سفر کربلا اور روزہ امام حسین پر حاضری – مبشرعلی زیدی
خانیوال کے مرکزی امام بارگاہ میں ایک ضریح رکھی ہے جو میرے دادا ظفر حسن نے رام پور سے بنوائی تھی۔ شاید قیام پاکستان سے پہلے بنوائی ہوگی۔ بابا میرا ہاتھ تھام کے اس ضریح کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میرا بچپن تھا۔ میں ضریح کو تکتا رہتا تھا۔ بابا کہتے تھے کہ یہ امام حسین کے روضے کی شبیہہ ہے۔
شاید تبھی امام حسین سے محبت ہوگئی تھی۔آج کربلا پہنچ گیا ہوں۔ رات کا جاگا ہوا تھا۔ دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ لیکن اسی عالم میں حرم کی طرف چل دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ حسین کا لشکر تین دن تک بھوکا پیاسا رہا۔ سات محرم کو پانی بند ہوگیا تھا۔ آج سات محرم ہی تو ہے۔
امام حسین کے روضے پر جانے سے پہلے ایک اور جگہ گیا۔ وہ کون سی جگہ ہے، یہ کل بتاؤں گا۔ وہاں سے امام کے روضے پر پہنچا۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔میرا بیٹا اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھانی پڑیں اور اتنا بڑا بھی نہیں کہ بڑی بڑی باتیں سمجھ جائے۔ لیکن آج میں نے اسے ایک بڑی بات بتائی۔ جب بڑا ہوجائے گا تو سمجھ جائے گا۔
حرم کے دروازے سے امام کی قبر کی جالی تک، جسے ضریح کہا جاتا ہے، میں نے کہا کہ تم بڑے ہوکر جی چاہے تو سنی بن جانا،جی چاہے تو شیعہ، یا مرضی ہو تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تمھارا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔تم کسی بھی مذہب کا انتخاب کرنا لیکن یاد رکھنا کہ جس ہستی کے نام پر تمھارا نام رکھا ہے، اس کا دامن مت چھوڑنا۔
پھر میں نے گنبد کے نیچے دونوں حُسینوں کو گواہ بناکر کہا کہ میں نے دونوں کو ملادیا۔ آگے اُس حسین کی مرضی کہ دوبارہ بلاتا ہے یا نہیں اور اِس حسین کی مرضی کہ لوٹ کے آتا ہے یا نہیں۔نجف سے کربلا آتے ہیں تو راستے میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ زائرین کے مہمان خانے ہیں۔ عاشور پر اور چہلم پر، جسے یہاں اربعین کہا جاتا ہے، لوگ نجف سے پیدل چلتے ہیں اور تین دن سفر کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔ راستے میں خیمے لگاکر بیٹھے مقامی افراد انھیں مہمان بناتے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں۔ انھیں آرام دہ بستر فراہم کرتے ہیں۔
مقتل میں لکھا ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد ان کے اسیر خاندان کو اسے راستے سے کوفہ لے جایا گیا۔ کوئی مہمان خانہ نہیں تھا۔ کسی نے کھانا پانی نہیں پوچھا۔ لوگ تماشا سمجھ کر راستے میں کھڑے ہوجاتے تھے اور پتھر مارتے تھے۔
۔
کربلا میں قیامت کا رش ہے۔ عراق بھر سے اور پوری دنیا سے حسین کے ماننے والے آئے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے ہوٹلوں کا انتظام کرکے پہنچے ہیں۔ مقامی لوگ کسی انتظام کے بغیر آجاتے ہیں۔ کوئی قیام گاہ مل گئی تو اچھا ہے، نہیں تو زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کھلانے والے لنگر بہت، پلانے والی سبیلیں بہت۔ گرمی ہے تو درخت کے نیچے لیٹ کر سوگئے۔ سردی ہے تو حرم کی جانب سے ہزاروں کمبل تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن لاکھوں کے مجمع میں ہزاروں سے کیا ہوتا ہے۔
پچھلی بار آیا تھا تو سردی تھی۔ اس بار آتے ہی بارش دیکھنے کو ملی۔ پہلے موسلادھار بارش۔ پھر موسلادھار جلوس۔ ایک کے بعد ایک جلوس۔ طرح طرح کے جلوس۔میں نے کراچی میں عاشور پر سنی بھائیوں کے جلوس دیکھے ہیں۔ ان میں بچے لکڑی کی تلواریں چلاتے ہیں۔ بعض اہل تشیع اعتراض کرتے ہیں کہ غم کے دن یوں نہیں کرنا چاہیے۔
کربلا آکر دیکھیں، یہ سب یہاں ہوتا ہے۔ شاید یہ روایت کربلا ہی سے ہمارے ہاں پہنچی ہے۔ میں نے آج کئی جلوس دیکھے، عراقی قبیلوں، مقامی تنظیموں کے جلوس، جن میں کچھ نوجوان لشکر حسین کے نوجوانوں کا لباس پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلوار تھی، زبان پر رجز تھا۔ ایک کو گھوڑے پر بھی سوار دیکھا۔ ہر جلوس کے آگے اسکاؤٹ کے بجائے ملٹری بینڈ۔ نقارہ بج رہا ہے، اسلحے کی جھنکار ہے۔ پہلے آپ کو یاد آئے گا کہ یہ کربلا ہے۔ پھر یاد آئے گا کہ محرم ہے۔ تاریخ آپ کو مجسم دکھائی دے گی۔ کچھ دیر کے لیے آپ چودہ سو سال پیچھے پہنچ جائیں گے۔
۔
امام حسین کے روضے پر ایک گورا نظر آیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ کچھ دیر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑا رہا۔ پھر باہر نکل آیا۔
میں بھی باہر نکلا۔ سوچا کہ اپنی انگریزی کا امتحان لینا چاہیے۔ اس سے پوچھا، کہاں سے آئے ہو۔ اس نے بتایا، امریکا کا ہوں۔ میں نے سوال کیا، کوئی پروڈیوسر ہو؟ ڈاکومنٹری بنانا چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا، میں فنانشل اینالسٹ ہوں۔ میرا فلم ولم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعطیلات پر مشرق وسطیٰ گھوم رہا ہوں۔
میں نے کہا، تعطیلات پر ہو تو دبئی عمان کیوں نہیں گئے؟ امام حسین کے روضے پر کیسے آگئے؟وہ امریکی بھڑک گیا۔ کہنے لگا، تم واشنگٹن آتے ہو تو کیا ہم پوچھتے ہیں کہ ابراہام لنکن کے مقبرے پر کیسے آگئے؟ لوگ نجات دہندوں کو سلام کرنے، حاضری دینے آتے ہی ہیں۔ میں نے امام بارگاہوں میں لکھا دیکھا تھا، ان الحسین مصباح الھدیٰ سفینۃ النجاۃ۔ اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس غیر مسلم سے گفتگو کرکے گرہ کھل گئی۔