عباس علمدار کے لشکر یزید کے سامنے رجز – عامر حسینی

abbassthumb_big_other_4f624a76cfab3109d978460eac30028d

عباس علمدار نے لشکر یزید کے سامنے یہ رجز پڑھے تھے

أقسَمتُ بالله الأعَزّ الاعظم و بالحُجُور صادقاً و زَمزمٍ
و ذُوالحَطیم والفنا المُحَرّم لَیُخضَبَنّ الیوم جسمی بالدّم
اَمامَ ذی الفضل و ذی التّکرُّم ذاکَ حُسَینُ ذوالفَخَار الأقدم

مجھے اللہ کی قسم ہے جو سب سے بڑا عزت والا ہے – مجھے حجر صادق کی قسم ہے اور زمزم کی قسم ، صاحب حطیم کی قسم ، فنا ہوجانے کی قسم اور محرم کی مسم میں آج اپنے جسم کو خون سے خصاب دوں گا اس صاحب فضل و زی التکریم کے سامنے جو حسین ہے اور جو سب سے زیادہ عزب و احترام والا ہے

یہاں عباس علمدار کے رجز کا یہ مصرعہ بہت ہی کمال کا ہے کہ ” لَیُخضَبَنّ الیوم جسمی بالدّم ” یہ خون سے اپنے جسم کو خضاب دینا ، اپنے لہو میں رنگ جانا اور وہ بھی اپنے ” محبوب حسین ” کے سامنے ، اس سے زیادہ عاشق کو کیا چاہئیے ہوتا ہے ، قمر رضا شہزاد کا شعر یاد آرہا ہے کہ
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں شہزاد – لہو میں غسل کروں اور پاک ہوجاؤں ( لہو میں غسل کروں اور نہال ہوں جاؤں ، مست و الست ہوجاؤں ) حسین کے جانثاروں کے وقت شہادت اشعار سنئے تو ایک ایسی جذب و کیف والی حالت کا انکشاف ہوتا ہے کہ جس کا بیان لفظوں میں کیا نہیں جاسکتا ، کہ کسی کو ” لشکر یزید ” کے بڑے ہونے اور ان کی اپنی بے سروسامانی پر کوئی اندیشہ نہیں تھا

عباس علم دار کا جب لشکر یزید سے سامنا ہوا اور انہوں نے جناب عابس کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ نے یہ اشعار پڑھے

اُقَاتِلُ الیومَ بِقلبٍ مَهنَدٍ اَذُبُّ عن سِبطِ النَّبی احمدٍ
اَضرِبُکُم بِالصَّارِمِ المُهَنَّدِ حتّی تَحِیدُوا عَن قتال سیّدی
إنّی اَنَا العَبَّاسُ ذُو التَّوَدُّدِ نَجلُ عَلَیّ الطّاهِرِ المُؤیَّدِ
میں آج قلب مطمئن کے ساتھ لڑ وہا ہوں کہ میں نے نبی کریم احمد مصطفی کے نواسے کے دفاع کے لئے ہر مکمن کوشش کی
میں تمہیں ” سیف ہندی سے ماروں گا یہاں تک تمہیں اپنے سید سے قتال سے روک سکوں جہاں تک ہوسکے
میں عباس ہو ، صاحب عشق ہوں ، میں فرزند علی الطاہر ہوں اور تائید کیا گیا ہوں ( اللہ کی طرف سے )

اور جب خیموں سے بچوں کی پیاس سے آوازیں نہیں نکلتی تھیں اور مائیں ، پھوپیاں ، بہنیں پریشان تھیں تو عباس علمدار جب فرات کے کنارے پہنچ گئے اور وہاں ٹھنڈا پانی میسر تھا اور دل میں خیال آیا کہ ایک بک ٹھنڈے پانی کی پی لیں تو اس خیال کے آتے ہی اپنے نفس کو ملامت کرتے ہوئے بحارالانوار ملّا باقر مجلسی نے ابن عباس سے جو اشعار نقل کئے وہ اپنی جگہ پورا مرثیہ ہیں ، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جناب عباس علمدار کے عشق اور انسان دوستی کی عظیم مثال بھی ۔ عابس علم دار گویا ہوئے

یا نَفسُ مِن بعدِ الحسین هُونی و بعدَهُ لاکُنتَ أن تَکُونِی
هذا الحُسَینُ واردُ المَنُون و تَشرَبینَ بارِدَ المَعین
هیهاتَ مَا هَذَا فِعالُ دِینِی و لافِعَالُ صادِقِ الیَقِینِ

اے نفس ! حسین کے بعد مرے ” ہونے ” کے معانی کیا ہیں ؟
اور ان کے بعد میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو کہ میں ہوں
ایک طرف یہ حسین ہیں مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں
اور تو چاہتا ہے کہ میں ٹھنڈے پانی کو پی لوں
تف ہے ، یہ میرے دین کا طریقہ کار نہیں ہے
اور نہ ہی صادق الیقین کا فعل
عباس کہتے ہیں کہ ” حسین کے بعد ہونے کا مطلب کچھ نہیں اور ان کے بعد میں ہوں اللہ نہ کرے – کمال کا کردار ہے عباس علم دار کا کربلاء میں اور بیک وقت جلال و جمال کربلاء کا عکاس ہے عباس علمدار ، لشکر یزید کے لئے شمشیر بے نیام ہے عباس علمدار ، اپنے محبوب حسین کا جانثار ہے عباس علمدار

Comments

comments