ہے۔ وہاں دو مقامات ہیں جہاں غازی کے بازو کاٹ دیے گئے تھے۔ علقمہ اس نہر کا نام تھا جو دریائے فرات سے نکلتی تھی اور کربلا تک آتی تھی۔ وہ نہر صدیوں پہلے خشک ہوچکی۔ اب صرف اس کا نام رہ گیا ہے۔

لیکن کربلا میں ایک نہر موجود ہے۔ اس وقت میرے سامنے تاریخ کی کوئی کتاب نہیں۔ ایک مجلس میں جو سنا وہ بیان کررہا ہوں۔ لکھنو کے ایک نواب کی والدہ کربلا آئیں تو انھوں نے پوچھا، دریا کہاں ہے؟ جواب ملا کہ نہر تو خشک ہوچکی، دریا راستہ بدل چکا۔ انھوں نے کہا، دریا کے بغیر کربلا کا تصور کیسے کریں؟ انھوں نے یہاں ایک نہر کھدوائی۔ یہ نہر شارع سدرہ کے اختتام پر موجود ہے۔ اس میں آب رواں نہیں بلکہ ٹھہرا ہوا پانی ہے۔

نہر کھودنے سے جتنی مٹی نکلی، وہ بیگم صاحبہ چھکڑوں پر لدواکر لکھنو لے گئیں اور اس سے وہاں امام بارگاہ تعمیر کروایا۔ لکھنو کے کوئی دوست یہ تحریر پڑھیں تو میری تصحیح کردیں۔
۔
آج ایک نام نہاد دہریے نے مجھے کراچی سے فون کیا۔ پتا نہیں درخواست کی یا حکم دیا کہ کربلا سے ایک چٹکی خاک شفا لیتے آؤ۔ میں نے کہا، تم تو خدا کو نہیں مانتے، مذہب کو نہیں مانتے، شیعہ ازم کو نہیں مانتے۔ اس نے کہا، ہاں کسی کو نہیں مانتا لیکن حسین کو مانتا ہوں۔

Comments

comments