رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی، قدیم و جدید مکتبِ دیوبند – امجد عباس
ایک عرصہ سے مختلف اسلامی مسالک کی ایک دوسرے کے خلاف لکھی گئی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔
حالیہ دِنوں میں معروف دیوبندی عالم حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی “المھند علیٰ المفند یعنی عقائدِ علماءِ اہلِ سنت دیوبند” کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، اس کتاب میں علماءِ دیوبند نے اپنے بنیادی عقائد و نظریات بیان کیے ہیں، اس پر مشاہر علماءِ دیوبند جیسے شیخ الہند حضرت محمود الحسن صاحب، حضرت اشرف علی تھانوی صاحب، شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری، مفتی عزیز الرحمٰن صاحب، مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولانا نانوتوی کے فرزند حضرت مولانا محمد احمد کی تصدیقات موجود ہیں۔
اس کتابچہ کی غرضِ تالیف کچھ یوں ہے کہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے علماء دیوبند کی مختلف عبارتیں جمع کر کے اُن پر حرمین شریفین کے علماء سے کفر کے فتاویٰ لیے، جواب میں دیوبندی علماء نے اپنے اکابر کی عبارات کی تاویل کی، تو حرمین شریفین کے علماء نے کچھ سوالات علماءِ دیوبند کی خدمت میں ارسال کیے، اِس کتابچہ میں وہ سوالات اور اُن کے جوابات دیے گئے ہیں۔ اِس حوالے سے یہ کتابچہ کافی مفید ہے۔
اِس کتابچہ کا بارہواں سوال علماءِ حرمین نے کچھ یوں کیا ہے:
محمد بن عبد الوہاب نجدی حلال سمجھتا تھا مسلمانوں کے خون اور ان کے مال و آبرو کو اور تمام لوگوں کو منسوب کرتا تھا شرک کی جانب۔
اس کے متعلق اے علماءدیوبند! تمہاری کیا رائے ہے؟
سوال کا لب و لہجہ و مزاج سمجھتے ہی علماء دیوبند فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک اُن کا وہی حکم ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے اور خوارج ایک جماعت ہے۔۔۔ان کا حکم باغیوں کا ہے۔ اور علامہ شامی نے اس کے حاشیے پر فرمایا ہے ” جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبد الوہاب کے تابعین سے سرزد ہوا کہ نجد سے نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے، اپنے کو حنبلی بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدے کے خلاف ہو وہ مشرک ہے۔ اسی بناء پر انہوں نے اہل سنت اور علماء اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا، یہاں تک کہ اللہ نے ان کی شوکت توڑی۔۔۔باقی رہا سلفِ اسلام کو کافر کہنا سو حاشا ہم ان میں سے کسی کو کافر کہتے یا سمجھتے ہوں، بلکہ یہ فعل ہمارے نزدیک رفض اور دین میں اختراع ہے۔ ہم تو اۃن بدعتیوں کو بھی جو اہل قبلہ ہیں کافر نہیں کہتے جب تک دین کے ضروری حکم کا انکار نہ کردیں۔۔۔
(المھند علیٰ المفند،صفحہ 37- 38، بارہواں سوال)
دیکھیے صاحب!
کل اکابر علماءِ دیوبند کا علماءِ حرمین شریفین سے واسطہ پڑا جو وہابی علماء کے مخالف تھے، تب پرانے اور اصلی دیوبند علماء کرام نے سعودی وہابیوں کو “خارجی” قرار دے کر اپنے خلاف فتاوے ختم کروا لیے، دارالعلوم دیوبند کی اپنی بھی یہی فکر تھی، وہ مسلمانوں کی “تکفیر” کے قائل تھے نہ ہی مسلح تحریکوں کے۔ دار العلوم دیوبند نے آج تک کسی مسلح تحریک کی مدد نہیں کی، جہادِ کشمیر یا افغان طالبان کا مسئلہ ہو یا پاکستانی طالبان کا، دارالعلوم نے ایسی تحریکوں سے خود کو شروع سے ہی الگ رکھا ہے۔
اب نئے علماءِ دیوبند کی حالت یہ ہے کہ آلِ سعود کے تعاون کو دیکھا تو اُنہیں اسلام کے “حقیقی” خادم قرار دیکر انعامات وصول کر لیے، امام کعبہ کے “تاریخی” استقبال کی سعادت بھی علماءِ دیوبند کو حاصل ہوئی۔
گویا من حیث المکتب، دیوبندیت نے قدماء کے عہد میں سعودی سلفی تحریک کی مخالفت کی، جبکہ متاخرین نے حمایت کر دی۔
اسے کہتے ہیں رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
یا
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی نظریات وقت اور ضرورت کے پیشِ نظر بدلتے رہتے ہیں، اس حوالے سے سعودی علماء و حکومت نے بھی پالیسی بدلی ہے، کل تک امام ابو حنیفہ کی توہین کی جاتی تھی، اب اُن کا نام احترام سے لینے کے ساتھ ساتھ دیوبندی علماء کرام پر نوازشیں جاری ہیں جبکہ بریلوی علماء جنہیں کل تک مشرک کہا جاتا تھا، اب اُنہیں بھی اپنے ہاں عزت و احترام سے مدعو کر لیا۔ اب اُن “مجاہدوں” کا کیا ہوگا جو کہا کرتے تھے کہ ہم نے سعودی حکومت سے بریلویوں کو مشرک قرار دلوا دیا ہے، بس جلد ہی اِن کے حج پر پابندی لگائی جائے گی، اسی طرح مقلدین کو گمراہ و کافر تک کہنے والے سلفی علماء کرام کی “ایمانی قوت” اب ماند پر رہی ہے۔
اب جان لینا چاہیے کہ یہ سب “کافر، کافر”/ “مشرک، بدعتی” کے کھیل ہوائے نفسانی اور سیاسی مقاصد کی خاطر کھیلے جاتے ہیں، پھر بوقتِ ضرورت اِن سے ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے، ورنہ اگر اِن کا تعلق احکاماتِ خداوندی سے ہو تو کل کا مشرک، اٰسی حالت میں آج مومن کیسے قرار پا سکتا ہے، یا کل کا “خارجی” آج کا “ترجمانِ اسلام” ہوجائے!!!۔
صاحبانِ عقل کے لیے اِس میں کافی نشانیاں ہیں۔
(اس کتابچہ میں معتبر علماءِ دیوبند نے “میلاد منانے” کو بھی جائز لکھا ہے، حیات النبی کو بھی اپنا مسلمہ عقیدہ گردانا ہے، نیز قصدِ زیارتِ قبرِ نبوی کو اچھا شمار کیا ہے، احباب ضرور مطالعہ کریں)