آپ اپنے والدین کے لیے زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں؟ – مبشرعلی زیدی
میری پیاری امی کا انتقال ہوچکا ہے۔ میں قرآن پاک خریدتا ہوں اور امی کی طرف سے مسجدوں میں رکھ دیتا ہوں۔ چاہے کوئی سُنی پڑھے، شیعہ پڑھے، مقلد پڑھے، غیر مقلد پڑھے، کچھ ثواب امی کو بھی پہنچتا ہوگا۔امام حسین کا حرم بھی خدا کی مسجد ہے۔ یہاں بھی نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہاں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ طاقچے بنے ہیں جن میں قرآن پاک رکھے ہیں۔ تسبیحیں رکھی ہیں۔ کوئی زمین پر سجدہ نہ کرنا چاہے تو سجدہ گاہیں رکھی ہیں۔
پچھلی بار میں کربلا آیا تو دیکھا کہ حرم کے خدام بہت چوکس ہیں۔ نہ کچھ لانے دیتے ہیں، نہ لے جانے دیتے ہیں۔ میں نے باہر ایک دکان سے چار قرآن پاک خریدے اور چپکے سے حرم میں داخل ہوگیا۔ ایک طاق میں رکھنے کو تھا کہ ایک خادم نے پکڑلیا۔ میں گھبرا گیا۔
وہ نرم لہجے میں کچھ کہتا تھا لیکن عربی بولنے کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ میرے بازو کو گرفت میں لے کر ایک دفتر میں پہنچا۔ میں سمجھا کہ اب خیر نہیں۔ نہ جانے کیا حشر کریں۔ خادم نے شیخ الخدام کو کچھ بتایا۔ انھوں نے جھک کر مجھے سلام کیا۔ عربی، فارسی اور اردو کی آمیزش سے میرا شکریہ ادا کیا۔ قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ پھر مجھے تحفے میں ایک چھوٹی سی تھیلی پیش کی۔ اس میں امام حسین کی قبر کی چند چٹکی مٹی تھی۔
لوگ اسے خاک شفا کہتے ہیں۔ جب کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تھی تو امی کہتی تھیں، میرے لال، تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ کم از کم میری زندگی میں تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ ہر ماں اپنے بچے کو ایسے ہی دلاسا دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ایک دن کہیں جارہے تھے۔ راستے میں انھیں ٹھوکر لگی۔ خدا نے آواز دی، موسیٰ سنبھل کر۔ اب تیرے لیے دعا کرنے والی ماں نہیں رہی۔
امی کا انتقال ہوا اور میری آنکھوں میں تکلیف ہوئی تو میں ڈاکٹر ہاشمانی کے اسپتال گیا۔ ڈاکٹر شریف ہاشمانی نے بتایا کہ میری آنکھوں میں موتیا اتر رہا ہے۔ سفید موتیا نہیں، کالا موتیا۔ سفید موتیا کے آپریشن کے بعد آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔ کالا موتیا آنکھیں لے کر چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا، ہم بیماری کو روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن بینائی گئی تو واپس نہیں آئے گی۔ علاج نہیں کرو گے تو سال دو سال میں اندھے ہوجاؤ گے۔ ہم ٹریٹمنٹ کریں گے تو چار پانچ سال مل جائیں گے۔
لوگ تصویر کا روشن رخ دیکھتے ہیں۔ دھندلی آنکھوں والوں کو ہمیشہ تاریک پہلو دکھائی دیتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آنکھیں گئیں۔ ان حالات میں پچھلی بار کربلا آیا تھا۔امام حسین کے روضے سے خاک شفا لینے کے بعد میں حضرت عباس کے روضے پر آیا۔ قرآن پاک خریدنے کے بجائے حرم کے اندر موجود دفتر پہنچ گیا۔ وہاں خدام سے تڑخی ہوئی عربی، شکستہ فارسی اور شستہ اردو میں پوچھا کہ کیا میں یہاں قرآن پاک رکھ سکتا ہوں؟ خدام کی سمجھ میں کوئی اور بات آئی۔ ایک نے قرآن پاک کا چھوٹا نسخہ اٹھاکر مجھے دیا۔ اس پر روضے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اس نے کہا، وعدہ کرو، اسے روز پڑھو گے؟ میں نے وعدہ کرلیا۔
خاک شفا آنکھوں پر مل لی۔ قرآن کا ایک صفحہ روز کھول کر دیکھ لیتا ہوں۔ بینائی بحال ہے۔ ہاشمانی اسپتال کے ڈاکٹر اب کہتے ہیں، پہلے ہماری مشین میں کوئی گڑبڑ تھی۔ غالباً تمھاری آنکھوں کی بناوٹ دھوکا دیتی ہے۔ تمھیں کالا موتیا لاحق نہیں۔ کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ کسی دوا کی ضرورت نہیں۔ کسی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس رپورٹس موجود ہیں۔ ریکارڈ موجود ہے۔ کراچی میں کوئی دیکھنا چاہے تو حاضر ہے۔
میں نظر کا چشمہ لگاتا ہوں لیکن پھر بھی آنکھوں میں درد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میری آنکھیں ضرورت سے زیادہ خشک رہتی ہیں۔ مصنوعی آنسوؤں کے ڈراپس ملتے ہیں۔ آنکھوں میں جب درد ہو، ایک دو قطرے ٹپکالیا کرو۔ میں دس مہینے وہ ڈراپس جیب میں رکھتا ہوں۔ محرم میں ضرورت نہیں پڑتی۔
امام حسین کی ضریح کے قریب ایک قبر حبیب ابن مظاہر کی ہے۔ یہ امام کے بچپن کے دوست تھے۔ کوفے میں کھانا کھارہے تھے کہ امام کا خط ملا۔ کھانا چھوڑکے کربلا کا رخ کیا۔ عاشور کے دن حبیب نے حبیب سے پہلے اپنی جان دی۔
لوگ کہتے ہیں کہ حبیب ابن مظاہر کی ضریح پر ہاتھ سے کسی دوست، کسی رشتے دار، کسی محلے دار کا نام لکھ دیں تو کربلا کا بلاوا آجاتا ہے۔ گویا یہ کوئی نوٹس بورڈ ہے۔ گویا یہ کوئی حاضری کی درخواست کا مقام ہے۔ سچ سچ بتاؤں؟ ہم کئی سال سے کربلا کا ارادہ کررہے تھے۔ پیسے بھی تھے، شوق بھی تھا، ہمت بھی تھی لیکن بلاوا نہیں تھا۔
ہم چھ سات سال پہلے ایک خاتون کے مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ اب ہم وہاں نہیں رہتے لیکن میری بیوی نے ان کے ہاں بیسی ڈالی ہوئی ہے۔ وہ اس ماہ بیسی دینے گئی تو آنٹی نے بتایا، وہ کربلا گئی ہوئی تھیں اور انھوں نے حبیب ابن مظاہر کی ضریح پر میرا نام لکھ دیا ہے۔ اب کربلا کا بلاوا آنے والا ہے۔ میری بیوی حیران رہ گئی کہ ہم تو واقعی چند دن میں روانہ ہونے والے ہیں۔