نجف آمد اور روضہ امام علی کی زیارت – مبشر علی زیدی
نجف اشرف کے ہوٹل پہنچے تو نماز کا وقت ہورہا تھا۔ محمد علی بھائی نے کہا، چلو حضرت علی کے روضے پر چلتے ہیں۔ میں نے کہا، زیارت بعد میں، پہلے نماز۔ مجھے کسی مسجد کا راستہ دکھائیں۔ محمد علی بھائی نے کہا، اچھا!محمد علی بھائی آگے چلے، میں پیچھے۔ اس سفر میں وہی ہمارے رہنما ہیں۔ منزل پر پہنچے۔ وہ حضرت علی کا روضہ تھا۔ میں نے کہا، آپ نے وعدہ کیا تھا، پہلے نماز پڑھیں گے، پھر زیارت کریں گے۔ لیکن آپ پھر وہیں لے آئے۔
محمد علی بھائی نے کہا، علی نے نماز کے قیام میں جان دی تھی۔ نماز کو قائم کرنے کی خاطر جان دی تھی۔ تمھارا کیا خیال ہے، علی کے روضے پر کیا ہوتا ہے؟ بھائی! یہاں نماز ہی تو ہوتی ہے۔حضرت علی کے روضے کے بالکل سامنے وادی سلام ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔مجھے ایک عجیب بات معلوم ہوئی۔ ہمارے ہاں کسی بیٹی کا رشتہ آتا ہے تو لڑکے کا شجرہ دیکھا جاتا ہے۔ یہاں باپ دادا کی قبروں کا پتا معلوم کیا جاتا ہے۔
وادی سلام میں پورے کے پورے خاندان ایک ساتھ دفن ہیں۔ ایک قبر کے نشان سے پورے قبیلے، پورے شجرے کا سراغ مل جاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی نسبت کی جاتی ہے۔وادی سلام میں کئی نبیوں کے مرقد ہیں۔ کل میں نے حضرت ہود اور حضرت صالح کی آخری آرام گاہ دیکھی۔ ایک عالم وہاں اپنی زبان میں ان انبیا کے حالات بیان کررہے تھے۔ مجھے وہ زبان نہیں آتی تھی۔ لیکن آپ پوچھیں گے تو پورا خطبہ سنادوں گا۔ کچھ مقامات پر زبان رکاوٹ نہیں بنتی۔
میں دمشق میں وہ مقام دیکھ چکا ہوں جہاں حضرت یحیٰ کا سر دفن ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ ان کا دھڑ وادی سلام میں ہے۔ میں ان کی قبر نہیں ڈھونڈ سکا۔میں ایک اور نبی کی قبر مبارک بھی دیکھ چکا ہوں۔ سنا ہے کہ بہت سے لوگ قیامت کے دن اندھے اٹھیں گے۔ میری آنکھیں تو اس دنیا میں دھندلی ہوئی جارہی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن روشن آنکھوں کے ساتھ اٹھایا جاؤں گا۔ اس کی وجہ اسی قبر مبارک کی زیارت ہے۔لوگوں کے شجرے درست کردینے والی وہ زیارت مدینہ میں ہے۔
کل ہم کوفہ گئے۔ کوفہ اور نجف جڑواں شہر ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کی طرح جڑے ہوئے نہیں، سچ مچ جڑواں شہر۔ سڑک کے بائیں طرف کوفہ اور دائیں طرف نجف۔کئی شہر دعوے دار ہیں کہ حضرت علی کا مزار وہاں ہے۔ ان میں افغانستان کا شہر مزار شریف بھی شامل ہے۔ لیکن نجف کی روایتیں زیادہ ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اسی کا دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے۔مسجد کوفہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ ایک مولانا صاحب نے بتایا کہ رسول خدا معراج کی شب مسجد اقصیٰ جاتے ہوئے کوفہ میں ٹھہرے تھے۔ یہاں اس مقام کا نشان ہے۔
خدام بتاتے ہیں کہ مسجد کے وسط میں وہ جگہ ہے، جہاں حضرت نوح نے کشتی تیار کی تھی۔ اسی مسجد کے اندر وہ کنواں ہے، جہاں سے پانی ابلا تھا اور پوری دنیا پانی پانی ہوگئی تھی۔ طوفان نوح کا واقعہ کس نے نہیں سنا۔یہاں وہ مقام ہے جہاں عبدالرحمان ابن ملجم نے 19 رمضان کو حضرت علی کو ضربت لگائی۔ لیکن وہ کون سا مقام ہے؟ یہاں دو محرابیں ہیں۔ ایک کے اطراف ضریح بنادی گئی ہے۔ دوسری کھلی ہوئی ہے۔مسجد کے صحن میں ایک مقام ہے جہاں حضرت علی کی عدالت لگتی تھی۔ مسلمانوں کے امام اور خلیفہ مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔ طویل سماعتیں نہیں ہوتی تھیں۔ فوری اور حقیقی انصاف کیا جاتا تھا۔
میرے اندر کا صحافی کسی مذہب کو نہیں مانتا، کسی معجزے، کسی کرامت کو نہیں مانتا۔ وہ صحافی کبھی کبھی سوچتا تھا کہ علی ایک سپاہی تھے، جرنیل تھے، عرب بڑے زبان داں ہوتے ہیں، علی بڑے خطیب تھے، سب تسلیم، سب درست لیکن علی کو مقدمات کے فیصلے کرنا کیسے آیا؟ کیا آپ نے کبھی ان مقدمات کا ذکر سنا ہے جو حضرت علی کی عدالت میں آئے؟ ان کے فیصلے عقل کو حیران کردیتے ہیں۔دو سال پہلے میں حج کرنے گیا تو ایک حاجی نے مسجد الحرام میں وہ مقام دکھایا، جہاں ابو طالب کی عدالت لگتی تھی۔ وہ مقدمت کے فیصلے کرتے تھے۔
کوفے میں مسجد کے ساتھ حضرت علی کا گھر ہے۔ اس میں حسن اور حسین کا کمرا ہے۔ علی کی بیٹیوں کا کمرا ہے۔ بی بی فاطمہ کا کمرا نہیں ہے۔ بی بی کا وصال مدینہ میں ہوا تھا۔ حضرت علی بعد میں کوفہ منتقل ہوئے اور اسے اپنا دارالخلافہ بنایا۔حضرت علی کے گھر میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی کتاب نہ پڑھی تو کیا پڑھا؟ لیکن وہاں سب کتابیں عربی میں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے عربی نہیں آتی۔ آتی تو ہے لیکن بس حروف پہچاننے کی حد تک۔پھر وہاں مجھے ایک کتاب ایسی نظر آگئی جو میں نے پڑھی ہوئی تھی۔ زیادہ وقت نہیں تھا۔ میں نے اس کتاب کا پہلا صفحہ پڑھا اور پھر آخری۔ بہت سکون ملا۔اس کتاب کا نام قرآن حکیم ہے۔